• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کر کے پی ڈی ایم حکومت پر دبائو ڈالتے ہوئے قومی اور دیگر صوبائی اسمبلیاں توڑنے کے نظریے پر گامزن پاکستان تحریک انصاف اپنے مقصد میں پرامید دکھائی دیتی اور رواں ماہ میں اسے نتیجہ خیز بنانا چاہتی ہے۔اس کے برعکس وفاقی حکومت 2023ء کے اواخر میں مقررہ مدت کے مطابق عام انتخابات کرانے کے فیصلے پر قائم ہے۔ مولانا فضل الرحمن یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک سال آگے بھی جا سکتے ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا کہنا ہے کہ عمران خان پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل بھی کر دیں تو اسلام آباد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ملک کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا موقف ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے اسمبلیاں توڑیں تو ہم وہاں الیکشن لڑیں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو عدم اعتماد لائیں گے۔ ان کا نظریہ ہے کہ قبل از وقت انتخابات ملک یا جمہوریت کیلئے سازگار نہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اس وقت ہم اسمبلیاں توڑنے کے عمل کے حصہ دار نہیں بننا چاہتے لیکن جب عمران خان ایسا کریں گے تو وہاں الیکشن کرا دیے جائیں گے۔ متذکرہ حقائق و قیاس آرائیوں کی روشنی میں صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سیاسی غیر یقینی برقرار ہے اور بڑے بڑے اعلانات و دعوئوں کے باوجود نہ عمران خان نے پنجاب اور کے پی اسمبلی توڑنے کا حتمی پلان یا تاریخ دی ہے اور نہ ہی اپوزیشن ان اسمبلیوں کی تحلیل کو روکنے کا کوئی عملی منصوبہ سامنے لا سکی ہے گویا ملکی سیاست دونوں طرف سے کئے جانے والے اعلانات اور دعوئوں پر چل رہی ہے۔ خود تحریک انصاف کے اندر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل میں جلد بازی نہیں دکھانی چاہئے بلکہ مناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔ دوسری طرف مخدوم شاہ محمود قریشی کی زیر صدارت ایک اجلاس میں 20دسمبر تک پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سفارش سامنے آئی ہے ۔ ن لیگ کے رہنما خواجہ محمد آصف کے مطابق پنجاب کے کچھ اراکین ان کے ساتھ اس نظریہ کے تحت رابطے میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ اسمبلی مقررہ مدت تک کام کرے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان سے ملاقات میں یہ دعویٰ تو کر دیا ہے کہ وہ دی گئی ہدایات کی روشنی میں بلاتاخیر پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے لیکن ذاتی طور پر اس حق میں نہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن جیتنے پر انھیں دوبارہ وزیر اعلیٰ نہیں بنائے گی۔ مجموعی صورتحال بتاتی ہے کہ آئین و قانون اور پارلیمان جیسے مقتدر اورادارے ہوتے ہوئے بھی وطن عزیزاپنی بے بسی کی ایک تصویر بنا ہوا ہے جو گزشتہ چار برس سے سیاسی ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔ ادھر تاریخی مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ سیلاب کے متاثرین امداد اور بحالی کے منتظر ہیں۔ فصلوں کی کاشت کے حوالے سے کسان غیر یقینی صورتحال سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گرد پھر سے منظم ہو رہے ہیں۔ معاشی صورتحال کو دیکھا جائے تو زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جن میں جون کے اواخر سے اب تک 2.2ارب ڈالر کی مزیدکمی آ چکی ہے۔ ترسیلات زر میں غیر معمولی کمی اور دوسری طرف فارن کرنسی اکائونٹس کی سطح تیزی سے گراوٹ کی طرف مائل ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات التوا کا شکار اور اس کی نئی شرائط پہلے سے بھی زیادہ کڑی ہیں۔ ضروری ہے کہ سیاستدان جمہوری اقدار کی پاسداری کریں جس کیلئے مقتدر ایوان موجود ہیں وہاں اتفاق سے مل بیٹھیں اور اپنے معاملات گفت و شنید اور افہام و تفہیم اور ملک و قوم کے بہترین مفاد میں طے کریں۔ عام انتخابات ہوں یا ضمنی، انہیں نت نئےتجربات کی بھینٹ چڑھانے کی بجائےملک میں صحتمندجمہوری روایات کی داغ بیل ڈالی جائے۔

تازہ ترین