• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن دنیابھر کے تجزیہ کاروں، صحافیوں اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکزبنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے سخت فیصلوں سے جغرافیائی سیاست کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ بہت سے لوگ انہیں مطلق العنان اور آمر کہتے ہیں لیکن ا نہوں نے اپنا نام بنایا ہے، انہوں نے دوسری قوموں خصوصاً مغربی ممالک کو اپنی قوم کا تمسخر اڑانے کی اجازت نہیں دی۔ انہیں آئرن مین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اگرچہ سوویت یونین شکست کا شکار ہوا لیکن روس اب بھی خطے میں طاقت کا اہم مرکز ہے۔ نومبر 2022 میں وزیر اعظم شہباز شریف نے روس کو ’’سپر پاور‘‘ اور پیوٹن کو’’اپنا آدمی‘‘کہا۔

یوکرین پر حملہ فروری 2022میں کیا گیا تھا۔ اب تک اس تنازعے میں 13000کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس بحران کے نتیجے میں 7.6 ملین افراد پناہ گزین بننے پر مجبورہوئے ہیں۔ یوکرین تقریباً 400 ملین لوگوں کو اناج فراہم کرتا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں اناج کی سپلائی متاثر ہوئی ہے،جو شدید عالمی غذائی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ جنگ اتنی جلدی ختم ہوتی نظر نہیں آتی، البتہ پوری دنیا کو کساد بازاری میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے،اسکے نتیجے میں یورپ نے اپنی پوزیشن بدل لی ہے۔ پولینڈ کو روس کے حملے کا زیادہ خطرہ ہے۔ پولینڈ کے شہروں میں متعدد میزائل پہلے ہی گر چکے ہیں۔ یوکرین جنگ نے یورپ کو ایک دوسرے کااتحادی بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ یورپ امریکی تحفظ کی چھتری تلے زندگی گزار رہاہے۔ امریکہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ روس سےبراہ راست متصادم ہو سکے کیونکہ پیوٹن کی جانب سے جوہری جنگ کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ روایتی جنگ لڑنے اور روسی حملے کے خلاف ریڈ لائن کے طور پر یوکرین کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نیٹو اتحاد ٹوٹ رہا ہے۔ یوکرائنی فوجیوں کو شروع سے ہی بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ صرف اپنی قربانیوں اور امریکی حمایت کی بدولت ہی بہت سے علاقوں سے روسی افواج کی مزاحمت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ روسی معیشت پابندیوں کی زد میں ہے۔ روسی کمپنیوں کے بین الاقوامی اثاثے ضبط کر لئے گئے ہیں، روسی معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ لیکن پیوٹن اب بھی تُرپ کا کوئی ایسا پتہ کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اس صورتحال کو یکسر بدل کے رکھ دے۔

وہ شروع سے ہی جانتے تھے کہ یورپ روس سے گیس اور ایندھن کی فراہمی پر انحصار کرتا ہے۔ اب وہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ موسمِ سرما کے آتے ہی ایندھن کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، یورپی معیشتیں سست روی کا شکار ہوں گی یہاں تک کہ کئی ممالک گیس کی قلت کی وجہ سے بجلی کےبحران کا سامنا کریں گے۔ اس کا دہرا اثر ہو رہا ہے۔یورپ اپنے تمام وسائل گرین ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لانے میں استعمال کر رہا ہے۔ روس کے پاس گیس ضرورت سے زیادہ موجود ہے، وہ نئی منڈیوں بھارت، چین اور پاکستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ طلب اور رسد میں اس تبدیلی کو روس ’’مغرب بمقابلہ باقی‘‘ کی معاشی جنگ قرار دے رہا ہے۔ پہلے ہی کئی وسط ایشیائی ریاستیں اپنی گیس پائپ لائنز کو دیگر ممالک تک پھیلا رہی ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں دوطرفہ تعاون کو بڑھایا جا رہا ہے۔ ہندوستان اور چین نے کھلے عام روس سے گیس اور ایندھن کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس سے روسی معیشت چلتی رہے گی۔ ایسا لگتا ہےکہ یہ ممالک صرف امریکہ پر بھروسہ نہیں کرنا چاہ رہے۔

چین اس تنازعے کا کلیدی کردار ہے۔ بیجنگ نے انتہائی محتاط انداز اپناتے ہوئے ان تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کافیصلہ کیا لیکن وہ اپنی اقتصادی ترقی اور روابط کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ روس اب بھی رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو مشرقی یورپ کے ساتھ ساتھ ایشیا کا بھی حصہ ہے۔ اس کی مارکیٹ میں تنوع، اسے مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا مقابلہ کرنے میں مدد گار ہے۔ بھارت امریکہ کا خاص طور پر چین کے خلاف عالمی شراکت دار ہے، لیکن امریکہ نریندر مودی کو روس سے اہم درآمدات سے باز رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ بھارت روس کے جنگی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔

یوکرین جنگ ایک سنگین معاملہ ہے جس سے پوری دنیا کسی نہ کسی حوالے سے متاثر ہو رہی ہے۔ جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کساد بازاری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یورپی بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔ افریقہ، مشرقِ وسطیٰ، یمن اور فلسطین سے اقوامِ عالم کی توجہ ہٹ کر محض یورپ اور اس تنازعے پر مرکوز ہو چکی ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ایندھن مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ کمیاب بھی ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیٹو کے اقدامات نے روس اورمغربی ممالک کو اس جنگ میں دھکیلا ہے۔ پیوٹن کاروباری ترقی اور معیشت کے فروغ کے خواہاں ہیں وہ اپنی قوم کو مغربی اقوام اور افواج کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ مغربی ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ سے روسی افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا رہا۔ روس نے یوکرائن کی اہم تنصیبات پربمباری کرکے بھرپور جواب دیا۔ پیوٹن نے دھمکی دی کہ اگر کوئی غیر ملکی فوج یوکرین اور روس کے درمیان فریق بنی تو مجبوراً جوہری ردعمل خارج ازامکان نہ ہو گا۔ اس انتباہ کو محض دھمکی کے طور پر نہیں لیا گیا۔اس جنگ کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتابلکہ یہ نئے اتحادکی تشکیل کا باعث بننے کے بعد ایٹمی جنگ یا عالمی جنگِ عظیم میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ پیوٹن 2012 سے روسی مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے لیکن یہ جنگ ان کی سب سے بڑی غلطی یا اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ثابت ہو سکتی ہے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین