• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: تحریم فاطمہ

مہمان: اقراء، سنیبل عروج

ملبوسات: فائزہ امجد اسٹودیو (ڈی ایچ اے، لاہور)

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

؎ کوئی شکوہ ہو، شکایت ہو، مگر اپنا ہے… تپتے صحرا میں یہی ایک شجر اپنا ہے…بے گھری جن کا مقدر ہے، اُنھیں دیکھ ذرا…اور پھر شُکر بجا لا کہ یہ گھر اپنا ہے۔ جب بھی تقویم میں 14 اگست کا دن آتا ہے، تو دل کے کسی گوشے میں ایک روشنی سی جگمگا جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے، جیسے کوئی پرانا چراغ برسوں بعد جل اُٹھا ہو، جیسے کسی دلی تمنا، دُعا کو قبولیت کا اشارہ مل گیا ہو۔ ہر طرف سبز و سفید رنگوں کی بہار چھائی ہوتی ہے، عمارتوں، گھروں، گاڑیوں کی چھتوں پر سرسبز پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ 

بچّے پرچمی ملبوسات سے مزین، جھنڈیاں ٹانکتے، لڑکیاں ہاتھوں پر مُلکِ عزیز کے پرچم والے ٹیٹوز بنواتی نظر آتی ہیں، گلیوں میں ملّی نغمے، قومی ترانے گونجتے ہیں، اور سوشل میڈیا پر’’یومِ آزادی مبارک‘‘ کے پیغامات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ پھر ایک لمحے کو خیال آتا ہے، کیا یہ سب کافی ہے؟ کیا یہی ہے وہ آزادی ہے، جس کے لیے لاکھوں لوگ اپنی جانیں دےگئے؟ کیا بس یہی شور ہماری خاموش تاریخ کا جواب ہے؟ 

داستانِ آزادی تو ایک شدید خونیں باب ہے۔ آزادیٔ وطن کی کتھا محض ایک قراردا، چند نعروں تک تومحدود نہیں۔ یہ تو ہزاروں قافلوں پراِک آفت ناگہانی، لاکھوں جانوں کی قربانی، ہزاروں جلتے بلتے گھروں، لُٹی عصمتوں، اُجڑی کوکھوں کی کہانی ہے۔ یہ تو اُن ان گنت گم نام ہیروز کی داستان ہے، جنہوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے پر لبیک کہا اور بیک جنبشِ قلم اپنے خوابوں، گھروں اور جانوں کی قربانی دے دی۔ 

قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانوں کو معاشی، سیاسی، سماجی اور مذہبی سطح پر جس دباؤ اورحق تلفی کا سامنا تھا، وہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مسلمانوں کو دوسرے درجےکا شہری سمجھا جاتا، اُن کی عبادات، زبان و ثقافت تعلیم و ترقی پر ہر طرح کی قدغنیں لگائی گئیں۔ یوں ہی توعلاّمہ اقبالؒ نے ایک علیحدہ مسلم ریاست کاخواب نہیں دیکھا تھا۔ 

قائدِاعظم محمّد علی جناحؒ نےاپنی قانونی بصیرت، حکمتِ عملی اور پُرامن جدوجہد سے اُس خواب کو حقیقت میں تبدیل نہیں کیا تھا۔ اور کہنے کو یہ ایک خواب کی تعبیر ہے، لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب بھلا اتنی آسانی سےکہاں تعبیر پاتے ہیں۔ بے شمارمُردہ و زندہ لاشے اُٹھتے ہیں۔ آنسوؤں کا بحرِ بیکراں، دُعاؤں کا اِک سیلِ رواں ہوتا ہے۔

ہم ہرسال14 اگست کواپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ گلیاں سجتی، جھنڈے، جھنڈیاں لگتے، خُوب آتش بازی ہوتی ہے۔ نوجوان موٹرسائیکلز پر شور مچاتے پھرتے، سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہزارہا پوسٹس، تصاویر شیئر ہوتی ہیں۔ مختلف پروگرامز میں حب الوطنی کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ لیکن… اگر ذرا سا گہرائی میں جا کے جھانکیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو آزادی کا مطلب و مقصد محض ’’جشن‘‘ ہی تک محدود کردیا ہے۔ کسی کو یاد ہی نہیں کہ14 اگست کی اصل اہمیت کیا ہے۔ کسی کواحساس تک نہیں کہ جو مُلک ہمیں صرف ’’ایک دن کی خوشی‘‘ لگتا ہے، وہ کن لاتعداد قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تھا۔ 

کس قدر افسوس کی بات ہے، جسے شعور کا دن بننا تھا، وہ صرف ’’شور‘‘ کا دن بن کے رہ گیا ہے۔ یہ سائلینسرنکلی موٹر سائیکلزکی گرج، ون وہیلنگ کرتے نوجوان، آتش بازی کی چنگاریاں، لاؤڈ اسپیکرز سے گونجتے نغمے اور اِن سب کے بیچ خاموشی سے روتا وہ سوال ’’کیا تم نے صرف اِس مقصد کے لیے میرے حصول کا خواب دیکھا تھا؟‘‘ اور پاکستان، یہ سوال اپنے ہر باسی، ہر پاکستانی سے پوچھتا ہے۔ قائدِاعظم نے تو فرمایا تھا کہ ’’تم آزاد ہو، اپنے مندروں، مسجدوں اور گِرجوں میں جانے کے لیے۔‘‘ مگر کیا اس مُلک کا کوئی عام شخص اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال میں آزادہے۔

ہر ایک کوبنیادی ضروریاتِ زندگی میسر ہیں؟ کوئی شہری بلاخوف وخطر اپنے گھر میں بھی سو سکتا، مُلکی عدالتوں سے انصاف پا سکتا ہے؟ تعلیم، صحت کی سہولتیں کتنے لوگوں کو حاصل ہیں؟ ہر بچّہ یک ساں نظامِ تعلیم کا حق دار ہے؟ کیا ایک عورت بغیر خوف سڑک پر چل سکتی ہے؟ ایک نوجوان میرٹ پر نوکری حاصل کر سکتا ہے؟ کیا ہم واقعی ایک آزاد قوم ہیں یا محض ایک آزاد ریاست کے شہری؟ آج کا نوجوان، پاکستان کا مستقبل ہے، مگر اُسے تو شاید اسمارٹ فون کی بھول بھلیّوں میں، اپنی شناخت بھی بھول چُکی ہے۔ 

14 اگست کو سبز و سفید لباس پہن کر، سیلفی لے کے، ہیش ٹیگ لگا کرسمجھتا ہے کہ وہ بہت محبِ وطن ہے۔ مگر اُسے یہ نہیں معلوم کہ پاکستان کو سنوارنے کے لیےعلم و عمل، شعور و آگہی، تعمیر و ترقی چاہیے۔ سڑک پر نظم و ضبط درکار ہے۔ برداشت، سچائی، انصاف اور قربانی چاہیے۔ وہ جذبہ چاہیے، جو1947ءمیں ہمارے بزرگوں کےدلوں میں موجزن تھا۔ قومیں صرف جھنڈے،جھنڈیاں لگانے سے نہیں، کردار و اخلاق، ایثارو قربانی سے تعمیر ہوتی ہیں۔

جشنِ آزادی بھی منائیں، ضرورمنائیں، لیکن… شعورکےساتھ۔ جھنڈے، جھنڈیاں لگائیں، تو اُنھیں سرنگوں ہونے دیں، نہ زمین پر گرنے، پیروں تلے روندا جانے دیں۔ ملی نغمے، قومی گیت گائیں، لیکن دوسروں کے سُکون کا خیال رکھیں۔ سبز و سفید ملبوسات بھی پہنیں، مگر سوچ کو بھی سرسبز کریں۔ سیلفیاں لینے میں بھی کوئی حرج نہیں، مگر اپنی ’’اصل پہچان‘‘ نہ بھولیں۔ 

یاد رکھیں، آزادی ایک بے بہا نعمت ہے اور اس کی حفاظت ایک اہم ترین ذمّےداری۔ اب صرف شور و غوغے سے کام نہیں چلے گا، یہ عملِ پیہم کا وقت ہے اور کچھ نہیں کرسکتے، کسی غریب بچّے کی تعلیم کا بیڑا اُٹھا لیں۔ کسی بیمار کی دوادارو کردیں۔ راہ چلتے بزرگوں، خواتین کو عزت دیں۔ بچّوں سے شفقت برتیں۔ اپنے اندروہ پاکستان بسائیں، جو آپ جھنڈے میں دیکھتے ہیں۔ 

یہی ہے سچی آزادی، یہی ہے اصل جشن۔ ایک پکا وعدہ، اپنے وطن سے کہ یومِ آزادی، صرف خوشی و مسرت، جشن کا موقع نہیں، یہ تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ تو آیئے، ہم سب مل کریہ عہد کریں کہ آج سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ کسی کی حق تلفی نہیں کریں گے۔ قانون کا احترام، اپنے تمام ترفرائض پوری ایمان داری سے ادا کریں گے۔ پاکستان کو صرف کہنے کی حد تک نہیں، عملاً ’’زندہ باد، پائندہ باد‘‘ کر دیں گے۔ یاد رہے، آزادی کا جشن منانے سے کہیں زیادہ، آزادی کی قدر ضروری ہے۔

رحمان فارس کی اس دُعا کے ساتھ؎ ’’پیروں تلے یہ صحن، سَروں پر یہ چھت رہے…یارب! ہمارے گھر میں سدا خیریت رہے… پُرکھوں کی پگڑیوں سے بنا ہے مِرا عَلَم…تا حشر پُروقار مِری مملکت رہے یارب! گُلِ وطن ہے عطائے محمدی… خوشبوئے امن اس میں پرت در پرت رہے… فارس! نبھا سکوں مَیں محبّت وطن کے ساتھ …تا عُمر میرے دل میں وفا کی سکت رہے۔‘‘ ہماری طرف سے ایک چھوٹی سی’’ بزمِ جشنِ آزادی‘‘ حاضرِ خدمت ہے۔