• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کا چلن تو یہی ہے کہ’’ چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ مگر لق و دق صحرا میں بادِ سموم پر خرام کرنا ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ وائے افسوس کہ آج عاقبت نااندیش لوگ گروہ در گروہ جون ایلیا کے اس شعر کی عملی تفسیر بنے سرگرداں نظر آتے ہیں کہ ’’ میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس ...خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں‘‘۔ملال ہو بھی کیسے کہ خواب گزیدہ لوگوں کا ہجوم ،بے مقصدیت کے شکار قافلہ سالار کی صدائے گمرہی کی افسوں طرازی سے ہوش و خرد سے بیگانہ ہوا حالتِ اضطرار میں سرپٹ بھاگا چلا جارہا ہے اور نہیں جانتا کہ اپنی ذات کے خول میں بند، اسیرِ ہوسِ نفس، بحرِ مُردار کی طرف گامزن ہے،بحرِ مردار ،جہاں زندگی زیست کرنے کو ترستی ہے کہ چاروں اور سے بہہ کر آتا آبِ زلال بھی اس کی پاتال میں اترتے ہی زہراب بن جاتا ہے مگر کسی لبِ ترساں کو قطرہ بھر میسر نہیں آتا۔پھر بھی زردار لوگ دوسروں کو گھیر گھار کر اس کی طرف لاتے ہیں کہ بقول شخصے ، ہےیہ بہرحال دیکھنے کی چیز جو صدیوں سے سمندروں کے پانیوں کو لپکتا ہوا زہراب کرتے ہوئے بھی اپنی اہمیت برقرار رکھے ایک عالم کو دعوتِ نظارا دے رہا ہے۔طلسمِ ہوش ربا سا نظارا ،جو آنکھوں کو خیرہ کرکے ذہن ماؤف کردیتا ہے اور بندہ حیوانیت و شیطنت کے درمیان بن مانس کے کردار میں ڈھل کر اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے۔بے شناخت ہوکر خود کو پہچاننے سے قاصر ہم نفساں عصر جدید کے معروف ترقی پسند شاعر عابد حسین عابد کی یہ آواز بھی سن نہیں پاتے:’’ کہہ رہا تھا میں بدل دوں گا یہاں ہر چیز....ذہن اپنا ہی نہیں وہ کرسکا تبدیل‘‘فکر و فلسفہ سے دلچسپی رکھنے والا ہر صاحبِ علم و فضل جانتا ہے کہ تبدیلی کی اولین شرط ذہنی و فکری انقلاب بپا کرنا ہوتی ہے۔فکری انقلاب قرطاس و قلم کی یکسوئی سے ہم آہنگ ذہنِ رسا کی زرخیزی سے پھوٹتا ہے۔کبھی کوئی منتشر ذہن فکری انقلاب کی آماجگاہ نہیں بن سکتا کہ فکر سماجی زندگی کی بُوقلمونی سے ماخوذ ہوتی ہے اور جسے سماجی زندگی کی جہات کا ہی شعور و ادراک نہ ہو وہ کسی نئے طرزِ احساس کی نمود کیسے کرسکتا ہے۔اس کے لئے تو سماج سے جڑے رہنا پڑتا ہے۔ساحل پہ کھڑا شخص جو سمندر کی بیکراں وسعتوں کے دلفریب نظارے کی دلکشی کو بیاں کرنے کی اہلیت سے بھی عاری ہوتو وہ اس کی گہرائی کے بارے میں کیا قیاس کرسکتا ہے کہ اس آبِ شور انگیز کی پنہائیوں میں مخفی زندگی کے اسرارِ نہاں خزائنِ کائنات کی کیا بہار دکھاتے ہیں؟یہ بہاریں دیکھنے کے لئے غوطہ خوروں کی عینکیں نہیں اپنے فن پیراکی اور جسمانی صحت پر انحصار کرکے خود سمندر کی تہوں میں اترنے کا حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔ سمندر کی طوفان خیزیوں سے نبرد آزما ہونے والا ہی بتا سکتا کہ زیر آب بستی دنیا ،سطحِ ارض پر رونق افروز دنیا سے کتنی مختلف اور وسیع ہے۔جو کوئی ریگِ ساحل پر اپنا پیراکی کا لباس کسی پتھر پہ رکھ کر محض زیر جامے میں ریت کے گھروندوں سے کھیلتا کسی حسن آوارہ کی نازک خرامی کو حاصلِ نظارہ سمجھ کر ہوش کھو بیٹھے وہ ساحل سے سیپیوں کے خول چنتے فلاکت زدہ چہروں پہ مرقوم نوشتِ افلاس کی لرزہ خیز معنویت کا درک کیسے حاصل کرسکتا ہے۔بقول مجید امجد:’’دیکھے کوئی تو دیکھتی آنکھوں کے سامنے...کیا کچھ نہیں کہ دیکھنا جس کا محال ہے‘‘ مگر اس شعور و آگہی کے حصول کے لئے دیدۂ بینا ہی نہیں ،چشمِ بصیرت بھی درکار ہوتی ہے جس کی بصارت میں صرف اپنا ہی عکس ترازو نہ ہوبلکہ اس پر چاروں اور یلغار کرتی غربت و افلاس ،ناداری و عُسرت، انسانی عدم مساوات و ناہمواری کا شکار مخلوقِ خدا کی بے بسی و مظلومیت بھی عیاں ہو، تاکہ جبر و استحصال کے نظام کی زنجیروں کی جکڑ بندیوں میں سسکتی انسانیت کی الم انگیز صورت حال اسے جھنجوڑ سکے۔مگر یہ اندوہناک منظر ارفع تصورات کے حامل ذہن رسا کی لوحِ خیال پر ہی ابھر تا ہے۔ذات کے خول میں مقید نفسِ بیمار کو حرمت انسان کی پامالی کا رنج کیا؟وہ تو اپنے پہلو میں کھڑے شخص کو دل کا دورہ پڑنے سے بے خبر اپنی آواز کی سحر انگیزی کا لطف لینے میں گم بے تکان بولتا چلا جاتا ہے ۔اسے تو اپنے قافلے کی عکس بندی میں مصروف فرض شناس خاتون صحافی کی المناک موت کی خبر ملنے پر اظہار افسوس کی بھی توفیق نہیں ہوتی بلکہ اس دلسوز سانحے پر اظہار تعزیت کے جو الفاظ دوسرے اس کے منہ میں ڈالتے ہیں انہیں ادا کرتے ہوئے بھی اس کی زبان میں لکنت در آتی ہے کہ وہ تو ہمیشہ سے اپنوں کی موت کو بھی اپنی منفعت کیلئے استعمال کرنے کا عادی ہے۔ دوستوں کی موت بھی جس کے دل کو اندوہِ فراق و رنجِ مفارقت سے آشنا نہ کرسکے اس شخص کی بے حسی،بیگانگی اور لاتعلقی سے عبارت شرفِ انسانیت کی بے توقیری پہ کیا کہا جائے؟کہ جو اپنی والدہ کے جنازےمیں شرکت کی بجائے کائونٹی کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھا یہ الگ بات کہ پھر اسی کے نام پر ہسپتال بنانے کیلئے دنیا بھر سے فنڈز اکٹھے کئے اور آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری کیونکہ اس سے زیادہ منفعت بخش کاروبار کوئی اور نہیں۔ پھر مجید امجد سے رجوع کرتے ہیں ۔

درد کی فطرت کا دم اس طرح گھٹتا دیکھ کر

دیکھ کر اس سوز کی دولت کو لُٹتا دیکھ کر

مجھ کو نظمِ زیست کی بربادیاں یاد آگئیں

میری آنکھوں میں برستی بدلیاں لہرا گئیں

تازہ ترین