• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم راحت نسیم سوہدروی

انیس ویں صدی کے آخر سے قیامِ پاکستان تک کوئی ایسی ملّی، دینی اور سیاسی تحریک نہ ہو گی، جس میں بابائے صحافت، مولانا ظفر علی خان نے قائدانہ کردار ادا نہ کیا ہو۔ جنگِ طرابلس ہو یا بلقان، تحریکِ خلافت ہو، افغان آزادی کا سوال ہو یا مسئلہ فلسطین، تحریکِ حرّیتِ کشمیر ہو یا مسجد شہید گنج کا مسئلہ، سائمن کمیشن ہو یا نہرو رپورٹ، تحریکِ پاکستان ہو یا تحریکِ ختمِ نبوت، دین دشمن تحریکیں ہوں یا آزادیِ صحافت کا سوال، مولانا ظفر علی خان ایک آتش نوا مقرّر اور صاحبِ قلم، نڈر عوامی رہنما اور شاعر کے طور پر پیش پیش رہے۔

سچّی بات تو یہ ہےکہ فرنگی حکم رانوں کے خوف کےخاتمےاور بیداریِ ملّت کا فریضہ جس طرح مولانا ظفر علی خان نے سرانجام دیا، اس کے ذکر کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے ان خدمات کا اعتراف کچھ اس طرح کیا کہ ان کے قلم کی کاٹ کو مصطفیٰ کمال کی تلوار سے تشبیہہ دی، جب کہ قائداعظمؒ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں شاہی مسجد، لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر مجھے مولانا ظفر علی خان جیسے دوچار افراد اور مل جائیں، تو مَیں آپ کو یقین دِلاتا ہوں کہ پھر مجھے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔‘‘

مولانا ظفر علی خان نے جس وقت میدانِ سیاست میں قدم رکھا، اُس وقت انگریز اقتدار کا اِس قدر دبدبہ تھا کہ پورا گاؤں لال پگڑی والے ایک سپاہی کےسامنے لرزہ براندام ہو تا، مگر مولانا ظفر علی خان نے غلامی کی اس سیاہ رات میں آزادی کے حسین خواب کی تعبیر کے لیے اپنی مسیحا نفسی سے ملّت کو نئی زندگی بخشی۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں اور خُوبیوں سے سرفراز کیا تھا، وہ بیک وقت صاحبِ طرز ادیب، مقرر، شاعر، لاجواب مترجّم، نڈر صحافی، رہنما اور سب سے بڑھ کر سچّے و پکّے مسلمان تھے۔ مولاناظفر علی خان کا دینِ اسلام اور نبی کریمﷺ سے محبّت کا یہ عالم تھا کہ ایک جگہ فرمایا؎ اتنی ہی آرزو ہے میرے دِل میں اے خدا…اسلام کو زمانے میں دیکھوں، مَیں سربلند…دُنیا میں سرنگوں علَمِ مصطفےٰ ؐنہ ہو…ہم خواہ ذلیل ہوں یاارجمند۔

مولاناظفرعلی خان ضلع سیال کوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، کوٹ میرٹھ میں پیدا ہوئے، اُن کے والد مولوی سراج دین جیّد عالم اور محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا، مولوی کرم الٰہی سے حاصل کی اور مشن اسکول، وزیر آباد سے مِڈل کا امتحان پاس کیا۔ بعدازاں، مزید تعلیم کے لیے ریاست پٹیالا چلے گئے، جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک پاس کر کے ظفر علی خان سری نگر چلے گئے اور تلاشِ معاش میں مصروف ہوگئے۔ ایک روز ظفر علی خان ڈاک خانے(جہاں ان کے والد ملازمت کرتے تھے) کے احاطے میں بیٹھے تھے کہ ایک انگریز، فوجی وردی میں آیا اور ظفر علی خان کو بیٹھے دیکھ کر کہا’’او لڑکے! اِدھر آؤ، گھوڑے کی باگ پکڑو‘‘مگر ظفر علی خان نے اس آواز پر کان نہ دھرا، جس پر انگریز سیخ پا ہوتے ہوئے دوبارہ بولا ’’لڑکے! تم نے سُنا نہیں، اِدھر آؤ اورگھوڑے کی باگ پکڑو۔‘‘ اس بار ظفر علی خان نے انگریز کو غور سے دیکھا اور سنجیدگی سے جواب دیا، ’’جناب! معاف کریں، مَیں آپ کا ملازم یا غلام نہیں ہوں۔‘‘

انگریز کسی ہندوستانی سے ایسا جواب سُن کر سخت غصّے میں آگیا، مگر کچھ کہہ نہ سکا اور واپس جا کر انگریز ریذیڈنٹ سے شکایت کی کہ ’’مولوی سراج دین کو ملازمت سے نکال دیا جائے،‘‘ مگر مولوی سراج دین کی کوشش سے یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ اُن کے والد کی ملازمت تو بچ گئی، مگر نوجوان ظفر علی خان کی انقلابی سوچ میں فرنگی حکم رانوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ بڑھ ہوگیا۔ اب ظفر علی خان دِل سے ملازمت کا تصوّر نکال کر مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونی وَرسٹی چلے گئے، جو ان دِنوں ’’محمڈن ایم اے او کالج‘‘ تھا اور پوری توجّہ تعلیم پر مرکوز کردی۔ 

علی گڑھ کی علمی، ادبی اور مِلّی فضا نے ان کی صلاحیتوں کو خُوب جلا بخشی، جس کے نتیجے میں ان کی فطری استعداد سامنے آئی۔ وہ اپنے کالج میگزین کے ایڈیٹر اور طلبہ یونین کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے، طلبہ یونین کی ایک تقریب میں، جس کا انعقاد مولانا شبلی نعمانی کے اعزاز میں کیا گیا تھا، ظفر علی خان نے ایک منظوم قصیدہ پڑھا، جس کی سید سلیمان ندوی نے بہت تعریف کی اور سر سید احمد خان نے ظفر علی خان کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا ’’ظفر علی خان اُن ہونہار نوجوانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں آگے چل کر مُلک و ملّت کی ذمّے داریاں سنبھالنی ہیں۔ مَیں ان میں ایک روشن مستقبل کے آثار دیکھ رہا ہوں۔‘‘

ایک مرتبہ مولاناظفر علی خان حیدرآباد میں ایک اسٹیج پروگرام کے مہمانِ خصوصی تھے۔ اسٹیج پروگرام کے ڈرامے میں اسلامی شعائر کا مذاق اُڑایا گیا۔ بعدازاں، ظفر علی خان کو ڈرامے پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی، تو مولانا نے اپنے خطاب میں انگریزی تہذیب و تمدّن کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دیں۔کچھ عرصے بعد وہ بمبئی آگئے اور میر محفوظ علی بدایونی کے ساتھ مل کر کپڑے کا کاروبار شروع کردیا، مگر مولانا کاروباری مزاج کے انسان نہ تھے، تو انہیں اس میں سخت نقصان ہوا ، تو وہاں سے وہ واپس کرم آبادچلےگئے، جہاں اُن کے والد سخت بیمار تھے اور کاشت کاروں کاایک اخبار ’’زمیندار‘‘ نکالتے تھے۔ 

پھر والد نے یہ کہہ کر ’’کہ بیٹا! مَیں نے اسے اپنےخونِ دل سے سینچا ہے، اس کی آب یاری کرنا‘‘، ’’زمیندار“ اخباراُن کے حوالے کر دیا۔ مولانا ظفر علی خان نے والد کے انتقال کے بعد اخبار کی باقاعدہ ادارت سنبھال لی۔ کرم آباد چھوٹی سی جگہ تھی، جہاں کافی مسائل بھی تھے، تو اِس لیے وہ لاہور چلےگئےاور وہاںسے مئی1911ءمیں بڑے پیمانے پر ”زمیندار“ کا پہلا شمارہ نکالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ”زمیندار“ کی شہرت پورے برّصغیر میں پھیل گئی کہ اُس میں اب صرف کاشت کاروں کی نہیں، بلکہ پورے برّصغیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی بات کی جاتی تھی۔ 

اُس میں مسلمان قوم کو اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کی ترغیب دی جانے لگی، توانگریزکے قصر ِاستبداد کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ یہاں تک کہ ”زمیندار“ عوام کا مقبول ترین اخبار بن گیا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سےبھی لگایا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں کو اخبار پڑھنا نہیں آتا تھا، وہ پہلے ایک آنے میں اخبار خریدتے اور پھر ایک آنہ کسی کو دے کر اخبار سُنتے تھے۔ ”زمیندار“ وہ پہلا اخبار تھا، جس نے بلقان اور طرابلس کی جنگوں میں بین الاقوامی خبر رساں ایجینسی،رائٹرز کی خدمات حاصل کیں۔

ایک مرتبہ جب مولانا ظفر علی خان کا پریس ضبط ہوا، تو انہوں نےکچھ اس انداز میں اپنا حالِ دل بیان کیا؎ دِل ضبط، جگر ضبط، زباں ضبط، فغاں ضبط… سب سازِ عیاں ضبط، سب سوزِ نہاں ضبط…روکیں گے کیوں کر وہ میرے خامے کی روانی…تنکے سے بھی ہوتا ہے کہیں، سیلِ رواں ضبط…وہ ضبط کریں میری قلم اور دوات کو…ہو جائیں گے خود ان کے تفنگ اور سناں ضبط…تم ضبط زمیندار کے نمبر نہیں کرتے…کرتے ہو حقیقت میں محمّدکا نشاں ضبط۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زمیندار غلامی کے دَور میں آزادی کی آواز بن کر اُبھرا۔ 

زمیندار نے قریباً نصف صدی تک مسلمانوں کی خدمت کی اور اس دوران اُس نے ایک ادارے کی سی حیثیت اختیار کرلی تھی، جس نے کئی نام ور صحافی پیدا کیے، جس میں مولانا عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، مرتضیٰ احمد مکیش، قاضی عدیل عباسی، چراغ حسن حسرت، حاجی لق لق اور عطا اللہ سجادوغیرہ شامل ہیں۔ مولانا ظفر علی خان ایک بلند پایہ، قادر الکلام شاعر تھے، جنہوں نے غزلیں بھی کہیں ہیں، نظمیں بھی لکھیں اور صحافتی شاعری بھی کی۔ 

وہ ایک سادہ اور صاف گو انسان تھے، جن کی زندگی بھرکی سرگرمیوں کا محور و مرکز اسلام کی سربلندی ہی رہا، جس مشن یا تحریک میں حصّہ لیا، اس کا مقصد اسلام کی نشاۃِ ثانیہ تھا۔ لوگ بتایا کرتے تھے کہ مولانا ظفر علی خان نمازِ تہجّدادا کرکے تلاوتِ کلام پاک کرتے، پھر نمازِ فجر کے بعدسیرپر نکل جاتے اور واپسی پر انتہائی سادہ ناشتا کرنے کے بعد اخبار کا مطالعہ کرکے دن کی سرگرمیوں کا آغاز کرتے۔

قیامِ پاکستان کے بعد مولانا ظفر علی خان خرابیِ صحت کے باعث عملی سرگرمیوں سے الگ ہو گئے تھے، ان کی آخری تقریر جامعہ پنجاب، لاہور میں ’’اُردو کانفرنس‘‘ میں بحیثیت مہمانِ خصوصی تھی، جہاں آواز مدّھم ہونے کے باعث چند طلبہ نے فقرے کسے، تو مولانا ظفر نے فرمایا ’’کبھی دُنیا تماشا تھی اور ہم تماشائی، آج ہم تماشا ہیں اور دُنیا تماشائی، جہاں چڑھتے سورج کی پرستش ہوتی ہے، وہاں ڈوبتے سورج کو کون پوچھتا ہے۔‘‘ مولانا کا یہ کہنا تھا کہ وہاں بیٹھے نام وَر لوگ، جو مولانا کی قابلیت سے آگاہ تھے، آب دیدہ ہوگئے۔ زندگی کے آخری دنوں میں وہ کچھ عرصہ مَری، پھرکرم آباد میں رہے، بالآخر یہ مجاہد27 نومبر 1956ءکو دارِ فانی سے کُوچ کرگیا۔