• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کوئلے کی کانیں موت کی وادیاں بن چکی ہیں جہاں حفاظتی تدابیر اختیار کئے بغیر روایتی طریقوں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں مزدوروں کی ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں۔ اس کی تازہ مثال خیبرپختونخوا کے ضلع اورکزئی میں کوئلے کی کان میں دھماکے سے 9 افراد کے لقمہ اجل بننے کا افسوسناک واقعہ ہے۔ پاکستان مائن لیبر فیڈریشن کے مطابق 2021ء میں کوئلے کی کانوں میں دھماکوں سے 237کان کن جاں بحق ہوئے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کوئلے کی اندھی کانوں میں ہلاکتوں جیسے سنجیدہ اور دیرینہ مسئلہ پر کسی کی توجہ نہیں۔ پاکستان میں کوئلے کی کان کنی سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے جو تقریباً 1700فٹ سے زیادہ گہرائی سے کوئلہ نکالتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کوئلے کی کانوں میں 800سے 1000فٹ کے بعد زہریلی گیس والا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں مزید کھدائی کیلئے کانوں کی چھتوں کو ایک خاص تکنیک سے بنایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں اس طرح کی کوئی تکنیک زیر استعمال نہیں ۔مزدور کسی حفاظتی اقدامات کے بغیر ہی کام کرتے ہیں ۔کانوں میںزیادہ تر حادثات گیس دھماکوں سے ہوتے ہیں ۔ ضلع اورکزئی کے علاقے ڈولئی میں ہونے والے افسوسناک واقعہ کی وجہ بھی گیس دھماکہ ہے ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ دھماکہ 2500فٹ کی گہرائی میں ہوا جس سے کان بیٹھ گئی اور اس میں کام کرنے والے مزدور ملبے تلے دب گئے۔ حادثات سے بچنے کیلئے کان میں کام شروع کرنے سے پہلے زہریلی گیس کو چیک کرنا ، آکسیجن کی موجودگی کو یقینی بنانا ،کان کے اندر متبادل راستوں کا بندوبست، سیفٹی لوازمات کی پابندی ضروری ہوتی ہے جس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ٹھیکیداری سسٹم بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹھیکیدار انسانی جانوں کو بچانے کیلئے حفاظتی انتظامات کے بجائے زیادہ تر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ کوئلہ کیسے نکالیں؟

تازہ ترین