• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسمبلیاں توڑنے کا پروگرام بنایا ہے تو 20 دسمبر کا انتظار کیوں؟، وزیر داخلہ رانا ثناء

رانا ثناء اللّٰہ—فائل فوٹو
رانا ثناء اللّٰہ—فائل فوٹو

وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہے کہ سنا ہے 20 دسمبر سے پی ٹی آئی ارکانِ اسمبلی استعفے دیں گے، اگر فیصلہ کر لیا ہے تو 20 دسمبر تک انتظار کیوں کر رہے ہیں؟

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ  آپ چھوڑ تو کچھ نہیں رہے، پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ہم بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے، اگر الیکشن ہوگا تو پوری طرح تیار ہیں۔

ان کا کہنا  ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ ملک میں ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ عدم استحکام ہو تاکہ ملک افراتفری کی طرف جائے، اب بحرانی کیفیت پیدا کرنے کے لیے کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تحلیل کرنے کی بات کر رہے ہیں، کرپٹ نظام سے نکل رہے ہو تو صدر کو نکالو، سینیٹ سے نکلو، جی بی، کشمیر سے بھی نکلو۔

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ اگر تم کرپٹ سسٹم سے نکل رہے ہو تو سینیٹ اور آزاد کشمیر سے بھی باہر آؤ، ایک طرف کرپٹ سسٹم سے باہر نکل رہے ہو تو دوسری طرف الیکشن لڑ کر بھی آ رہے ہو، اگر یہ سسٹم تمہیں وزیرِ اعظم بنائے تو کرپٹ نہیں ہے، اگر سسٹم آپ کو اقتدار کی کرسی پر نہ بٹھائے تو یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کا مقصد ملک میں عدم استحکام ہے، پنجاب اور کے پی اسمبلی توڑنے کے بعد الیکشن ہوتے ہیں تو سندھ، بلوچستان میں نہیں ہوں گے، نگراں حکومت پنجاب اور کے پی میں ہوگی، باقی دونوں صوبوں اور وفاق میں نہیں ہو گی۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ اسمبلی توڑنے کا عمل غیر سیاسی و غیر جمہوری ہے، پہلے قومی اسمبلی کے استعفے کی آ کر تصدیق کر دیں، پارلیمنٹ لاجز خالی کر دیں، گاڑیاں واپس کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی معلامات وفاقی حکومت کی نظر میں ہیں، عوام کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں، مکمل کنٹرول کیا جا رہا ہے، بات آگے بڑھی تو آپریشن وقت پر ہو گا، دیر نہیں ہوگی، سیاسی عدم استحکام کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ مسلم لیگ اور اتحادیوں کی مشاورت چل رہی ہے، کوشش کریں گے کہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں، الیکشن کا بائیکاٹ یا اسمبلیاں توڑنے کا عمل کبھی بھی سیاسی جماعتوں اور ملک کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان سمجھتے تھے کہ پنڈی میں اتنے لوگ پہنچ جائیں گے کہ ہر سو لوگ ہی لوگ ہوں گے، آپ کے فتنہ فساد ایجنڈے کو عوام اور کارکنوں کی حمایت حاصل نہیں، جلسے میں 50 ہزار لوگ بھی نہیں تھے، انہیں اس شرمندگی کو تسلیم کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ آدمی بیک وقت ڈھیٹ بھی ہے، بے شرم بھی اور غلیظ بھی ہے۔

رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ یہ قوم سے معذرت کرتے اور پارلیمنٹ میں واپس آتے، سیاستدانوں کے ساتھ مل کر بات کرتے، سیاستدان مل بیٹھتے تو ڈیڈ لاک ٹوٹتے، وہ ایک دوسرے کی بات کو تسلیم کرتے۔

انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ جب تک چیف تھے اخلاق کے دائرے میں رہ کر بات ہو سکتی تھی، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو گند اچھالا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میں شرم نہیں، عمران خان لوگوں سے پریس کانفرنس کرانا چاہتے تھے، شاید لوگ تیار نہیں ہوئے۔

وزیرِ داخلہ نے کہا کہ جلسوں میں تقریر کرنے سے تو اسمبلی نہیں توڑی جا سکتی، جلسوں میں تقریر کر کے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کرنا غیر آئینی بھی ہے، غیر جمہوری بھی، کوشش کریں گے کہ اسمبلی توڑنے کا حصہ نہ بنیں، اسمبلیاں ٹوٹیں تو انہی دو اسمبلیوں میں الیکشن ہوں گے، جبکہ عام انتخابات وقت پر ہی ہوں گے۔

وزیرداخلہ رانا ثناء اللّٰہ کا کہنا ہےکہ بلیلی میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتا ہوں، کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے ذمے داری قبول کرنا الارمنگ اور قابلِ مذمت ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان سے ہر طرح کی سہولت میسر ہے، یہ افغان حکومت کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے، ٹی ٹی پی کا حملے میں ملوث ہونا خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے، یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ آؤٹ آف کنٹرول طاقت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے، تشویش ناک بات ہے کہ کہیں ٹی ٹی پی دوبارہ سر نہ اٹھا لے، صوبوں کی سطح پر اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے اور وفاقی محکمے صوبائی اداروں کی تمام تر معاونت کریں گے، عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم دہشت گردی پر قابو پالیں گے۔

وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ خیبر پختون خوا کے وزیرِ اعلیٰ نے وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت ہونے والی اہم سیکیورٹی میٹنگ میں شرکت نہیں کی، انہیں آنا چاہیے تھا، ریاست ہے تو ہم سب کی سیاست ہے، صوبائی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، وزیرِ اعلی کے پی کی ذمے داری ہے کہ وفاق سے مدد لیں اور معاملات کا سدِ باب کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کے معاملات ہاتھ میں لینے سے قبل صوبائی حکومت کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، بلوچستان اور کے پی میں صوبائی انتظامیہ اورقانون نافذ کرنے والے ادارے معاملے کو سنجیدگی سے لیں، وفاقی حکومت کے تعاون میں دیر نہیں ہو گی، پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر کردار ادا کرنا چاہیے۔

قومی خبریں سے مزید