اکتوبر 2022ءچین کے عروج کے حوالے سے تاریخی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ صدرشی جن پنگ کو مرکزی کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے ، وہ تیسری مدت کیلئے چین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ بے مثال کامیابی شی جن پنگ کو چین کا مقبول ترین رہنما ثابت کرتی ہے، جو ماؤزے تنگ کے پیش رو ہیں۔ شی جن پنگ کے تیسری مدت کیلئےانتخاب کا مطلب یہ ہے کہ چین ترقی، اقتصادی برتری، عالمی وعلاقائی روابط اور سالمیت کی اپنی موجودہ پالیسیوں کو برقرار رکھے گا۔ بیجنگ کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتے اثر و رسوخ پر دنیا محض حیرت میں مبتلا ہے جبکہ مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ انتہائی خوف میں مبتلا ہے۔ دنیا بھر کیلئے ماضی میں چین کے ساتھ اپنے معاملات پر نظرِ ثانی اور مستقبل کا لائحہِ عمل مرتب کرنے کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔ سوویت یونین اس کا براہ راست حریف تھا۔ جنگ کے خاتمے سے لے کر 1989 میں سوویت یونین کی تحلیل تک دنیا دو دھڑوں میں تقسیم رہی۔ لبرل دنیا کے نظریہ سازوں نے اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی پالیسی اپنائی۔ اس وقت چین ایک ترقی پذیر ملک تھا۔ یہ غربت، جنگوں اور ٹوٹ پھوٹ کے مسائل سے دو چارتھا۔ چین کو روس کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کیلئے امریکہ نے چین کو مغربی دنیا میں متعارف کرایا اور اسے عالمی تجارت کے مرکزی دھارے میںرسائی دی۔ یوں جب امریکی یورپ پر اپنے تسلط کو یقینی بنانے میں مصروف تھے، چین نے مستقل مزاجی سے اپنی معیشت کو ترقی دی۔ وہ ٹیکنالوجی کے فروغ کی پالیسی پر عمل کے ساتھ ساتھ برآمدات کو وسعت دینے کی پالیسی پر عمل کرنے میں کامیاب رہا۔ صنعت و تجارت کے شعبے مرکزی کمیونسٹ پارٹی کی توجہ کےمرکز بن گئی۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ کو یونی پولر دنیا ورثے میں ملی، امریکہ لبرل ازم پر عمل پیرا رہا۔ چین ڈبلیو ٹی او کے اہم ارکان میں سے ایک بن گیا۔ اس کی سستی لیبر ، سخت محنت اور مستقل مزاجی نے امریکی کمپنیوں کو چینی فیکٹریوں کے دروازوں تک پہنچا دیا۔ ایک زمانے میں، چینی مصنوعات کو کمتر سمجھا جاتا تھا لیکن وہ دن گزر چکے ، کیونکہ امریکی اور یورپی کمپنیوں کی اکثریت نے اپنی مینوفیکچرنگ شین زین اور شنگھائی کی فیکٹریوں میں منتقل کر دی۔ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں، چین اور اس کے عوام نے تمام اندازے اور اعداد و شمار الٹ کے رکھ دیے ہیں۔اب چین کا جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ چکا ہے ، یورپ پہلے ہی چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔ چین نے عسکری طور پر بھی غیر معمولی ترقی کی ہے ۔ چنانچہ جاپان میں اس کی موجودگی اور تائیوان میں اس کے اسٹرٹیجک اثاثے امریکہ کیلئے ناقابلِ برداشت ہیں۔ اب ایک نئی سرد جنگ نمو پا چکی ہے جو سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ہونے والی سرد جنگ سے کہیں زیادہ گنجلک ہو سکتی ہے۔ چین عددی برتری رکھتا ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں اس کی موجودگی ہے۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی شروعات امریکہ نے سوویت معیشت کو نقصان پہنچا کر کی، چین کے معاملے میںصورتحال الٹ ہے۔ چین کھلی اور آزاد منڈی میں امریکی معیشت کا مقابلہ کر رہا ہے، جو سوویت یونین کبھی نہیں کر سکا۔ اس وقت مارکیٹ پر امریکی مصنوعات اور معیشت کا غلبہ تھا اور ان کھلی منڈی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سوویت یونین کو شکست ہوئی۔تاہم اب صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر کھلے عام اس کا اعتراف کیا اور تجارتی تحفظ پسندی کا فلسفہ متعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ چینی مصنوعات امریکی منڈیوں میں غیر منصفانہ مراعات کے ساتھ فروخت ہو رہی ہیں۔امریکی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ کی معیشت غیر منصفانہ طرز عمل کی وجہ سے خسارے میں جا رہی ہے، جبکہ یہ امریکی صنعتوں کی ناکامی اور چینی برآمدات کی کم لاگت کا اثرہے۔
نئی سرد جنگ میں امریکہ اپنی ناکام خارجہ اور داخلہ پالیسی کی وجہ سے پسپا ہو رہا ہے۔ یہ ویت نام، عراق، افغانستان اور شام میں بڑی ناکامیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ امریکہ مزیدفوجی مہمات کا متحمل نہیں رہا۔نیٹو کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے، یورپ جنگ کے دہانے پر ہے۔ اس بار یوکرین پر روسی حملے اور یوکرین کیلئے مغرب کی حمایت نے چین کے خلاف روسی تعاون کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف اقدامات کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔ چین اپنی فوجی اور اقتصادی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین نے ایشیا میں اپنے قدم جمانے کے بعد اب افریقہ اور وسطی ایشیا تک دائرہ پھیلا لیا ہے۔مغربی سفارت کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ چین کو الگ تھلگ رکھ کر اور اسے تیسری دنیا کے مسائل میں الجھا کر ترقی سے روکا جا سکتا ہےلیکن اب، بہت دیر ہوچکی ہے،یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ چین ایک دہائی سے بھی کم عرصہ میں کرۂ ارض پر غلبہ پالے گا۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ امریکہ کی بجائے بیجنگ کے اتحادی ہوں گے۔مغربی دنیا کے حقیقت پسند چین کے عروج کو امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لبرل ازم ختم ہو چکا ہے۔ چین دنیا کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک ہے جبکہ امریکہ کی تاریخ صرف چندسو سال پرانی ہے۔ چین اپنی عدم تشدد کی پالیسی، دیگر اقوام کے احترام اور باہمی ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے۔امریکہ سرمایہ دارانہ لالچ ، فاسٹ فوڈ کلچر، ہالی ووڈ اور جمہوریت کے نام پر جنگوں سے دنیا کو متعارف کرواتارہا جس نے عراق، ویت نام اور افغانستان جیسے ممالک کو تباہ کیا ۔ اسرائیل جیسی ظالم قوموں کی پشت پناہی کی اورفلسطینیوں کے قتلِ عام کی کھلی اجازت دی۔ یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی شاذ و نادر ہی پرامن رہی ہے،طاقت کے پرانے نظام اتنی آسانی سے مفلوج نہیں ہوں گے، ہم ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر ہیں۔
(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)