پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے نے کئی سوالات کھڑے کرتے ہوئے پنجاب میں سیکیورٹی انتظامات کا پول کھول دیا۔
عمران خان پر قاتلانہ حملے کا ذمہ دار کون ہے؟ پنجاب حکومت حملہ آور کو روکنے میں کیوں ناکام ہوئی؟ ناکامی انٹیلی جنس کی ہے یا سیکیورٹی کی؟ اسلحہ بردار شخص کنٹینر کے پاس کیسے پہنچ گیا؟ عمران خان کو نہ روف ٹاپ سیکیورٹی دی گئی نہ ریلی کے شرکا کی چیکنگ کا کوئی انتظام تھا۔
وزیر آباد میں عمران خان پر حملے کے بعد تفتیش کار سرجوڑ کر بیٹھ گئے، ڈی پی او نے کرائم سین کا دورہ کرنے کے دوران کہا کہ عمران خان حملے کا مرکزی ملزم گرفتار ہو چکا ہے، لانگ مارچ کیلئے 2100 اہلکار تعینات کیے گئے تھے، اس طرح کے مجمے میں تلاشی لینا ممکن نہیں۔
وزیر آباد پولیس، سیکیورٹی اور فارنزک ٹیمیں اللّٰہ والا چوک پر مسلسل شواہد اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں، تحقیقات میں تفتیش کاروں کو جائے وقوعہ سے 11 خول ملے ہیں، 9 خول نائن ایم ایم پستول اور دو بڑے اسلحہ کی گولیوں کے ہیں۔
خول ملنے کی ڈائریکشن بتاتی ہے کہ 9 خول نیچے سے اوپر اور 2 کنٹینر سے نیچے کی طرف فائر ہوئے۔ کنٹینر سے کی جانے والی فائرنگ پر بھی تفتیش جاری ہے۔
گرفتار ملزم نوید اور اس کے گھر والوں سے بھی پولیس تحقیقات کررہی ہے ، ابتدائی تفتیش کے مطابق ملزم سے نائن ایم ایم پستول، دو میگزین اور 20 گولیاں برآمد ہوئی ہیں۔
ملزم نوید کو سی ٹی ڈی کے حوالے کرکے لاہور منتقل کر دیا گیا ہے، ملزم کے اعترافی بیان پر مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے، بظاہر پسماندہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ملزم کے پاس نائن ایم ایم پستول اور گولیاں کہاں سے آئیں؟
ڈی پی او گجرات سید غضنفر شاہ نے کرائم سین پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملے کا مرکزی ملزم گرفتار ہو چکا ہے، تفتیش کی جارہی ہے کہ ملزم، اس کے اہلخانہ اور خاندان کے رابطے کن کن لوگوں سے ہیں۔؟
ملزم کے موبائل فون کا فارنزک کیا جائے گا، ملزم کا کس نیٹ ورک سے رابطہ تھا یہ بھی پتا کیا جا رہا ہے، ڈی پی او نے مزید کہا کہ کرائم سین پر میڈیا کے کیمرے، سیکیورٹی اور پرائیویٹ کیمرے نصب تھے۔ تمام فوٹیجز اکٹھا کرکے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
ڈی پی او نے ملزم کو پکڑنے والے پی ٹی آئی ورکر ابتسام کی بھی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ ملزم کو گاڑی میں ڈالتے وقت مشتعل ہجوم نے اسے مارنے کی کوشش کی تھی، وزیر اعلیٰ نے جے آئی ٹی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
ڈی پی او نے مزید کہا کہ زیادہ امکان ہے کہ اس کا مقدمہ سی ٹی ڈی درج کرے گی، لانگ مارچ کی کوریج کیلئے 2100 پولیس اہلکار تعینات تھے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کی معاونت سے سیکیورٹی پلان کو بہتر سے بہتر کیا گیا، لیکن شاید اس طرح کے مجمع میں تلاشی لینا ممکن نہیں ہوتا۔