پہلے فرانس کے صدر میکرون اور پھر برطانیہ کے وزیرِ اعظم، کیئر اسٹارمر نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح سلامتی کاؤنسل کے، جو دنیا میں امن قائم کرنے کا سب سے طاقت وَر ادارہ مانا جاتا ہے، پانچ میں سے چار مستقل ارکان فلسطینی ریاست تسلیم کرلیں گے۔پاکستان سمیت اقوامِ متحدہ کے147 ارکان پہلے ہی فلسطینی اسٹیٹ تسلیم کرچُکے ہیں، جب کہ اقوامِ متحدہ کے ارکان کی کُل تعداد 192 ہے۔
اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے غزہ میں جو قتلِ عام ہوا اور پھر’’ بھوک کی جنگ‘‘ مسلّط کی گئی، یہ اعلانات دراصل اُسی کا نتیجہ ہیں۔ بھوک سے بِلکتے بچّوں اور نحیف بزرگوں کو دَم توڑتے دیکھنا اب انسانیت کے لیے ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے۔ اب صرف امریکا ہی ہے، جو اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اِس وقت فلسطینی ریاست کو تسیلم کرنا، ایک طرح سے حماس کے 7اکتوبر کے حملے کو سندِ جواز دینا ہوگا۔وہ قیدیوں کی فوری رہائی چاہتا ہے اور یہی مؤقف اسرائیل کا بھی ہے۔
وہ ابھی تک کسی بھی فلسطینی وطن کو ماننے پر تیار نہیں، باوجود یہ کہ فلسطینی اسٹیٹ اُس اوسلو معاہدے کے تحت وجود میں آئی تھی، جو اسرائیل اور یاسرعرفات کے درمیان ہوا تھا۔ برطانیہ اور فرانس کے سربراہان کا مؤقف ہے کہ غزہ میں 60 ہزار شہریوں کی اموات اور پھر خوراک سے جو قحط کی الم ناک صُورت پیدا ہوگئی ہے، اُسے اسرائیل فوراً روکے۔ اُدھر دوحا میں اسرائیل اور حماس کے مابین مذاکراتی عمل بھی رینگ رہا ہے، کبھی چل پڑتا ہے، تو کبھی روابط ختم ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی حالات کی ستم ظریفی ہے کہ جس عالمی ضمیر کو مُردہ کہا جاتا ہے، اب سب اُسی سے اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ساتھ دے۔ دُکھ ہوتا ہے کہ مسلم دنیا نے خود کوئی عملی قدم اُٹھانے کی بجائے محض بیانات جاری کرکے بے بس شہریوں کو عالمی ضمیر اور عالمی برادری پر چھوڑ دیا کہ وہ کیسے غزہ کے بے بس لوگوں پر ترس کھا کر اُنہیں بھوک، قحط اور ظلم سے نجات دلاتے ہیں۔ یہ کھیل گیارہ سال تک شام میں بھی کھیلا گیا۔
وہاں بھی ساڑھے پانچ لاکھ مسلمان شہری قتل اور ایک کروڑ بے گھر ہوئے۔ یہ ہے مسلم اُمّہ اور یہ ہے عالمی ضمیر۔ جہاں یورپ، برطانیہ اور امریکا سے کردار ادا کرنے کی توقّع کی جاتی ہے، وہیں روس اور چین بھی تو بڑی طاقتیں ہیں، مگر وہ اِس منظرنامے میں نظر نہیں آتیں۔بے شک روس، یوکرین کے ساتھ جنگ میں اُلجھا ہوا ہے، مگر صدر پیوٹن کو زبانی بیانات سے آگے بڑھ کر فلسطین کے معاملے میں بھی خود کو’’ مردِ آہن‘‘ ثابت کرنا چاہیے اور اِس المیے کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
چین ہمارا بہت اچھا دوست اور دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اب خاصا فعال ہے، اس کے عرب ممالک سے اچھے تعلقات ہیں، تو ایران اور اسرائیل سے بھی گہرے روابط۔۔ تو اِسے بھی انسانی ہم دردی کے پیشِ نظر غزہ میں امن کے لیے کُھل کر کردار ادا کرنا چاہیے اور ایسی گرج دار آواز اُٹھانی چاہیے کہ اقوامِ متحدہ سے لے کر خطّے کے تمام ممالک تک، غزہ کو بچانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔یورپی یونین، غزہ معاملے میں خاصی فعال ہے، جب کہ فرانس اور برطانیہ، فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں، تو ناروے سمیت کئی یورپی ممالک پہلے ہی اُسے تسلیم کرچُکے ہیں۔خدارا! اِس وقت غزہ کے مظلوم باسیوں کو اسرائیلی جہنّم سے نکالیں۔
سوال یہ ہے کہ اِس وقت فرانس اور برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا کیا معنی رکھتا ہے اور کیا اِس سے فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں کوئی مدد مل سکتی ہے۔ فلسطینی ریاست’’ اوسلو معاہدہ 1987ء‘‘کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ یہ اُن دو علاقوں پر مشتمل ہے، جن پر اسرائیل نے1967 ء کی جنگ میں عربوں کو شکست دے کر قبضہ کیا تھا اور اِسے’’چھے روزہ جنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔اُن دنوں غزہ کا علاقہ مصر، جب کہ غربِ اردن(ویسٹ بینک) پر اُردن کی عمل داری تھی۔
جنگ میں اسرائیل نے اِن دونوں علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ناروے کے دارالحکومت، اوسلو میں اسرائیل اور محاذِ آزادیٔ فلسطین کے درمیان معاہدہ ہوا تھا اور اُس وقت یاسر عرفات محاذِ آزادیٔ فلسطین کے سربراہ اور فلسطینیوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ وہی فلسطین اسٹیٹ کے پہلے صدر بھی بنے۔ افسوس، مسلم دنیا کی اندورنی سیاست تقسیم اور عرب، ایران مقابلے کے سبب یاسرعرفات کا کردار فراموش کردیا گیا، وگرنہ پانچ دہائیوں تک دنیا اُنہیں ہی فلسطینیوں کے قائد کے طور پر تسلیم کرتی رہی۔ ’’اوسلو اکارڈ‘‘ کے تحت غزہ اور مغربی کنارے کو جوڑ کر ایک فلسطینی ریاست بنا دی گئی۔
اِن دنوں یاسر عرفات کی جماعت کے محمود عباس اِس ریاست کے صدر ہیں، تاہم اب اُن کے پاس صرف مغربی کنارے ہی کا علاقہ ہے، کیوں کہ غزہ ایک عرصے سے حماس کے پاس ہے۔ 2005ء میں محاذِ آزادیٔ فلسطین اور حماس کے درمیان اختلافات ہوئے، جو ایک دردناک باب ہے۔ بہرحال، غزہ حماس کی سربراہی میں قائم ایک الگ انتظامیہ کے تحت آگیا، جب کہ ویسٹ بینک پر محمود عباس کی حُکم رانی ہے۔فلسطینی ریاست کی کُل آبادی پچاس لاکھ یا کچھ زیادہ ہے اور اس میں سے بیس، بائیس لاکھ غزہ میں بستے ہیں۔
دونوں دھڑوں میں نااتفاقی کے باوجود ان کے اسرائیل سے مذاکرات کسی نہ کسی سطح پر جاری رہے۔یہ فلسطینی ریاست ایک اعتبار سے اسرائیل کے گھیراؤ میں ہے، جب کہ اس کے انتظامی، اقتصادی اور دیگر معاملات میں بھی اس کا ہمیشہ عمل دخل رہا ہے۔ نیز، فلسطینی ریاست کی سرحدیں اُردن اور مِصر کے ساتھ بھی لگتی ہیں، جو امداد یا خوراک کی فراہمی کے اہم راستے ہیں، تاہم اُن پر بھی اسرائیل کی کڑی نگرانی ہے۔
اِس کے علاوہ، بحرِ احمر( ریڈ سی) کی ساحلی پٹّی بھی غزہ سے منسلک ہے۔حماس اور پی ایل او کے رہنماؤں سے باہمی اختلافات ختم کرنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں، جب کہ چین نے اِن دونوں جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ بھی کروایا تھا۔برطانیہ اور فرانس کی جانب سے فلسطینی اسٹیٹ کو تسلیم کرنا بھی ایک پیغام ہے کہ وہ فلسطین کو تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن محاذِ آزادی اور حماس کو نہیں۔یہ بات تلخ تو ہے، مگر کہنی پڑتی ہے کہ باہمی تنازعات نے فلسطینیوں کی طاقت کم کی ہے،ہونا یہ چاہیے کہ دشمن سے اپنے تنازعات نمٹانے سے پہلے آپس میں یک جہتی پیدا کی جائے۔
برطانیہ ہی وہ مُلک ہے، جس نے اسرائیل کی بنیاد رکھی، کیوں کہ1917ء میں اِسی کے جنرل ایلن بی نے عثمانی تُرکوں کو شکست دے کر یروشلم فتح کیا تھا۔ یوں گیارہ سو سال تک جاری رہنے والی مسلم حُکم رانی اختتام کو پہنچی۔ بعدازاں، فلسطین’’قانونِ انتداب‘‘ کے تحت برطانیہ کے تسلّط میں رہا، پھر’’اعلانِ بالفور‘‘ کے بعد دنیا بَھر سے یہودی وہاں جا کر آباد ہونے لگے اور1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔عربوں نے اِسے قبول نہیں کیا اور اسرائیل پر حملہ کردیا، لیکن مشترکہ عرب فوجوں کو شکست ہوئی۔
یہ پہلی عرب، اسرائیل جنگ تھی۔ اس کے بعد مزید تین جنگیں ہوئیں اور ہر جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی۔ جنگوں کے اِس سلسلے کے بعد کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا، جس کے تحت مصر اور اُردن نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ یہ معاملہ 1948ء سے اقوامِ متحدہ میں ہے اور ہر کچھ دنوں کے بعد اِس کی گونج سُنائی بھی دیتی ہے، مگر ابھی تک تنازع حل نہیں ہو پایا۔ اقوامِ متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے بیت المقدس( یروشلم) کو بین الاقوامی شہر قرار دیا اور اِس وقت عملی طور پر یہ شہر کسی حکومت کے پاس نہیں ہے، گو کہ وہاں کنٹرول بہرحال اسرائیل ہی کا ہے۔
کیمپ ڈیوڈ سے اوسلو مذاکرات تک، بات چیت کے تمام ادوار اور معاہدات امریکی سرپرستی میں ہوئے اور فیصلہ وہی ہوا، جو امریکا نے چاہا، جسے باقی دنیا نے بھی تسلیم کیا۔ اسرائیل کو تو تسلیم کرنے کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا، کیوں امریکا سمیت بڑی طاقتوں نے چند برسوں کے اندر اندر اُسے باقاعدہ تسلیم کرلیا، جب کہ فلسطینی اپنی شناخت سے محروم چلے آرہے ہیں۔ تُرکیہ نے بھی کافی عرصے پہلے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے، تاہم اردوان فلسطین کے بھی زبردست حامی ہیں۔
بعدازاں، کئی اور مسلم ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اعلانات کیے۔ ایک خیال یہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس نے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان، دراصل ٹرمپ کے ساتھ جاری تنازعات کے سبب کیا ہے۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین کے تبصروں سے ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے یورپ اور امریکا میں جو خلیج پیدا ہوئی، وہ شاید اِس معاملے پر بھی اثرانداز ہوئی ہے۔ تاہم، یہ بھی یاد رہے کہ امریکا اور یورپ، یوکرین کے معاملے پر بھی ایک دوسرے سے الگ ہوگئے تھے، مگر دو ماہ بعد ہی دونوں دوبارہ ایک ساتھ کھڑے ہوگئے۔
آج امریکا اپنے جدید پیٹریاٹ میزائل یوکرین کے دفاع کے لیے نصب کر چُکا ہے اور یورپ نے امریکا سے اِسی کام کی درخواست کی تھی۔ فلسطینی ریاست تو امریکی سرپرستی میں ہونے والے اوسلو مذاکرات کے بعد وجود میں آئی تھی۔اب سوال یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک، جو امریکا کے قریب ترین حلیف اور اسرائیل کے پُشت پناہ ہیں، کیا 1987ء سے اب تک سو رہے تھے۔ یاد رہے، سات اکتوبر کے حملوں کے بعد امریکا، برطانیہ اور فرانس کے سربراہان سب سے پہلے اظہارِ یک جہتی کے لیے تل ابیب پہنچے تھے۔
اب کیا یہ کہا جائے کہ اُنہیں انتظار تھا کہ غزہ کے ہزاروں شہری ہلاک ہوجائیں، وہاں قحط پڑ جائے، تب وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا کارِخیر انجام دیں گے۔ یہ سب ایک ہی تھیلے کے چٹّے بٹّے ہیں اور ہر محاذ پر ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ اِنہوں نے امریکا کے ساتھ مل کر روس، چین، یوکرین، غزہ اور ایران کے معاملے میں کیا کچھ نہیں کیا۔
اِن کے اتحادی، اسرائیلی نے ان کا اعلان فوراً مسترد کردیا۔ شاید یہ بھی ممکن ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے حماس اور پی ایل او کو پیغام دے رہے ہوں کہ پہلے خود ایک ہو جائو، پھر کچھ دِلوا دیں گے۔ ویسے بھی امریکا، فرانس، برطانیہ اور تمام مغربی ممالک کا یہی مؤقف ہے کہ حماس مسلّح کردار چھوڑ کر ایک سیاسی پارٹی کے طور پر کام کرے۔اُسی طرح جیسے لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ حسن نصراللہ کے مارے جانے کے بعد ہوا۔
اقوامِ متحدہ کا سالانہ سیشن ستمبر میں ہوگا۔ غزہ میں ظلم و ستم کی جو خونی داستان رقم ہو رہی ہے، اُس نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو فلسطین کی جانب متوجّہ کردیا ہے۔ ایسے میں اگر برطانیہ، فرانس یا کچھ اور ممالک فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا قدم اُٹھاتے ہیں، تو یقیناً اِس سے اِس معاملے کو زیادہ اور بھرپور توجّہ ملے گی، لیکن تجربہ یہ بتاتا ہے کہ فلسطین ہو یا کوئی اور بڑا عالمی تنازع، حل میں مرکزی کردار امریکا ہی ادا کرتا ہے، باقی سب صرف بیانات کی حد تک رہتے ہیں۔
پاکستان نے اپنی طاقت سے بڑھ کر فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ پاکستانی قوم اُن کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہی۔ پاکستان اُن فرنٹ لائن اسٹیٹس میں سے ہے، جو فلسطین اور غزہ کے معاملات ہر فورم پر اُٹھا رہی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ جب آپ بڑی طاقتوں کی مخالفت کرتے ہیں، تو اُس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان نے روس کی افغانستان میں مداخلت کی مخالفت کی اور پھر اس کے نتائج بھی بُھگتے۔سوویت یونین ہمیشہ ہماری مخالف رہی اور اُس نے بھارت سے قربتیں بڑھائیں۔ اب کہیں جاکر تعلقات بہتر ہو رہے ہیں کہ بین الاقوامی مفادات میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ بہرکیف، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے اعلانات اور اِس معاملے پر عالمی کانفرنس کا انعقاد ایک بڑی پیش رفت ہے، جس کے مشرقِ وسطیٰ کے منظرنامے پر گہرے اثرات مرتّب ہوں گے۔