• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استاد جی بھولا بول رہا ہوں۔ ایک مانوس آواز فون پر برسوں بعد سنائی دی ،آپکی امریکہ آمد کے متعلق اخبار میں پڑھا تو بڑی مشکل سے آپ کا نمبر ڈھونڈکر آپ کو کال کررہا ہوں۔ میں مڈ ویسٹ میں کاروبار کر رہا ہوں اللہ کا شکر ہے بہت اچھا کام چل رہا ہے آپ اس مرتبہ ضرور میرے گھر آئیں، اگر چاہیں تو میں ٹکت بھیج دیتا ہوں۔ وہ بڑی محبت اور لجاجت سے مجھے اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہا تھا۔ بھولے کی فون کال مجھے ماضی میں لے گئی جب میں بغرض تعلیم نیویارک میں مقیم تھا۔ ایک ویک اینڈ پر کہیں جانے کیلئے مقامی ریڈیو ٹیکسی کال کی تو چند منٹوں میں ٹیکسی کیب دروازے پر موجود تھی، اور ڈرائیونگ سیٹ پر گندمی رنگت کا ایک دیسی نوجوان بیٹھا تھا۔ تعارف ہوا تو موصوف لاہور میں ہمارے قریبی علاقے کے رہائشی نکلے اور پھر دوران سفر وہ نوجوان اپنی روداد سنانے لگا، کن مشکلات سے وہ نیویارک پہنچا اور پھر کس طرح لائسینس بنوا کر لوکل ٹیکسی چلانے لگا۔ اس وقت ورک پرمٹ اور گرین کارڈ کا حصول بھولے اور اس جیسے غیر قانونی تارکین وطن کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ بھولے کی صاف گوئی، شرافت اور سادگی نے بہت جلد ہمیں گرویدہ بنا لیا اور ہم دوستوں نے اسے اپنے فلیٹ میں ایک کمرہ دے دیا۔

بھولا زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ہمارے ساتھ رہ کر بہت جلد وہ مقامی رسم و رواج اور انگریزی زبان سیکھ گیا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وطن روانگی کیلئے وہ مجھے ایئر پورٹ چھوڑنے جاتا اور اپنی قومی ایئر لائن پی آئی اے کے جہاز کو دیکھ کر اسے اپنا وطن اور اپنے گھر والے یاد آنا شروع ہو جاتے، اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں اور وہ اداس ہوجاتا، مجبوری تھی وہ گرین کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان نہیں جا سکتا تھا۔ ایک دن اس کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ شدید زخمی ہوگیا مگر مفت بہترین علاج معالجے سے چند ہفتوں میں وہ چلنے کے قابل ہوگیا۔ اس واقعے میں اس کا لائسینس معطل ہو گیا اب وہ ٹیکسی نہیں چلا سکتا تھا ، بڑی مشکلوں سے اسے نیویارک سٹی کے خطرناک علاقے میں پیٹرول پمپ پر رات کی شفٹ میں نوکری ملی مگر چونکہ اس کے والدین اور بہن بھائیوں کا انحصار اس کے بھیجے ہوئے ڈالروں پر تھا ،اس لئے بھولے نے جان جوکھوں میں ڈال کر وہ نوکری کر لی، شدید سردی میں پیٹرول پمپ پر کام کرتے ہوئے اس کے ہاتھ برف ہوجاتے مگر یہ سب کام کرنا اسکی مجبوری تھی۔ کچھ عرصہ بعد امریکی حکومت نے غیر ملکی تارکین وطن کیلئے ایمنسٹی کا اعلان کیا اور بھولے سمیت ہزاروں الیگل پاکستانیوں کو بھی گرین کارڈ مل گئے جسکے بعد انکو ملازمتوں اور سفری دستاویزات میں سہولت مل گئی۔

کئی برسوںسے امریکہ میں رکے لوگ اپنے پیاروں سے ملنے وطن پہنچ گئے اور اپنے بیوی بچوں کو اسپانسرشپ کے تحت امریکہ لے آئے جبکہ بھولے سمیت لاتعداد افراد نے انتظار کرتی منگیتروں کے ساتھ شادیاں رچائیں اور مدت مکمل ہونے پر وہ بھی امریکہ پہنچ گئیں۔ پاکستان واپسی کے چند سال بعد تک میرا بھولے سے رابطہ رہا ۔وہ جب بھی اپنے وطن آتا مجھ سے ملنے آتا، اب وہ آسودہ حال ہوچکا تھا اور نیویارک سے دور ایک ریاست میں اپنے اسٹور اور پیٹرول پمپ چلاتا تھا جبکہ اس کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ والدین کی وفات کے بعد کاروباری اور بچوں کی مصروفیات اور امریکی سسٹم نے بظاہر اسے پاکستان سے لا تعلق کردیا مگر وطن کی مٹی سے محبت اسکے دل سے کبھی نہ نکل سکی۔

بھولا فون پر مسلسل بول رہا تھا استاد جی آپ نے مشکل وقت میں میری مدد اور راہنمائی کی، آج میں اپنے ٹاؤن کا کامیاب بزنس مین ہوں اور اپنی آمدنی کا ایک حصہ نہ صرف مقامی چیرٹی بلکہ پاکستان میں مستحق لوگوں پر بھی صرف کرتا ہوں وہ مزیدبتا رہا تھا کہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس نے اپنے بچو ں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی آج وہ بہترین شعبوں میں اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور حلال حرام کی تمیز رکھتے ہوئے رواداری و برداشت رکھنے والے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ ایک بھولے کی کہانی نہیں ہے، بےشمار بھولے اچھے مستقبل کیلئے انجانے دیسوں اور اجنبی لوگوں میں اپنوں سے ہزاروں میل دور پہنچے ، ان میں سے کچھ راستے میں کھو گئے اور کچھ اپنی منزل پر پہنچ کر گم ہوگئے مگر غالب اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے مشکل اور سخت حالات کا پامردی سے مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی اس کامیابی کیلئے بعض کو اپنے بیوی بچوں سے برسوں دور رہنا پڑا اور بالوں میں سفیدی لئے وہ لوگ اپنی وفا شعار بیویوں اور بچوں کے پاس پہنچے تو بچے اپنے باپوں کی آواز تو پہچانتے تھے مگر چہروں سے نامانوس تھے۔

پاکستان سے ہجرت کرکے امریکہ اور دوسرے ممالک آنے والوں کی اکثریت نے اپنے وطن میں محنت مزدوری یا سخت کام کبھی نہیں کئے تھے مگر بیرون ملک آکر انھیں اندازہ ہوا کہ کام کرکے ہی وہ اس مسابقتی معاشرے میں سروائیو کر سکتے ہیں ، اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ وطن عزیز کے دگرگوں معاشی حالات اور دوسرے عوامل کی وجہ سے ملکی ترقی کے پہیے کی رفتار بہت کم ہو گئی ہے اس صورتحال میں بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم ہماری لائف لائن ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی ترجیحات میں دنیا بھر کے ممالک سے اچھے تعلقات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی قربانیوں اور خدمات کا اعتراف ضرور ہونا چاہئے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین