• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی اور بڑھتے درجہ حرارت کی صورت میں اب تک کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے معیشت کے ہر شعبے میں زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ زہریلی گیس خارج کرنے والا ایسا ہی ایک شعبہ اسٹیل سازی کی صنعت ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کہ اگر دنیا میں بڑے پیمانے پر زہریلی گیسوں کا اخراج کم کرنا ہے تو اسٹیل سازی کی صنعت اس میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ، اسٹیل سازی کی صنعت میں یہ صلاحیت ہے کہ زہریلی گیسوں کے اخراج کو تیزی سے کم کیا جاسکتا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے میں بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔

اسٹیل سازی کی صنعت کی ڈی کاربنائزیشن کے لیے نہ صرف اس کی ویلیو چین میں شامل تمام صنعتوں بلکہ پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کے مابین بھی اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ قلیل سے وسط مدت میں نیٹ زیرو اسٹیل کی تیاری، روایتی طریقے سے تیار کیے جانے والے اسٹیل کے مقابلے میں زیادہ لاگت کی حامل ہوگی۔ اس فرق کو ختم کرنا یا کم کرنا ایک چیلنج ہوگا، جس پر قابو پاکر ماحول دوست اور پائیدار اسٹیل سازی کی صنعت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

نیٹ زیرو اسٹیل کی طرف سفر

نیٹ زیرو اسٹیل کے حصول کی طرف سفر کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے ابھی حال ہی میں ’نیٹ زیرو اسٹیل سیکٹر ٹرانزیشن اسٹریٹجی‘ جاری کی گئی ہے۔ اس مطالعہ میں اس لائحہ عمل پر تفصیلی بحث اور گفتگو کی گئی ہے جسے اختیار کرکے اسٹیل سازی کی صنعت کو کاربن سے پاک بنایا جاسکتا ہے۔ یہ مطالعہ گزشتہ سال، دنیا بھر کی نمایاں اسٹیل ساز کمپنیوں کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ کا نیا ورژن ہے، جس میں مزید تحقیق کو شامل کیا گیا ہے۔

لائحہ عمل واضح ہے: ہمارے طویل مدتی ماحولیاتی اہداف کے حصول اور نیٹ زیرو ٹیکنالوجی کی طرف ترتیب وار منتقلی کے لیے ابھی اور آج سے کام کرنا ناگزیر ہے۔ طویل مدتی لائف سائیکل کے حامل اسٹیل سازی کے پلانٹ کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ یا نئے تعمیر ہونے والے اسٹیل سازی کے پلانٹ 2030ء کے آغاز سے 2050ء کے نیٹ زیرو اہداف کے حصول پر نظر رکھیں بصورت دیگر ان کا مستقبل غیریقینی ہوجائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ 2030ء تک تجارتی پیمانے پر نیٹ زیرو پلانٹ کام کا آغاز کردیں تاکہ اس تصور کا عملی نمونہ موجود ہو۔

اعدادوشمار کا گورکھ دھندا

اگر ماحولیات دوست صنعتوں کے فروغ کے لیے مل کر سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو ایک دہائی کے عرصہ میں ہی ہدف کے بہت قریب پہنچا جاسکتا ہے۔ 2030ء تک کاربن اخراج میں 10فی صد اضافی کمی کا ہدف انتہائی کم لاگت میں حاصل ہوسکتا ہے۔ مزید برآں، کاربن اخراج روکنے کے لیےریگولیٹری اور پالیسی اقدامات کی تشکیل اور انھیں مؤثر بنانے میں52 ڈالر فی ٹن سرمایہ کاری کے ذریعے زہریلی گیسوں کے اخراج میں ممکنہ طور پر 33فی صد اضافی کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 2030ء تک سالانہ ایک گیگا ٹن (Gt)کاربن اخراج میں کمی اور تاخیر سے منتقلی کے مقابلے میں 2050ء تک مجموعی طور پر اضافی 15 گیگا ٹن کاربن اخراج سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ چین کے سالانہ مجموعی کاربن اخراج سے زیادہ ہے۔

لائحہ عمل مطالعہ میں ان تمام ٹیکنالوجیز کا احاطہ کیا گیا ہے، جنھیں اسٹیل سازی کی صنعت ، ڈی کاربنائزیشن کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔ خام اسٹیل کے مقابلے میں قدرتی گیس سے براہِ راست اسٹیل کی تیار ی میں کاربن اخراج میں تقریباً ایک ٹن کاربن کی بچت ہوگی، جو روایتی طریقے کے مقابلے میں 45فی صد ہے۔ موجودہ روایتی بلاسٹ فرنس یعنی بنیادی آکسیجن فرنس میں ’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج‘ (CCS)کی تنصیب کے ذریعے کاربن اخراج میں بڑی کٹوتی لائی جاسکتی ہے۔ جیسے جیسے قابلِ تجدید ذرائع سے زیرو کاربن مصنوعات کی تیاری کی لاگت کم ہوگی، اسٹیل سازی کی صنعت میں بھی اس کے استعمال کی مسابقت بتدریج بڑھتی جائے گی۔ ان آپشنز کی مسابقت کا دارومدار مقامی طور پر انفرااسٹرکچر کی دستیابی اور توانائی حصول کے مختلف ذرائع تک رسائی کے ساتھ مشروط ہے۔

متذکرہ بالامطالعہ کے مطابق، اسٹیل سازی کی صنعت میں جہاں کاربن اخراج میں بڑے پیمانے پر تیزی سے کمی لائی جاسکتی ہے، وہاں اس صنعت کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ نیٹ زیرو سے مراد کاربن اخراج کا خاتمہ نہیں ہے۔ اس صنعت سے کاربن اخراج کا کچھ حصہ ایسا ہے جسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیٹ زیرو کے باوجود اس صنعت سے سالانہ تقریباً 30 کروڑ ٹن کاربن اخراج ہوگا، جوکہ اس صنعت کے موجودہ اخراج کا تقریباً 10فی صد ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر CSSآلات کا 100فی صد استعدادی صلاحیت کا حامل نہ ہونا اور الیکٹرک آرک فرنس میں برقی انداخت (الیکٹروڈز) کا ٹوٹنا ہے۔

2050ء تک اسٹیل سازی کی صنعت کو ڈی کاربنائز کرنے کے لیے اضافی لاگت کا تخمینہ معمولی ہے۔ تاہم، بڑی سرمایہ کاری اس صنعت سے باہر درکار ہے، جس میں توانائی پیداوار کے لیے معاون انفرااسٹرکچر اور کاربن اسٹوریج شامل ہے، جس کی لاگت زیادہ ہونے کا تخمینہ ہے۔ اگر اس صنعت کو کاربن سے پاک کرنے کے لائحہ عمل پر ابھی سے کام نہ کیا گیا تو 2050ء میں اسٹیل سازی کی لاگت موجودہ کے مقابلے میں (مہنگائی میں اضافے کی شرح شامل نہیں)15فی صد تک زیادہ ہوگی۔