• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلامِ اقبال میں غیر مسلم مشاہیر و فلاسفہ کا تذکرہ

شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمّد اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ اُن کی تخلیقات قاری کو اُن کا گرویدہ کرتی، شیدائی بناتی ہیں۔ بلاشبہ، مسلم اُمہ کے لیے اُن کی خدمات مثالی ہیں، انھوں نے بحیثیت شاعر، مفکّر اور فلسفی، مایوسی اور غلامی کے اندھیروں میں گِھرے مسلمانوں کو پستیوں سے نکلنے کا راستہ دکھایا۔

تاہم، ان کے عمومی مخاطب امتِ مسلمہ کے نوجوان تھے، جنھیں وہ آنے والے دَورِجدید کی سائنسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں، اُن کی شاعری اور خیالات میں نہ صرف اُن کے اپنے دَور کا عکس ملتا ہے، بلکہ وہ پچھلے زمانے کے شعراء، مفکّرین اور فلاسفہ کے خیالات کا جائزہ لے کر اُس سے خاطر خواہ نتیجہ بھی اخذکرتے تھے، جو اُن کے وسیع مطالعے اور فکری پختگی کی واضح دلیل ہے۔ 

قبل از مسیح سے بیسویں صدی تک کے مفکّرین کا ذکر اور اُن کے خیالات کا پَرتو جہاں اُن کی شاعری میں نظر آتا ہے، وہیں اُن کے کلام میں مسلم شخصیات کے علاوہ بہت سی غیر مسلم شخصیات کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ ان غیر مسلم مشاہیر کی زندگی اور اُن کے علمی کاموں میں سے ایسے ایسے نکتے ڈھونڈ کر لائے، جو ان کے پڑھنے والوں اور خاص طور پر نوجوانوں کے سامنے بطور مثال پیش کیے جاسکیں۔ شاعرِ مشرق، علّامہ محمد اقبال کے 145ویں یومِ ولادت کے موقعے پر اُن کے کلام میں موجود کچھ اہم غیر مسلم شخصیات کا مختصر سوانحی خاکہ ذیل میں پیشِ کیا جارہا ہے، جو یقیناً اقبالیات کے طلبہ کو مزید تحقیق کی دعوت دے گا۔

بھرتری ہری:

بالِ جبریل کے آغاز میں اقبال کا مشہور شعر ہے ؎ پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر.....مردِناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔ اس شعر میں اقبال نے سنسکرت کے ماہرِ لسانیات اور مشہور فلسفی شاعر، بھرتری ہری کے خیالات کی عکّاسی کی ہے۔ بھرتری کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’عیّار شخص کو نصیحت کرنا، ہاتھی کو کنول کے پھول سے ہانکنے یا ہیرے کو پھول کی پتّی سے کاٹنے یا پھر سمندر کا کھارا پانی ایک قطرئہ شہد سے میٹھا کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ بھرتری پہلی صدی قبلِ مسیح میں ایک شاہی خاندان میں پیدا ہوا۔ 

بعض مؤ رخین کے نزدیک وہ راجا بکر ماجیت کا بھائی تھا، مگر پھر جلد ہی اپنی شاہی زندگی کو خیر باد کہہ کر جنگلوں میں نکل گیا اورایک جوگی کی زندگی گزارنے لگا۔ جنگلوں میں سنیاس لینے سے پہلے بھی بھرتری صاحبِ علم تھا اور اُس نے راج نیتی پر بہت کچھ لکھا، مگرشاہی زندگی ترک کرنے کے بعد معرفت، فقیری، ذات شناسی اور صرف ونحوہی اُس کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ بھرتری کو آج بھی سنسکرت زبان کا عظیم شاعر، فلسفی اور ماہرِ لسانیات سمجھا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق بھرتری نے کچھ وقت جہلم کے نزدیک ٹلہ جوگیاں میں جوگیوں کی صحبت میں بھی گزارا۔

دانتے الیگیری:

اقبال اپنی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ کے تعارف میں فرماتے ہیں، ’’یہ کتاب حقیقت میں ایشیا کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ہے، جیسے دانتے کی تصنیف یورپ کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔‘‘ ڈیوائن کامیڈی دراصل دانتے کی ایک طویل تمثیلی نظم ہے، جس میں وہ روم کے عظیم شاعر ’’ورجل‘‘ کے ساتھ جہنم، اعراف اور جنّت کی سیر کرتا ہے۔ دانتے مشہور فلسفی شاعر تھا۔ وہ 1265ء میں اٹلی میں پیدا ہوا۔ جنّت، دوزخ، عالمِ برزخ، حیات بعدازموت اور اطالوی زبان کی ترویج اُس کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ 

ڈیوائن کامیڈی سے متعلق ماہرینِ لسانیات کا کہنا ہے کہ یہ ابنِ عربی کی ’’فتوحات ِ مکیہ‘‘ سے مستعار خیال ہے۔ یہ نظم خالصتاً ادبی زبان میں لکھی گئی ہے۔ جب کہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں اقبال اپنے روحانی مرشد، رومی کے ساتھ آسمانوں میں مختلف مقامات کی سیر کرتے ہیں، جس کے دوران اُن کی ملاقات نام وَر مذہبی اور علمی شخصیات سے بھی ہوتی ہے اور پھر اُن سے وہ مختلف موضوعات پر گفتگو بھی کرتے ہیں۔

وشوامتر:

’’جاوید نامہ‘‘ میں اقبال اور اُن کے روحانی مرشد جب آسمانوں کے تخیّلاتی سفر پر نکلتے ہیں، تو سب سے پہلے اُن کی ملاقات ’’جہاں دوست‘‘ سے ہوتی ہے۔ مفسّرین کے نزدیک جہاں دوست سے مراد ایک قدیم ہندو رشی (مذہبی شخصیت) وشوامتر ہے، جس کے نام کا فارسی میں مطلب ’’جہاں دوست‘‘ ہے۔ وشوامتر، اقبال اور رومی سے سائنس، انسان، رُوح اور مذہب جیسے علمی معاملات پر مبنی اُلجھے ہوئے سوال کرتا ہے، جس کا اقبال نہایت مدلّل جواب دیتے ہیں۔

وشوامتر کے پیدائش کے سال کے بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا، لیکن روایات کے مطابق اس نے اپنی زندگی تخلیقِ کائنات اور خالقِ کائنات جیسے موضوعات پر غور و فکر کرتے گزاری۔ وہ ہندوئوں کے بھگوان، رام چندر کا استاد بھی تھا اور ہندوئوں کی مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ کے کچھ حصّے بھی اس کے نام سے منسوب ہیں۔

گوتم بدھ:

بانگِ درا میں اقبال کی نظم’’نانک‘‘ کے شروع کے چند اشعار میں گوتم بدھ کا ذکر آیا ہے۔ نظم کا پہلا شعر ہی اقبال کی نظر میں گوتم کے پیغام کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ بانگِ درا کے علاوہ جاوید نامہ میں بھی اقبال اور گوتم کی تصوّراتی ملاقات کاذکر ہے؎ قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی.....قدر پہچانی نہ اپنے گوہرِ یک دانا کی۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں برصغیر اور اس کے قرب وجوار میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر انسانیت کی تذلیل عام تھی۔ ایسے میں نیپال میں ایک شاہی خاندان کے یہاں سدھارتا گوتم کی پیدائش ہوئی، جن کے خیالات سے جلد ہی برصغیر سمیت دنیا کا ایک بڑا حصّہ مستفید ہوا۔ 

گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق، انسانی زندگی میں چار اہم مدارج ہیں، جنھیں ’’چار سچائیوں‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مصائب یا مشکلات پہلی سچائی ہے، جس کا ہر انسان کوسامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری سچائی، ان مصائب کی وجہ یعنی انسان کے اعمال ہیں۔ تیسری سچائی، ان مصائب و مشکلات کا خاتمہ اور آخر میں ان مشکلات کے خاتمے کے لیے کیے گئے اچھے اعمال ہیں۔ گوتم کے نزدیک انسان اپنی خواہشات ختم کرکے بار بار پیدا ہونے کے عذاب سے بچ سکتاہے۔ 

یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے کہ گوتم نے کبھی نہ تو خدا ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اپنا بُت بنانے کا حکم دیا۔ یہ سب کچھ اُن کی وفات کے دو سو برس بعد شروع ہوا۔ اقبال اپنے کلام میں اُنھیں راست باز اور انسانوں کو برائی سے بچانے والا مذہبی رہنما قرار دیتے ہیں۔ آسمانوں کے سفر میں جب اقبال کی ملاقات گوتم سے ہوتی ہے، تو اُس وقت بھی وہ ایک رقاصہ کو سیدھے رستے پر چلنے کی تلقین کررہے ہوتے ہیں۔

گرونانک:

سِکھ مذہب کے بانی اور سِکھوں کے پہلے گرو بابا، گرونانک 1469ء کو لاہور کے نزدیک ایک قصبہ تلونڈی میں، جسے اب ننکانہ صاحب کہا جا تا ہے، پیدا ہوئے۔ بابا گرونانک کی پیدائش کے وقت بھی ہندوستانی معاشرہ چُھوت چھات اور ذات پات کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ کم ذات کے ہندوئوں کی زندگی اجیرن تھی۔ ایسے میں باباگرو نانک نے پیار ومحبت اور امن و مساوات کا پرچار کیا۔ اُنھیں مسلمان صوفیا سے گہری عقیدت تھی۔ 

حضرت فریدالدین گنج شکر (پاک پتن) کے کچھ اشعار سِکھوں کی مقدّس کتاب ’’گرو گرنتھ صاحب‘‘ میں شامل ہیں۔ بابا نانک انسان دوستی، امن، مساوات، پیار ومحبت اور رحم دلی کے پیام بَر تھے اور ان ہی خصوصیات کے باعث اقبال نے اُنھیں اپنے کلام میں ’’مردِ کامل‘‘ کے لقب سے مخاطب کیا ہے۔

کارل مارکس اورلینن:

بالِ جبریل میں شامل اقبال کی مشہورنظم ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ مفہوم اور معنی کی اعتبار سے لاجواب سمجھی جاتی ہے۔ لینن، موت کے بعد خدا کے سامنے پیش ہوکر مذہب میں اپنی کم عِلمی کے باعث دنیا میں خدا کو نہ ماننے پر شرمندگی کا اظہارکرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اب جب میں نے خدا کو دیکھ لیا ہے، تو مجھے خدا کی ذات پر اعتبار آگیا ہے۔‘‘ لینن جیسے فلسفی سیاست دان کے خدا کے حضور پیش ہوکر اپنی کم عِلمی کے اقرار کو اہلِ علم میں بہت پذیرائی ملی۔ لینن 22 اپریل 1870ء کو سمبرسک میں پیدا ہوئے، جو دریائے وولگا کے کنارے آباد ہے۔ 

لینن روسی انقلابی، اشتراکی سیاست دان اور روسی سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کے پہلے رہنما تھے۔ وہ کارل مارکس کے شاگرد،کمیونسٹ انٹرنیشنل پارٹی کے بانی اور 1917ء میں ہونے والے انقلابِ روس کے منتظم بھی تھے۔جب کہ اشتراکیت کے بانی کارل مارکس 5 مئی 1818ء میں جرمنی کے شہر ترئیر میں ایک قانون دان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ وہ ایک جرمن فلاسفر اور تاریخ دان تھے، لیکن سیاست اور معاشیات میں خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ 

کارل مارکس سرمایہ دارانہ نظام کے کٹّر مخالف تھے، جو مزدور کی محنت کا بڑا حصّہ اپنا منافع سمجھ کر جیب میں ڈال لیتا تھا۔ کارل مارکس کے معاشی نظریات صدیوں سے قائم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے، جسے لینن نے انقلابِ روس کے بعد عملی جامہ پہنایا۔ ضربِ کلیم میں ’’کارل مارکس کی آواز‘‘ کے عنوان سے اقبال نے انھیں یاد کیا ہے۔

مسولینی:

قوم پرست اطالوی رہنما، بینیٹو مسولینی 1883ء کو اٹلی میں پیدا ہوئے۔1929میں جب علامہ اقبال گول میز کانفرنس کے لیے برطانیہ گئے، تو اُنھیں مسولینی کی طرف سے اٹلی کے دورے کی دعوت ملی۔ علّامہ اقبال نے دعوت قبول کرلی اور وہاں پہنچے، تو مسولینی سے اُن کی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ مسولینی کی قوم پرست تحریک کے باعث بقیہ یورپ مسولینی سے نالاں تھا۔ اقبال نے مسولینی کو مشرق سے دوستی کا مشورہ دیا۔ 

ملاقات کے آخر میں مسولینی نے اقبال سے مزید صائب مشورے کی درخواست کی، تو جواب میں اقبال نے حدیث نبویؐ کی روشنی میں فرمایا کہ ’’اپنے ہر شہر کی آبادی کی حد مقرر کریں اور آبادی اُس حد سے بڑھنے کی صورت میں نئی بستی آباد کریں۔‘‘ مسولینی نے علّامہ اقبال کے اس مشورے کو بہت سراہا۔ اقبال نے بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں مسولینی کو دو نظموں کی صورت خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

نپولین:

نپولین اوّل 1769ء میں کورسیکا کے شہر اجاسیو میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام نپولین بوناپارٹ تھا۔ وہ فرانس کا عظیم سیاسی لیڈر اور سپاہ سالار تھا۔ اس کا شمار دُنیا کے عظیم سپاہ سالاروں میں کیا جاتا ہے۔ اپنے عہد میں اُس نے کئی فوجی معرکے اپنے نام کیے۔ 

برطانوی فوج کے لیے وہ ہمیشہ دردِسر بنارہا، تاہم اُس ہی کے ہاتھوں واٹرلو کے مقام پر اُسے آخری شکست ہوئی۔ نپولین عیسائی تھا، مگر بعض مؤ رخین کے مطابق، اسلام کی تعلیمات سے بہت متاثر تھا۔ اقبال پیرس کے دورے کے دوران نپولین کی قبر پر بھی گئے اور وہاں ایک مختصر نظم ’’نپولین کے مزار پر‘‘ تحریر کرکے اس عظیم سپاہ ِسالار کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

فریڈرک نطشے:

جرمن فلسفی، فریڈرک نطشے 15 اکتوبر 1844ء کو جرمن صوبے سیکسنی کے ایک قصبے میں ایک پادری کے ہاں پیدا ہوا۔ وہ انسانی معاملات میں طاقت کو فیصلہ کُن عنصر سمجھتا تھا۔ اُس نے بہت سے گیت لکھے اور اُن کی دُھنیں بھی بنائیں، لیکن آگے چل کر فلسفے اور لسانیات پر مبنی اُس کی معرکتہ الآراء تصانیف اس کے اصل میدان کی بنیاد بنیں۔ 

اس کے فوق البشر(super man) کے تصوّر کو یورپ میں بے پناہ شہرت ملی۔ علّامہ اقبال تعلیم کے سلسلے میں جرمنی گئے، تو اُنھیں نطشے کے خیالات کے تفصیلاً سے مطالعے کا موقع ملا، جس کا اشارہ اُن کے کلام میں کئی جگہ ملتا ہے۔ اقبال نطشے کے خیالات کے منفی اور مثبت پہلوئوں سے خوب واقف تھے۔اُس کے کچھ خیالات اسلام کے خاصے قریب تھے، مگر وہ خدا کا منکر تھا۔ اقبال کے نزدیک اُس کا دل مومن اور دماغ کافر تھا۔

گوئٹے:

جون وولف گینگ وان گوئٹے 1749ء میں پیدا ہوا۔ وہ جرمن زبان کا شاعر، نثرنگار، فلسفی اور سیاست دان تھا۔ فلسفۂ اسلام سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ’’ دیوانِ حافظ‘‘ سے متاثر ہوکر اُس نے اپنے دیوان کا نام ’’دیوانِ مغرب‘‘ رکھا۔ حضرت محمدﷺ کا مدّاح اور عاشق تھا۔ 

اپنے اس دیوان میں اُس نے آپﷺ کی بارگاہ میں عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اسلام کو ایک جامع اور مکمل دین قرار دیا۔ اقبال نے ’’جوئے آب‘‘ کے عنوان سے اس نظم کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ گوئٹے کے فلسفے کے مطابق انسان صرف عقل اور عِلم کی بدولت حقیقت کو نہیں پاسکتا، بلکہ اس کے لیے فطرت کو سمجھنا بھی اشد ضروری ہے۔