اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل دیے۔
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مذکورہ اپیلوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہماری 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں ضمانت کی درخواست پر سماعت نہیں ہوسکی جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ پرسوں سماعت کےلیے مقرر کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے ریگولر بینچ کی کازلسٹ منسوخ کی گئی۔ میں اس کیس کےلیے یہاں بیٹھا ہوں ورنہ بہتر محسوس نہیں کر رہا ہوں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے اپیلوں پر دلائل کا آغاز کیا تو پی ٹی آئی وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ کیس بہت طویل ہوگیا ہے، پراسیکیوٹر صاحب اب دلائل مکمل کرلیں اس پر پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ میرا ارادہ قطعی طور پر دلائل کو طوالت دینا نہیں ہے، سلمان صفدر نے رمضان کے مہینے میں بہت لمبے دلائل دیے، میں نے اُن کے دلائل کا جواب تو دینا ہے، میرا تاخیر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ سائفر ٹیلی گرام کو 6 مہینے کے بعد ضائع کردیا جاتا ہے۔ سائفر کی ہر کاپی پر کلاسیفائیڈ ہونے کی مہر لگی ہوتی ہے۔
اس کے بعد ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سائفر گائیڈ لائن کتابچہ عدالت کے سامنے پڑھا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ سائفر دستاویز اگر ڈی کلاسیفائی بھی ہوجائے تو اس پر وہی طریقہ کار استعمال ہوگا، ڈی کلاسیفائی ہونے کے باوجود بھی دستاویز کو اسی طرح ضائع کیا جائے گا۔ 31 مارچ کی قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ میں ڈی مارش کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈی مارش کا ایکشن لینے کے فیصلے کے بعد موجودہ سائفر کا عمل مکمل ہوگیا، اس کے بعد اس سائفر کو دفتر خارجہ واپس بھیجنے کے علاوہ کوئی عمل باقی نہیں رہا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سائفر کاپیز دفتر خارجہ کو واپس بھجوا دی گئیں، دفتر خارجہ نے واپس آنے والی تمام کاپیز کو تلف کردیا۔
اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ عدالت نے سوال کیا تھا کہ کیا ملزم کا دفاع وکیل کی عدم موجودگی میں ہوسکتا ہے؟وکیل کی عدم موجودگی میں ملزم کے بیان کی اہمیت کم تو نہیں ہوجائے گی؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر 342 کے دفاع کے بیان میں وکیل کی موجودگی کی کوئی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سائفر دستاویز دانستہ اور لاپرواہی سے گم کرنے کے دونوں الزامات پر سزا سنائی گئی، کیا یہ دونوں الزامات بیک وقت ہوسکتے ہیں؟ اس ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ مختلف اوقات کے اقدامات پر دونوں الزامات بیک وقت لگیں گے۔ سائفر سیکیورٹی کا مقصد یہی ہے کہ سائفر کو کسی غیر متعلقہ شخص کے پاس جانے سے روکا جائے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ چند حالات کے علاوہ سائفر کو کمرے سے کہیں باہر نہیں لے جایا جاسکتا، سائفر کو کنٹینر میں رکھ کر غیر معمولی سیکیورٹی انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا اعظم خان نے سائفر دستاویز موصول کرنے پر ریسیونگ دی تھی؟ جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم خان نے خود نہیں بلکہ اسٹاف نے سائفر دستاویز موصول کی۔ اعظم خان نے بیان دیا کہ انہیں سائفر کاپی دی گئی اور وہ انہوں نے وزیراعظم کو دے دی۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس ڈاکومنٹ کو سابق وزیراعظم نے اپنے پاس رکھا جو وہ نہیں رکھ سکتے تھے، سابق وزیراعظم نے سائفر کی کاپی اپنے پاس رکھی اور وہ اس کی قانون کے مطابق حفاظت نہیں کرسکے۔