• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظیم محقّق، ابو ریحان البیرونی نے گیارہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد اپنے مشاہدات کو ایک کتاب کی صُورت یک جا کیا، جس کا اُردو ترجمہ ’’کتاب الہند‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب آج بھی ہندوستان اور ہندو معاشرے پر لکھی گئی ایک اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ 

البیرونی لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں بسنے والے ہندو اور مسلمان دو ایسے دریاؤں کی مانند ہیں کہ جو ساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں، مگر کبھی بھی مخلوط نہیں ہوتے۔‘‘ البیرونی کی اس تحریر کے 900 برس بعد بھی یہ دو دریا ایک دوسرے میں مدغم ہوئے بغیر ایک ساتھ بہتے رہے، لیکن پھر برطانوی تسلّط نے برِّعظیم کی سیاست کو یک سر بدل کر رکھ دیا۔ انگریز، جو یہاں تجارت کی غرض سے آئے تھے، جلد ہی پورے خطّے کے مالک بن بیٹھے۔ 

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں پہلے سے بسنے والی دونوں قومیں یعنی ہندو اورمسلمان مل کران غاصبوں کواپنے وطن سے نکال کر دوبارہ اپنی حکومت قائم کرتیں اور پہلے کی طرح امن و سُکون سے الگ الگ رہنے لگتیں، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ کچھ ایسے واقعات رُونما ہوئے کہ جن کے نتائج نے مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ مُلک کا مطالبہ کرنے پر مجبورکردیا۔ ان حالات و واقعات کی تفصیل جاننے اور اس ضمن میں ہندوؤں اور انگریزوں کے سیاسی کردار کی تفہیم کے بعد ہی ہم مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبے کی وجوہ جان سکتے ہیں۔

یاد رہے، برِّعظیم میں انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا اور یہی اَمر ان دونوں اقوام کے مابین خلیج کی ایک بڑی وجہ تھا، جب کہ انگریزوں کی آمد سے بظاہر ہندوؤں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور اسی لیے وہ 1857ء کی جنگِ آزادی کی تمام تر ذمّے داری مسلمانوں پر ڈال کر انگریز حاکم کے وفادار بن گئے، جس کی ایک بڑی مثال 1885ء میں ایک انگریز ہی کی ایماء پر تشکیل دی جانے والی سیاسی جماعت، ’’انڈین نیشنل کانگریس‘‘ ہے، جو گرچہ خُود کو ہندوستان کی تمام اقوام کی نمائندہ سیاسی جماعت قرار دیتی تھی، مگر پھر وقت نے ثابت کیا کہ اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں اور کانگریس محض ہندوؤں کی جماعت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد، سرسیّد احمد خان نے مسلمانوں کو کانگریس سے الگ رہنے اور تعلیمی میدان میں ہندوؤں کی برابری کا مشورہ دیا، جس پرعمل کرتے ہوئے مسلمانوں نے اپنی پوری توجّہ حصولِ تعلیم پرمرکوزکردی۔ 

سرسیّد ہی کے تیار کردہ مسلمان رہنماؤں نے 1906ء میں وائسرائے ہند سے ملاقات کی اور برِّعظیم کے مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے کچھ عرض داشتیں پیش کیں، جن کا کانگریس نے کبھی ذکر تک نہیں کیا تھا۔ ان درخواستوں میں سے ایک درخواست بنگال کی دو حصّوں میں تقسیم پر مبنی تھی۔ واضح رہے کہ تب بنگال کا صوبہ بہت بڑا تھا، جس کی وجہ سے وہاں انتظامی امور دِگرگوں تھے اور بہتری کے لیے اصلاحات کی ضرورت تھی۔ بنگال کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے سے ایک تو وہاں انتظامی امور بہتر ہونے کی اُمید تھی۔

دوم، نئے بننے والے صوبے میں مسلم اکثریت کے باعث آئندہ انتخابات میں وہاں مسلمانوں کی حکومت بننے کی توقّع تھی۔ انگریزوں نے یہ تجویز منظور کرتے ہوئے بنگال کو دو صوبوں میں تقسیم کردیا، جو مسلمانوں کی ایک بہت بڑی کام یابی تھی۔ گرچہ کانگریس کو تقسیمِ بنگال سے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا، کیوں کہ ہندوؤں کی اکثریت ایک حصّے میں برقرار تھی، مگر کانگریس مسلمانوں کو خوش اور کام یاب نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ 

لہٰذا، ہندوؤں کی اس جماعت نے فوری طور پر تقسیمِ بنگال کی تنسیخ کا مطالبہ کردیا۔ گاندھی نے بھی اس مطالبےکی بھرپورحمایت کی اور پھر کئی برسوں کی کوششوں کے بعد بنگال کی تقسیم منسوخ کر کے یہ ثابت کردیا کہ گاندھی اور کانگریس سے مسلمانوں کی بھلائی کی توقّع رکھنا عبث ہے۔

شملہ وفد کی ایک اور اہم کام یابی مسلمانوں کے لیے جُداگانہ انتخاب کی منظوری تھی۔ برِّعظیم میں مسلمان اقلیت میں تھے اورہراقلیت کی طرح مخلوط انتخاب میں مسلمانوں کے لیے اپنے دُرست نمائندے چُننا ممکن نہ تھا۔ انگریزحکومت کے اس عمل کی بھی کانگریس نے بھرپور مخالفت کی، جب کہ گاندھی تو آخر تک جُداگانہ انتخاب کی بھرپور مخالفت کرتے رہے۔ 

تاہم، کانگریس کے اس مخاصمانہ رویّے کے باوجود قائدِ اعظم سمیت کئی مسلمان رہنماؤں نے کانگریس میں اپنی شمولیت برقرار رکھی اور اپنی سیاست کے ابتدائی ایّام میں ان کی یہی کوشش رہی کہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی جائے۔ اپنی اِسی سوچ کی بنیاد پر قائدِاعظم 1920ء تک کانگریس کے رُکن رہے، مگر پھر اُنہیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اپنی اکثریت کی بنیاد پر ہندو پورے برِّعظیم پر قابض ہو جائیں گے اور اپنی ہندو توا ذہنیت کے باعث مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھیں گے۔

1928ءمیں شائع ہونے والی ’’نہرو رپورٹ‘‘ بھی ہندوؤں کی مسلمان دشمن ذہنیت کی بھرپور عکّاسی کرتی تھی۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ 1927ء میں حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان کے لیے’’سائمن کمیشن‘‘ مقرّر کیا، جس کا مقصد ہندوستان کے حالات کا جائزہ لے کر آئینی اصلاحات کی تیاری تھا۔ ہندوستان کی سیاسی جماعتوں نے اس کا بائیکاٹ کیا اور اس کمیشن کے جواب میں موتی لال نہرو نے آل پارٹیز کانفرس کے انعقاد کے بعد کچھ آئینی اصلاحات پرمبنی تجاویز پیش کیں، جسے ’’نہرو رپورٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

ان تجاویز میں مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے جُداگانہ طریقۂ انتخابات کو منسوخ کرنے اور اُردو کی، جو کہ ہندوستان میں عام بولی اور سمجھی جانے والی زبان تھی، مخالفت میں ہندی کو سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس رپورٹ کےجواب میں قائدِ اعظم نے انتہائی متوازن ’’چودہ نکات‘‘ پیش کیے، جن میں مسلمانوں کے مفادات کا خاص خیال رکھا گیا۔

یہاں قابلِ ذکر اَمر یہ بھی ہے کہ برِّعظیم میں مسلمانوں نے اپنے دَورِ حکومت میں ہندوؤں کو ہمیشہ اُن کے جائز حقوق دیے۔ اُس دَور میں ہندوؤں کو اپنے مذہب اور رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی تھی۔ نیز، مسلمان بادشاہوں کے دربار میں ہندو اُمرا، وزرا اور مُشیروں کی موجودگی اس بات کی عکّاسی کرتی تھی کہ اسلامی حکومت میں مسلمانوں کے علاوہ بھی ہر ایک کو اپنی قابلیت کے بھروسے پر آگے بڑھنے کی اجازت تھی، مگر جدوجہدِ آزادی کے دوران ہندوؤں کا رویّہ اس کے برعکس تھا، جس کی سب سے بڑی مثال 1937ء میں کانگریس کی جانب سے قائم کردہ وزارتیں تھیں۔ 

برطانوی قانون مجریہ 1935ء کے تحت 1937ء میں ہونے والے انتخابات میں کانگریس نے7 صوبوں میں حکومت بنائی اور ان صوبوں میں کانگریس کی وزارتوں کی کارکرگی نے محض دو سال کے قلیل عرصے ہی میں اُس کی مسلمان دشمن ذہنیت کوعیاں کردیا۔

اس عرصے میں کانگریسی حکومت نے اپنی مسلمان رعایا کے حقوق کی پاس داری کرنے کی بجائے اُلٹا اُن پر ناجائز پابندیاں لگانا شروع کردیں، جن میں سے کچھ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر کانگریسی حکومت نے گائے کا ذبیحہ ممنوع قرار دے دیا۔ مسلمانوں کی درس گاہوں سمیت تمام تعلیمی اداروں میں دن کا آغاز’’بندے ماترم‘‘ گیت سے کیے جانے کا حُکم دیا۔ واضح رہے کہ یہ گیت متعصبانہ ہندو ذہنیت اور بُت پرستی کی تعریف پرمبنی ہے۔ اذان اور نماز کے دوران مساجد کے باہر ڈھول پیٹنے کی اجازت دے دی گئی۔ 

مسلمانوں کو ہندی پڑھنے پر مجبور کیا جانے لگا اور کانگریس کے جھنڈے کو قومی پرچم کی جگہ دے دی گئی۔ سات صُوبوں پر ڈھائی سال حکومت کرنے کے بعد کانگریس برطانوی پالیسیز سےاختلاف کے باعث مستعفی ہوگئی، جس پرمسلم لیگ نے قائدِاعظم کی ہدایت پر ’’یومِ تشکّر‘‘ منایا۔ نیز، اب مسلمان بہتر طور پر جان چُکے تھے کہ اگر انگریزوں کے بعد حکومت ہندوؤں کو مل گئی، تو وہ مسلمانوں سے کیسا سلوک کریں گے۔

23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ نے قائدِ اعظم کی قیادت میں لاہور میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطّےکا مطالبہ کیا، تو ہندوؤں نے اس کی بھرپور مخالفت کی اوراسے’’دیوانےکے خواب‘‘ سے تعبیر کیا۔ ہندوؤں کی اب بھی یہی کوشش تھی کہ ہندوستان کسی صُورت تقسیم نہ ہو اور وہ یہاں بِلا شرکتِ غیرے حکومت کریں، لیکن 1857ء سے1940ء تک رُونما ہونے والے واقعات نے ہندو ذہنیت کو مسلمانوں کے سامنے عیاں کردیا تھا اور وہ جان گئے تھے کہ صدیوں تک ساتھ ساتھ بہنے والے ان دریاوں کے درمیان ٹھوس حدبندی ضروری ہے، کیوں کہ مسلمانوں نے اپنی جس بصیرت اور فہم و فراست کے تحت ہندو رعایا کو اپنے ساتھ رکھا تھا۔

ہندو سیاسی قیادت اُس سے عاری ہے اور ایک ایسے ہندوستان کے خواب دیکھ رہی ہے کہ جس میں مسلمانوں کی آزاد حیثیت کا کوئی وجود نہیں اور ان کے یہاں رہنے کی ایک ہی صُورت ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کے غلام بن جائیں یا پھر اپنے لیے ایک الگ خطّے کے حصول کی جدوجہد کریں۔ برِّعظیم کے مسلمانوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور قائدِاعظم کی قیادت میں 14اگست1947ءکو ہندوؤں کی اس عیّارانہ سیاست سے ہمیشہ کے لیے چُھٹکارا حاصل کر لیا۔