ایک دو دہائیاں قبل تک ماحول کے تحفظ کی باتیں ترقّی پزیر تو کیا ترقّی یافتہ دنیا کے بھی بہت سے لوگوں کو ’’نئے دور کے ڈھکوسلوں‘‘ سے کم نہیں لگتی تھی، لیکن جب سے ماحولیاتی آلودگی اور موسموں میں تغیّر نے دنیا بھر میں مختلف طریقوں سے اپنے رنگ دکھانا شروع کیے ہیں ، بہت سے ایسے لوگوں کی بھی آنکھیں کھل چکی ہیں۔ کہیں شدید گرمی اور سردی نے تو کہیں شدید برف باری، بارشوں، سیلاب اور قحط نے لوگوں کو سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
چند یوم قبل ہی اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے آٹھ برس دنیا کی تاریخ کے گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں جس سے عالمی سطح پر درجہ حرارت میں ڈرامائی اضافے کا اندازہ ہوتا ہے۔ مصر میں رواں ماہ کی چھ تاریخ سے شروع ہونے والی کوپ 27 کلائمیٹ کانفرنس کے آغاز کے موقعے پر جاری کی جانے والی یہ رپورٹ کہتی ہے کہ سمندروں کی سطح بلند ہونے، گلیشیئر پگھلنے، طوفانی بارشوں، ہیٹ ویوز اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زمین کا درجہ حرارت انیسویں صدی کے اختتام کے مقابلے میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے اور پچاس فی صد اضافہ تیس برسوں میں ہوا ہے۔
دنیا کے بیش تر ماہرینِ ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں حال ہی میں جو تباہ کن بارشیں ہوئیں اور سیلابِ بلاخیز آیا اس کا سب سے بڑا سبب ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موسموں میں آنے والا تغیّر ہے۔ ساتھ ہی ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے میں پاکستان کا حصّہ نہ ہونے کے برابر۔ یعنی ہم دوسروں کے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اسی وجہ سے موسموں کے تغیّرکے بارے میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام منعقدہ کوپ 27 کانفرنس ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ اس میں پاکستان اپنا مقدمہ دنیاکے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔
وہ ترقّی یافتہ دنیا سے ’’ماحولیاتی انصاف‘‘ کا طلب گار ہے۔ چناں چہ وزیراعظم شہباز شریف ’’شرم الشیخ ماحولیاتی سمٹ‘‘ میں شرکت کے لیے مصرگئے ہیں۔ ان کے ساتھ جانے والے وزیر خارجہ اور کابینہ کے اراکین کوپ 27 کی تمام اہم کمیٹیوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنی ہے۔اٹھارہ نومبر تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں 197 رکن ممالک شرکت کر رہے ہیں جس میں موسموں میں آنے والی تبدیلیوں اور موسمیاتی انصاف پر کارروائی کی ضرورت پر غور ہوگا۔کانفرنس کے ایجنڈے میں پہلی بار موسمیاتی تبدیلی کا معاوضہ دینے کی بات شامل کی گئی ہے۔
اس ضمن میں امیر ممالک کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہونے والے غریب ممالک کو معاوضہ دینےکے نکتے پر بات ہوگی۔تاہم نقصانات پر بات چیت میں ذمے داری یا معاوضے کا تعین نہیں ہوگا۔ اس بات چیت کا مقصد نقصانات کے معاوضہ کا معاملہ 2024تک حتمی فیصلے تک لے جانا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے امیر ممالک موسمیاتی تبدیلیسے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے معاوضے کی ادائیگی پر بحث مسترد کرتے رہے ہیں۔کانفرنس میں عالمی رہنما دنیا کو درپیش موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل پر بات کریں گے۔
پاکستان کا مقدمہ
اس کانفرنس کے بارے میں چھ نومبر کو وزیر اعظم نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کوپ27کانفرنس کا مصر میں انعقاد ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی حِدّت کے خلاف انسانیت کی جنگ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔اس وقت پاکستان اور افریقا میں انتہائی موسمی واقعات نے ماحولیاتی تبدیلی کی عالم گیریت کو ظاہر کیا ہے۔ اس کے مہلک اثرات پر آنکھیں بند کرنا مجرمانہ غفلت ہوگی۔ جی 77 کی صدارت کرتے ہوئے دنیا پر زور دیں گے کہ وہ کلائمیٹ فنانسنگ اور نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ دینے کے اپنے وعدےپورے کرے۔
انہوں نے کہا کہ مالی مدد کے بغیر ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے متعدد خطرات سےدوچار رہیں گے۔ ہم موسمیاتی انصاف مانگ رہے ہیں۔ حالیہ قدرتی آفات کے بعد ضروریات کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ قرضوں، توانائی اور خوراک کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتوں اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے متاثرین کی بحالی کے لیے کی جانے والی ہماری کوششوں میں رکاوٹ آسکتی ہے۔ دنیا پاکستان کو کیس اسٹڈی سمجھے۔
دوسری جانب وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائیر نے شرم الشیخ میں منعقد ہونے والی کلائمیٹ سمٹ میں گلوبل وارمنگ سے متعلق مسائل اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کسی خاطر خواہ پیش رفت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ جرمن صدرکے مطابق اس وقت دنیا مختلف اور متعدد تنازعات کے دور سے گزر رہی ہے ایسے میں مصر کے پُر فضا سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ہونے والی گلوبل کلائمٹ سمٹ COP27 کے خاطر خواہ نتائج اور پیش رفت کے بارے میں وہ شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔
اشٹائن مائیر کا کہنا تھاکہ 'یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ تنازعات کے وقت، یہاں تک کہ فوجی تصادم کے اس دور میں روس یا چین جیسی ریاستیں شرم الشیخ میں کانفرنس کے دوران یا اُس کے بعد بھی کوئی تعمیری کردار ادا کریں گی۔ تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف پیش رفت ضروری ہے، چاہے اس کے لیے حالات بہت ساز گار یا حوصلہ افزا نہ بھی ہوں۔
ناکردہ گناہ کی سزا
عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ غیر ذمے دارانہ انسانی سرگرمیاں ہیں، جن میں بڑھتی ہوئی صنعتیں اور سبز مکانی یا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج سرفہرست ہیں۔ تاہم پاکستان جیسے ترقّی پزیر ممالک کا اس میں حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے،لیکن ہم اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی اور مضر اثرات سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔
ماہرین کے مطابق جنگلات کی اندھا دھند کٹائی اور لکڑی اورکوئلے کے بہ طور ایندھن استعمال سے دنیا کے درجۂ حرارت میں بہ تدریج اضافہ ہوا۔ مگر تیل اور قدرتی گیس کے استعمال سے یہ درجۂ حرارت انتہائی تیزی سے بڑھاہے۔ان رکازی ایندھنوں یا فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاؤس گیسوں، مثلا میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کا اخراج ہوتا ہے، جو سورج کی شعاؤں کو جذب اور ٹریپ کر کے ماحول کے درجۂ حرارت کو بڑھاتی ہیں۔ یاد رہے کہ دو دہائیوں میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں تقریبابارہ فی صد اضافہ ہواہے۔
گزشتہ برس گلاسگو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے سی او پی 26 کے صدر آلوک شرما نے کہاتھاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ کرۂ ارض اس وقت ابتری کی طرف جا رہا ہے۔ ہم سب یہاں اس لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ مل کر ان مسائل کا حل نکال سکیں۔ مسئلہ اتنا سادہ نہیں رہا کیوں کہ اس میں حکومتی پالیسیوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔ حکومتیں عموما اپنی پالیسیاں ماہرین ماحولیات کی فراہم کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق تشکیل نہیں دیتیں، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔
تحفظ ماحول کے لیےکام کرنے والے عالمی ادارں کے مطابق دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج امریکا، یورپی یونین، چین اور روس کر رہے ہیں اور پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اور غریب ممالک کا اس میں حصہ بہت کم ہے، مگر متاثر تو سب ہی ہو رہے ہیں اسی لیے گلاسگو کانفرنس میں شریک ان ممالک کے نمائندوں نےاپنے مطالبات پیش کیے تھے، جن میں سر فہرست ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مالی امداد کا مطالبہ تھا۔ماہرین اس مطالبے کی بنیاد یہ نکتہ قرار دیتے ہیں کہ کرۂ ارض کو درپیش خطرات سب کے مشترکہ مسائل ہیں تو سب ہی کو ایک دوسرے کی مدد کر کے اپنی پھیلائی ہوئی آلودگی کو صاف کرنا ہو گا۔
پاکستان کا مقدمہ یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں میں ہمارا حصہ بہت کم ہے۔ عالمی سطح پر خارج ہونے والی سبز مکانی گیسوں کی کل مقدار میں پاکستان کا حصہ صرف 0.72 فیصد بنتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہا ہے اور حالیہ بدترین سیلاب اس کی تازہ مثال ہے۔ چند برسوں میں موسم گرما میں پاکستان کے کئی شہر دنیا کے گرم ترین شہروں کی فہرست میں صفِ اول پر تھے۔ بارشوں کےانداز تبدیل ہونے سے سندھ اور بلوچستان شدید خشک سالی کی لپیٹ میں رہ چکے ہیں۔ درجۂ حرارت بڑھنے سے ہمالیہ کے گلیشیئرز پہلے کی نسبت بہت تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو توانائی کے بحران کا بھی سامنا ہے۔
ماہرین ماحولیات کے بہ قول ماحولیاتی تبدیلیوں سے انسانی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں عام افراد اس حوالے سے زیادہ شعور نہیں رکھتے کہ وہ از خود ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ افریقا، بنگلادیش، چین اور بھارت وغیرہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ عام افراد کی کوششیں اور چھوٹے پراجیکٹس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔
ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جب جنگلات کو کاٹا یا جلایا جاتا ہے تو اس سے کاربن کا ذخیرہ ضایع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا سمیت کئی یورپی ممالک توانائی کے متبادل ذرائع میں ونڈ اور سولر انرجی کے بجائے بایو انرجی یا بایو ماس کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف ہم اپنے کھوئے ہوئے جنگلات کو بحال کر سکتے ہیں بلکہ بایو ماس کے استعمال سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی تیزی سے کم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل متحرک ہو اور قومی سطح پر مکمل منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے ساتھ درخت اگاؤ مہمات شروع کی جائیں۔
ماہرین2021 میں آئی پی سی سی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے شدید گرمی کی لہریں، طوفان، تباہ کن بارشیں اور سیلاب اب معمول بن چکے ہیں۔ اگر آئندہ برسوں میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود نہیں کیا گیا تو مستقبل میں مزید ہول ناک قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یادرہے کہ 2015میں پیرس میں ہونے والے تاریخی ماحولیاتی معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ جو ممالک سبز مکانی گیسوں کے زیادہ اخراج کا سبب بن رہے ہیں وہ تعاون کے ذریعے عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کودو ڈگری سینٹی گریڈسے کم رکھیں گے۔ مگر ممالک کے اپنے اپنے مفادات اور عدم تعاون کے باعث اب تک یہ ممکن نہیں ہو سکا ہےجس کا خمیازہ پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سائئنس دانوں اور ماہرین ماحولیات (جنہیں انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی) یاموسموں میں تبدیلی کا بین الحکومتی پینل کہا جاتا ہے )کے مطابق عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں ایک اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے اور ہم ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈ کی حد کو چھونے والے ہیں۔
اگر عالمی درجۂ حرارت 1850 کے درجۂ حرارت سے ایک اعشاریہ سات سے ایک اعشاریہ آٹھ ڈگری زیادہ ہو جاتا ہے تو دنیا بھر کے لوگوں کو جان لیوا گرمی اور حبس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔دنیا کو اس صورت حال سے بچانے کے لیے 2015 میں 194 ممالک نے پیرس معاہدے پر دست خط کیےتھے جس کے تحت انہوں نے یہ عزم کیا تھا کہ عالمی درجۂ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی حد سے نہیں بڑھنے دیا جائےگا۔
کوپ27کی اہمیت
یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایک برس کے دوران دنیا میں کئی قدرتی آفات آئیں اور کئی ملکوں میں بلند ترین درجۂ حرارت کے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ہر برس اقوامِ متحدہ کے تحت منعقد ہونے والی اس سربراہی کانفرنس کا مقصد رکن ممالک کی حکومتوں کے مابین ان اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوتا ہے جس سے بڑھتی ہوئی عالمی حدت پر قابو پایا جاسکے۔ اس کانفرنس کو’ ’سی او پی‘‘ یا ’’کانفرنس آف دی پارٹیز‘‘ یا کوپ کہا جاتا ہے۔ یہاں پارٹیز سے مراد وہ ممالک ہیں جو کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں اور جنہوں نے موسموں میں تغیّر سے متعلق اقوام متحدہ کے1992کےپہلے معاہدے پر دست خط کر رکھے ہیں۔
کوپ 27 میں تین بڑے اہداف پر بات کی جائے گی:
(1)آلودگی میں کمی۔
(2)موسموں میں تبدیلی سے نمٹنے کے لیے رکن ممالک کی تیاری میں مدد کرنا۔
(3)ان اقدامات کے لیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا اور مالی و تکنیکی معاونت کا بندوبست کرنا۔
اس کے علاوہ ان اہداف کے بارے میں بات کرنا جن پرگزشتہ کانفرنس (کوپ 26) میں اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔
قدرتی آفات سے سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ آفات سے متاثر ہونے والے ممالک کی مالی معاونت کا بندوبست کرنا۔
عالمی سطح پر’ ’کاربن مارکیٹ‘‘ قایم کرنا جس کے تحت فضائی آلودگی کے اثرات کےعوض عالمی سطح پر مختلف مصنوعات اور سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔
کوئلے کا استعمال کم کرنے کے وعدوں پر عمل کو مستحکم کرنا۔
فنڈ ز کی فراہمی اہم مسئلہ
عالمی سطح پر ماحولیات کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں مالی معاونت یا فنڈنگ ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہی ہے۔مثلاً 2009 میں ترقی یافتہ ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ماحولیاتی تحفظ اور آلودگی میں کمی کے لیے ہر سال ایک سو ارب ڈالرز دیا کریں گے تاکہ ترقی پذیر ممالک اپنے ہاں فضائی آلودگی میں کمی کریں اور خود کو ماحولیاتی تحفظ کی عالمی کوششوں کے لیے تیار کر سکیں۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک یہ وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے اور اس کی میعاد2023 تک بڑھا دی گئی ہے۔
لیکن دوسری جانب ترقی پذیر ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ نہیں قدرتی آفات سے پہنچنے والےنقصانات اور تباہی کے ازالے کے لیے فوری مدد فراہم کی جائے۔اس ضمن میں جرمنی کے شہر بون میں ہونے والے مذاکرات میں اس تجویز کو رد کر دیا گیا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو فوری مدد فراہم کی جائے۔ امیر ممالک کو خدشہ تھا کہ اگر وہ فضائی آلودگی پیدا کرنےکے بدلے میں ترقی پذیر ملکوں کو رقوم فراہم کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں تو یہ سلسلہ آئندہ کئی عشروں تک جاری رہے گا۔تاہم یورپی یونین نے کوپ 27 میں اس معاملے پر بات چیت کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
متاثرہ ممالک کا مطالبہ ہے کہ جو ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں، اُنہیں ہی اس سے نمٹنے کے لیے سب سے زیادہ پیسے دینے چاہییں۔ گزشتہ برس ملاوی کے صدر لزاروس چکویرا نے یہ سخت بات تک کہی تھی کہ ’’یہ کوئی خیرات نہیں ہے، ادائیگی کریں یا ہمارے ساتھ ہی ختم ہو جائیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہم آپ سے وعدہ پورا کرنے کا کہتے ہیں تو یہ کوئی خیراتی کام نہیں، بلکہ یہ صفائی کی فیس ادا کرنے جیسا ہے۔ اگر آپ ہمارا گھر کہلانے والی زمین کو اس حالت تک لانے میں شامل ہیں تو آئیں اسے مل کر صاف کریں، لیکن آپ کو اس کے لیے ذمہ دار بننا پڑے گا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار دنیا کے بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کا ماحولیاتی تباہی میں بہت معمولی ہاتھ ہے مگر اس کے باوجود وہ شدید گرمی کی لہروں، سیلابوں اور آب و ہوا سے متعلق دیگر آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نقصان کی تلافی کے لیے مال دار ممالک آگے بڑھیں، جو ویسے بھی تاریخی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔اس کی ایک واضح مثال پاکستان ہے جہاں 2022 کے موسم گرما میں گلیشیئر پگھلانے والی گرمی کی لہر اور طوفانی بارشوں کے سبب ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ شدید متاثر ہوا۔
سیلاب نے پاکستان کے کھیت کھلیانوں کو میلوں چوڑی جھیلوں میں تبدیل کر دیا جس سے وہاں آباد برادریاں کئی ہفتوں تک پھنس کر رہ گئیں اور آج بھی بہت سے علاقوں میں سیلاب کا پانی موجود ہے۔1700 سے زیادہ لوگ موت کی وادی میں جا سوئے، لاکھوں افراد اپنے گھر اور ذریعہ معاش سے محروم ہو گئے اور 40 لاکھ ایکڑ سے زیادہ فصلیں اور باغات ڈوب گئے یا تباہ ہو گئے۔ مال مویشیوں کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے بعد ملیریا کے کیسز میں اضافہ ہونے لگا کیوں کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔
اگرچہ 1995 سے تقریباً ہر سال منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنسوں میں خسارے اور نقصان کی مالی تلافی کا سوال مدت سے زیر بحث چلا آ رہا ہے،لیکن بین الاقوامی موسمیاتی معاہدوں میں ان ادائیگیوں کے لیے مالیاتی طریقہ کار کے معاملے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کوپ27 کو یہ رسمی طریقہ کارطے کرنےپر پیش رفت کے لیے ایک اہم لمحے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک کی کم سے کم خواہش یہ ہوگی کہ انہیں قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے مالی مدد کی فراہمی کی بات ضرور ہو۔ اس کے علاوہ ان ممالک کی یہ کوشش بھی ہوگی کہ انہیں مالی امداد کی فراہمی کی کوئی حتمی تاریخ دی جائے۔ دوسری جانب، ترقی یافتہ ممالک کوشش کریں گے کہ چین، بھارت ، برازیل، انڈونیشیا اور جنوبی افریقا جیسے بڑے بڑے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ زیادہ آلودگی پیدا کرنے والا ایندھن (کوئلہ) استعمال کرنا بند کر دیں۔
اس کے علاوہ اس کانفرنس میں ان اہداف پر بھی بات ہوگی جن کا وعدہ گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ ان میں جنگلات کا تحفظ، کوئلہ اور میتھین گیس جیسے موضوعات شامل ہیں اور امید ہے کہ اس برس مزید ممالک ان حوالوں سے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیں گے۔ تاہم، بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ عالمی راہ نماؤں نے بہت دیر کر دی ہے اور اس کانفرنس میں خواہ جس بات پر بھی اتفاق ہو جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا ہدف پھر بھی حاصل نہیں ہوگا۔
سرپر منڈلاتے شدید خطرات
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی دن گھر سے باہر نکلیں تو درجہ حرارت میں آدھے ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق شاید آپ کو محسوس بھی نہ ہو، مگر اس کے ہمارے عالمی ماحول پر ممکنہ طور پر بہت تباہ کُن اثرات ہو سکتے ہیں۔
انیسویں صدی کے اختتام پر دنیا جتنی گرم تھی، اب اس سے 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہو چکی ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اگر عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا گیا تو قطبی علاقوں میں موجود برف کی تہیں اور گلیشیئرز پگھلنا جاری رکھیں گے۔ مگر اس سطح تک محدود رکھنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم بڑے پیمانے پر آنے والے سیلابوں کی شدت کم کر سکیں گے اور سطحِ سمندر میں اضافے کے باعث کروڑوں لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچا سکیں گے۔
اس کے علاوہ ہم دنیا بھر میں پانی تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے لوگوں کی تعدادپچاس فی صد تک کم کر سکیں گے۔دو ڈگری سینٹی گریڈ پر دنیا بہت سوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔ گرم سمندروں میں موجود مرجان کی تمام چٹانیں برباد ہو جائیں گی اور سیلاب پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو جائیں گے۔ بڑی تعداد میں جانور اور پودے اپنا قدرتی ماحول کھو دیں گے اور کئی دیگر لوگ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے مقابلے میں زیادہ گرمی کا سامنا کریں گے۔ تین ڈگری اور اس سے زیادہ گرمی کا ہمارے سیارے پر تباہ کُن اور خوفناک اثر ہو گا اور بیسیوں کروڑ لوگ سطحِ سمندر میں اضافے کی وجہ سے اپنی رہایش کھو دیں گے۔