• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف ایران میں دو ماہ سے جاری ’’زن، زندگی اور آزادی‘‘ کے نعرے دنیا بھر کی عورتوں کو احتجاج کی دعوت دے رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں بدزبانی، انتشار اور مہنگائی نے مظاہروں کی شکل اختیار کر لی ہے اور پنساری والے سےبوتیک والے تک آئے دن کے مظاہروں سے سوائے ذہنی پریشانی کے ،کوئی اور راستہ اختیار کرنا ممکن نہیں رہا۔ پرانے زمانے کی بچوں کی کہانی میں دو بکریاں ایک تنگ پل پر سے پہلے گزرنے کی ضد میں آخر کو دریا میں گرجاتی ہیں۔ بچوں کو یہ سبق پڑھا کر نصیحت کی جاتی کہ لڑنے اور بے جا ضد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسا معاملہ اگر قوم کا بھی ہو تو اس صورتحال کے باعث سرحدیں غیر محفوظ اوردشمن چوکنا ہو جاتا ہے مگر کون دشمن کہاں کا دشمن،ہماری قوم تو بے پیندے کے برتن کی طرح، کبھی ادھر لڑھکتی ہے اور کبھی ادھر۔یہ منظر اس وقت اور بھی طوفان آمیز ہو جاتا ہے جب قوم کو راہ دکھانے والے بقول علامہ اقبال،جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔عمومی طور پر بھیڑ چال ایسی پھیلتی ہے کہ لوگ قوم بن کر نہیں، آپا دھاپی میں مبتلا ہوکر جو جس کے جی میں آتا ہے، کرنے لگتا ہے۔ فلسفیوں نے تو کسی سے نمک مانگنے کو بھی منع کیا تھا۔ ہماری تو معیشت مانگے تانگے کے خیرات نما قرضوں پر چل رہی ہے۔ہر صوبہ اپنی من مانی کررہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ18ویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری مستحسن ہے مگر امور خارجہ، کرنسی اور دفاع کے معاملات کو حکومت وقت کے اختیار میں چیلنج کرنے کا سلسلہ سڑکوں پر طے نہیں کیا جاتا۔

پاکستان کی تاریخ میں سوائے قائداعظم اور بھٹو صاحب کے کوئی اور ایسا رہنما موجودہی نہیں رہا جو اپنی آل اولاد کے علاوہ یہ بھی دیکھتا کہ سندھ میں سب سے زیادہ گول سرخ مرچ کی فصل ہوتی ہے، وہ سب سیلاب کے باعث ، بوری کی بوریاں اور کھیت کے کھیت فنا ہوئے، کسان کیمروں کے سامنے دکھا رہے ہیں خالی بوریاں ۔ پاکستان میں تو نہیں، انڈیا میں بنگال میں مہاشویتا دیوی تھیں جو کسانوں اور مزدوروں کے مسائل حل کرتے کرتے 90سال کی عمر ہونےکے باوجود، پیچھے آنے والوں کی تربیت کرکے گئیں۔ دوسری مثال دو دن ہوئے ایلا بھٹ احمد آباد کے چھوٹے سے گھر میں 2نومبر کو دنیا سے چلی گئیں۔ ایلا بھٹ جنہوں نے گاندھی آشرم کی طرز پر اپنے صوبے گجرات کی عورتوں کو اپنے گھر کے پھٹے ہوئے کپڑےاستعمال کے قابل بنانے سے کام شروع کیا۔ گائوں گائوں جاتیں، عورتوں کو منظم کرتیں بلا اس تخصیص کے ، کہ ان میں کون مسلمان، مسیحی یا ہندو یا شودر ہے۔ انہوں نے اپنی تنظیم کا نام ’’سیوا‘‘ رکھا۔ انہوں نے یہ کام1960 کی دہائی میں شروع کیا۔ انڈیا کے بہت سے غریب صوبوں میں جاکر خواتین کو تربیت دی، ان کے لئے مارکیٹ بنائی، حتیٰ کہ دنیابھر میں ہونے والی، عورتوں سے متعلق کانفرنسوں میں، ان غریب عورتوں کو بھیج کر، ملک کا اور ان خواتین کا مان بڑھایا۔ سیوا کی عورتوں کی عمر اصغر خان اور مجھ سے ملاقات کرائی،انڈیا پاکستان کی عورتیں آپس میں باتیں کرتیں، اپنے دکھڑے نہیں، کامیابیاں سناتیں۔ ایک دوسرے کا کام دیکھ کر اور پھر اپنی آمدنی کے استعمال کی منصوبہ بندی پر ہنستی مسکراتی باتیں کرچکنے کے بعد ہم سب مل کر کھانا کھاتیں۔ ایلا بھٹ نے غریب عورتوں کے ساتھ کام کرنے کا جنون میرے اور عمر اصغر خان کے اندر ایسا بھرا تھا کہ اس نے ایبٹ آباد میں اور میں نے لاہور کے 10علاقوں کی غریب عورتوں کو کام سکھایا۔ اس وقت تک جب تک سرکار نے فنڈنگ کا کام بھی اپنے ہاتھ میں لے لیاپھر ہمارے کام پر اوس پڑ گئی۔

ایلا بھٹ دیدی دو دفعہ پاکستان آئیں۔ ہم انہیں دور دراز دیہات میں لے کر گئے۔ آج جب میں ان کو یاد کرتے ہوئے لکھنے بیٹھی ہوں تو ویف کی ساری خواتین اور دوسری ایکٹوسٹ خواتین بھی ایلا دیدی اور سیوا کے کام کو یاد کررہی ہیں۔ جیکارڈ کھڈی پر بنے سوٹ، ہم لوگوں نے آج سے پندرہ برس پہلے بنائے تھے اور آج ساری فیشن ڈیزائنرز کاپی کررہی ہیں۔ بڑے فخر سے بتاتی ہیں کہ یہ جیکارڈ پر بنا ہے۔ ہم تو خواتین سے بنواتے تھے اور یہ فیکٹریوں کے مزدوروں سے بنوا رہے ہیں۔ البتہ سندھ میں S.R.S.O کے ادارے نے اب یہ بیڑا اٹھایا ہے۔ خواتین کی کشیدہ کاری اور مقامی کرافٹ کو جس حد تک ممکن ہو، کچھ یوں آگے بڑھایاکہ کچھ لڑکیاں پڑھیں اور کچھ تو واقعی گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے نیٹ پر آرڈر لینا سیکھ لیا ہے۔

ہم لوگ انڈیا سے سیوا کی بتائی ہوئی دلائیاں اور جیکٹس لیکر آتے تھے۔ لاہور میں ایک خاتون جو سلائی میں ماہر تھیں، نے وہ چیزیں دکھائیں۔ پھر وہ بھی دلائیاں بنانے لگی۔ اس سال میں بیمار ہوئی تو یہ کام بھی بند ہوگیا۔ پاکستان میں دلائیاں اس گلابی موسم میں کام آتی ہیں۔ رتی کے کام کی دلائیاں امریکہ میں عام ہیں۔ ہمارے ملک میں اس کام کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ وہی بات کون سر کھپائے؟ میری عمر کی ہم سب عورتیں کبھی لاٹھی پکڑ کر چلتی ہیں تو کبھی وہیل چیئر پر ۔ یہ کام تو کرافٹ منسٹری اور وومن کمیشن کا ہے وہ پہلے بنانا اورپھر فروخت کرنا سکھائیں۔ اس وقت امریکی فنڈز دے رہے ہیں کہ عورتوں کو گھر کی سطح پر بزنس کے اصول سمجھ میں آئیں، اب تو وزارت ہی ختم کردی گئی ہے۔ الیکشن کا شور ہے۔ہر چند اسرائیل میں 4سال میں 5بار انتخابات ہوئے ہیں۔ برازیل میں سوشلسٹ مگر سزا یافتہ صدر پھر کامیاب ہوگیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے ہی آثار اور مطلع ابر آلود نظر آرہا ہے۔ جتنی پارٹیاں گزشتہ 12برس میں اقتدار میں رہیں، ان کی خواتین ارکان نے صوبوں اور مرکز میں نہ کوئی سنجیدہ کام کیا نہ ادارہ بنایا۔ شاہین عتیق الرحمان نے بنیاد کے نام سے حافظ آباد میں ایک ادارہ بنایا تھا۔ فنڈنگ بند، وہ بھی بند، اب تو زیر بحث یہ ہے کہ گولی کس ٹانگ میں لگی۔ مجھے سندھ کا حالیہ واقعہ یاد ہے جب ایک بندے کی ٹانگ کا آپریشن ہونا تھا، ڈاکٹروں نے ا س کی دوسری ٹانگ کاٹ دی جب بہت شور مچا تو ڈاکٹروں نے دوسرا آپریشن کیا، مجھے بھی شوکت خانم کے ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھنا ہے کہ پلستر کہیں دوسری ٹانگ پر تو نہیں چڑھا دیا۔

تازہ ترین