خواتین کو ان کے حقوق دلانے کیلئے جدوجہد کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے مگر ہم نے بحیثیت قوم نوبیل انعام یافتہ فرانسیسی مصنفہ اینی ایرناکس کے الفاظ میں اب تک اس حوالے سے پہلا قدم بھی نہیں اُٹھایا۔ کیا ہم برسوں کی علمی ریاضت کے بعدبھی اُردو زبان میں ’’ریپ‘‘ (Rape)کا کوئی موزوں معنی تخلیق کر سکے ہیں جو عوام میں قبولِ عام بھی ہواور اس سے جرم کی سنگینی بھی واضح ہو سکے ،بلکہ ہم نے ایک عورت پر ہونے والے اس بدترین جبر و بہیمیت کیلئے اس انگریزی لفظ کے مبہم سے معنی ہی لغت کا حصہ بنائے ہیں مثال کے طور پر عصمت دری، آبرو ریزی وغیرہ۔ ان الفاظ کے تواترسے استعمال کے باعث جرم کی سنگینی کا درست طور پر ادراک کرنا ممکن نہیں رہا اور وہ کرب کبھی محسوس نہیں کیا جا سکتاجوجسمانی زیادتی کا شکار ہونے والی ایک عورت کو اپنی پوری زندگی سہنا پڑتا ہے ۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ایک’’اہلِ علم‘‘ نے اس عہدِ جدید میں بھی ایک ٹیلی ویژن پر اپنی پراگندہ سوچ کا اظہار کچھ یوں کیا کہ عورت شوہر سے تشدد سہہ کر خوش ہوتی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی گفتگو اور تحریروں سےمعاشرے میں ایک ایسا زہر گھول رہےہیں جس کا تریاق فی الحال دریافت نہیں ہوا۔ آگے بڑھنے سے قبل شاعرِ رومان و انقلاب ساحر لدھیانویؔ کا ایک شعر قارئین کی نذر
’’عورت نے جنم دیا مردوں کو ...مردوں نے اسے بازار دیا‘‘
اور ہم ہیں کہ یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ پاکستان کی نسبت مغرب میں اس گھنائونے جرم کی شرح زیادہ ہے ۔ یہ اس ظلم کا جواب نہیں جو ہم اپنی عورت، اس دھرتی کی نصف آبادی پر روا رکھے ہوئے ہیں۔ اس عورت پر جسے ہم ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے طور پر مقدس تو ٹھہراتے ہیں ،اس رشتے کے تقدس کا اظہار جمیل الدین عالیؔ کے لکھے ایک قومی ترانے سے کچھ یوں ہوتاہے،
ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے ہے
اور اقبالؔ بھی تو کہتے ہیں،
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
دونوں اردو شاعری کے اہم نام ہیں اور اقبالؔ تو فلسفی بھی تھے، المیہ مگر یہ ہے کہ عورت کو ہم نے کبھی اس کی آزاد حیثیت میں، ایک فرد کے طور پر کبھی دیکھا ہی نہیں بلکہ تقدیس کی مورت بنا کر پیش کیا اور اس کے حقوق نظرانداز کر دیے۔
پاکستانی عورت بزدل نہیں، مگر کیا کیجئے، عورتوں کےجدوجہد کی قیادت ہمیشہ طبقۂ اشرافیہ کی نمائندہ عورت ہی کرتی ، جس کے باعث وہ جدوجہد جس نے 41برس قبل ضیا الحق کے عہدمیں حدود آرڈیننس کے ردِعمل میں وومن ایکشن فورم (متحدہ محاذِ عمل) کے پلیٹ فارم کی صورت میں جنم لیا تھا، یہ فورم وطنِ عزیز میں عورتوں کے حقوق کی پراثر ترین اور زور آور آواز بن سکتا تھا ،جس میں یہ کامیاب نہ ہو سکا۔ بائیں بازو کی جماعتیں اس باب میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی تھیں مگر ہوا کیا؟وومن ایکشن فورم قصۂ پارینہ بن گیا اورعورت آج بھی کبھی مختاراں مائی کی صورت میں اپنے بھائی کے جرم کی سزا پا رہی ہے۔اس پدری معاشرے میں یہ عورت ہی ہے جو تبدیلی کی علامت ہے، وہ جرأت کی ایک غیرمعمولی مثال ہے۔ مردانہ برتری کے خبط کا شکار معاشرہ جب عورت کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرتا ہے تو اس میں ایسی کمیاں، کجیاں چھوڑ دیتا ہے جنہیں وہ بعدازاں، اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے۔
2012 میں جب بدنام زمانہ دہلی ریپ کیس میں دامنی نے سنگاپور کے ایک اسپتال میں سسک سسک کر جان دی تو یہ ایک عورت کی موت نہیں تھی، یہ اس سماج کی موت تھی جو زندہ ہونے کا دعوے دار تو ہے مگر عملی طور پر اس کی منافقت ہر عہد میں نمایاں ہوتی رہی ہے۔ اسی برس ڈیرہ غازی خان میں چند پولیس ا ہل کاروں نے 15 سے 20 برس کی عمر کی پانچ خواتین کے ساتھ جسمانی زیادتی مگر ان کے ساتھ انصاف ہوا یا نہیں، کچھ معلوم نہیں۔
دامنی کی موت پر پورا ہندوستان سڑکوں پر امڈ آیا تھا اور مظفر گڑھ کی ’’دامنی‘‘ کی خودسوزی پر ایک پتہ تک نہ ہلا۔ سب خواتین کائنات سومرو کی طرح انصاف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ مظفر گڑھ کی دامنی بھی وہ بدنصیب لڑکی تھی جو مبینہ طور پر پولیس اہل کاروں کے جبر کا شکار ہوئی، رپورٹ درج کروانے گئی تو مقدمہ درج نہ ہو سکا اور اس نے مظفر گڑھ پریس کلب کے سامنے احتجاجاً خودسوزی کر لی۔ چند سال قبل ہی اس کے ملزموں کو ’’باعزت‘‘ رہا کر دیا گیا، ’’راکھ‘‘ سے ثبوت بھی کیا مل سکتا تھا؟ اور دامنی کا جرم کیا تھا؟ عورت ہونا، بے بس ہونا یا ایک پدری سماج کا رُکن ہونا؟
غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہوں تو ہم یہ دعویٰ کرنے سے قاصر ہیں کہ اَجی! پاکستان میں دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہیں کیوں کہ عالمی تحقیقاتی ادارے آنر بیسڈ وائلنس اویئرنیس نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کئے جانے کی شرح دنیا کے کسی بھی ملک کی نسبت سب سے زیادہ ہے اور دنیا میں غیرت کے نام پر قتل کے اندازاً 20 فی صد واقعات وطنِ عزیز میں رونما ہوتے ہیں۔یہ موضوع فی الحال تشنہ ہے اور چوں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور جلد ہار نہیں مانیں گے چناں چہ اس ادھورے مضمون کو مولانا رومیؒ کی اس صوفیانہ امید پر یہیں ختم کرتے ہے ،
’’یہ آواز آپ کو دروازہ بند ہونے کی لگ رہی ہے۔یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ آواز دروازہ کھلنے کی ہو۔‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)