• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جبکہ کپاس کی فصل اس انڈسٹری کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے جب بھی کپاس کی فراہمی میں تعطل یا کمی آتی ہے تو اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل انڈسٹری خودبخود بند ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ایک طرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات میں اضافہ جاری ہے اور دوسری طرف گزشتہ کئی سال سے مختلف وجوہات کی بنا پر کپاس کی پیداوار میں کمی کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس بحران کو حالیہ سیلاب نے مزید گمبھیر بنا دیاہے کیونکہ سندھ میں ساڑھے 14 لاکھ ایکٹر سے زائد رقبے پر کاشت کی گئی کپاس کی فصل مکمل طور پر خراب ہو چکی ہے جبکہ جو فصل زیر آب آنے سے بچ گئی ہے وہ غیر معیار ی ہونے کے باعث استعمال کے قابل نہیں ہے۔ اس حوالے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری بالخصوص ایکسپورٹ سیکٹر کی جانب سے حکومت کو بار بار یاددہانی کروائی جا رہی ہے کہ کپاس کی قلت کا مسئلہ سنگین ہونےسے پہلے اسے حل کرنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ اس مسئلے کا ایک فوری حل تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کپاس اور دھاگے کی بھارت سے درآمد پر عائد پابندی کو فوری ختم کرے ۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز یہ تجویز مختلف فورمز پر پہلے ہی حکومت کے سامنے پیش کر چکے ہیں لیکن تاحال اس حوالے سے اجازت نہ ملنے پر صنعتی حلقے مایوسی اور پریشانی کا شکار ہیں۔اس صورتحال کی وجہ سے مارکیٹ میں دھاگے کی قیمتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں ۔ درآمد شدہ پولیسٹر یارن کی قیمتیں بھی 50 فیصد سے زائد بڑھ چکی ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید سے شدید ترہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کےمطابق پاکستان کی کل برآمدات میں کپاس اور اس سے تیار شدہ مصنوعات کا حصہ 55سے 60فیصد تک ہے جس کے لئے ہر سال کپاس کی ڈیڑھ کروڑ سے زائد گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس سا ل ملک میں کپاس کی پیداوار کا تخمینہ 75 لاکھ گانٹھیں لگایا گیا تھا لیکن سیلاب کے باعث سندھ میں کپاس کی فصل مکمل اور پنجاب میں جزوی طور پر تباہ ہونے کی وجہ سےانڈسٹری کو 60 لاکھ گانٹھوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اس وقت ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے وسطی ایشیاء ، برازیل ، امریکہ اور افریقہ سے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہے حالانکہ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں کپاس وافر مقدار میں موجود ہے۔ انڈیا کی نسبت دیگر ممالک سے ناصرف کپاس کی درآمد پر اخراجات زیادہ آتے ہیں بلکہ درآمد کی گئی کپاس کو پاکستان لانےمیں بھی دو سے تین ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے ۔ اس کے برعکس بھارت سے کپاس یا دھاگے کی درآمد نہ صرف کم خرچ ہے بلکہ اس کی ترسیل بھی فوری ممکن ہے۔یہاں اس بات کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ کپاس کی کاشت کیلئے مخصوص اضلاع میں شوگر ملز کے قیام اور وہاں کپاس کی جگہ گنے کی کاشت میں اضافہ ہے۔ پنجاب میں موجود 45شوگر ملوں میں سے31ک پاس کیلئے مخصوص اضلاع میں واقع ہیں۔ ان میں سے 13شوگر ملیں ”کراپ زوننگ“ کے تحت کپاس کی کاشت کیلئے مختص کئے گئے مرکزی علاقے میں شامل چھ اضلاع خانیوال، بہاولنگر،راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ اور رحیم یار خان میں واقع ہیں جب کہ 18شوگر ملیں کپاس کی کاشت کے ثانوی علاقوں میں شامل پانچ اضلاع فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، اوکاڑہ اور پاکپتن میں واقع ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ غیر معیاری بیجوں کی فروخت اور زرعی ادویات و کھادوں میں ملاوٹ کے باعث کپاس کے معیار میں بھی کمی آئی ہے۔ اس حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں اور کپاس کی روئی کو بدرنگ کرنے والے کیڑوں(ریڈکاٹن بگ اور ڈسکی کاٹن بگ) کے باعث آنے والے وقت میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار اور معیار میں مزید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو حل کئے بغیر پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں کمی کا مسئلہ حل کرنا ممکن نہیں ہے۔علاوہ ازیں کپاس کی پیداوار بڑھانےکیلئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کپاس سے متعلق تحقیقاتی اداروں اور زرعی یونیورسٹیوں کو چین یا امریکہ کے اشتراک سے ریسرچ پراجیکٹ شروع کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ کپاس کے ایسے ہائبرڈ بیج تیار کئے جاسکیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی پیداوار بھی دے سکیں۔ ایسے بیجوں کی تیاری کو ٹیسٹنگ کے بعد سبسڈی پر کسانوں کو فراہم کیا جائے توکپاس کی پیداواراور معیار میں اضافہ ممکن ہے جس سے کسان اور انڈسٹری دونوں کو فائدہ ہو گا۔ اس حوالے سے قومی سطح پر ایک ادارہ بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے جس میں صنعتکاروں، کاشتکاروں اور حکومت کی نمائندگی کے ذریعے ایک ہدف متعین کرکے کپاس کی پیداوار اور معیار میں اضافے کیلئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا کام کیا جا سکے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش خام مال کی قلت کے باوجود پاکستان سے کپاس، کاٹن یارن اور گرے کلاتھ کی برآمدکا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پردو ارب 71ڈالر سے زائد مالیت کی کپاس، کاٹن یارن اور گرے کلاتھ بیرون ملک برآمدکیا گیا۔ان حالات میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت یارن کی برآمدات پر چھ ماہ کے لئے مکمل طور پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ انڈیا سے کپاس کی درآمد پر عائد پابندی فوری ختم کرے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش خام مال کی قلت کا فوری خاتمہ ممکن ہو ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین