بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی
زینب شبّیرنے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 2018ء سے کیا۔ انھیں انڈسٹری سے وابستہ ہوئے، ابھی صرف چار برس کا مختصر عرصہ ہوا ہے، لیکن اپنی بے مثال اداکاری اور دِل کش لب و لہجے کی بدولت معروف اداکارائوں میں شمار ہونے لگی ہیں۔ زینب کا پہلا ڈراما’’ماں صدقے‘‘ تھا، لیکن انہیں اصل شہرت شہرت ڈراما ’’سانوری‘‘ سے ملی۔ ان کے معروف ڈراموں میں’’پیا نام کا دیا‘‘،’’ملالِ یار‘‘، ’’حقیقت‘‘، ’’مہر پوش‘‘، ’’ میرے اپنے‘‘، ’’ یار نہ بچھڑے‘‘،’’ مکافات (سیزن ٹو)‘‘،’’دکھاوا‘‘، ’’تیری راہ میں‘‘ اور’’ مشکل‘‘ سمیت کئی ڈرامے شامل ہیں۔ گزشتہ دِنوں ہم نے اپنے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے زینب شبّیر سے کچھ ہلکی پھلکی سی بات چیت کی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
س: اپنے خاندان، والدین کے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: میرا تعلق ایک Female Oriented House یعنی ’’ خواتین پر مشتمل گھرانے‘‘سے ہے۔اپنے والد سے متعلق کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ۔ہم بس چار بہنیں ہیں اور ہماری کُل کائنات ہماری امّی عالیہ ہیں،جنہوں نے ہمیں پال پوس کر زندگی گزارنے کے قابل کیا۔ نانی جان نے ہمیں بہت سپورٹ کیا تھا، تو مَیں اکثر لاڈ میں اُن سے کہتی تھی،’’آپ میری نانی نہیں، میرا باپ ہیں‘‘۔ مگر اب وہ اس دُنیا میں نہیں رہیں۔
س: کس شہر میں پیدا ہوئیں، کہاں سے تعلیمی مدارج طے کیے اور کہاں تک؟
ج: مَیں روشنیوں کے شہر، کراچی میں پیدا ہوئی اور یہیں ہی سے ابتدائی تعلیم سے لےکر گریجویشن تک کے تمام تعلیمی مراحل طے کیے۔
س: فیملی میں کون کون شامل ہے، کتنے بہن بھائی ہیں، آپ کا نمبر کون سا ہے، آپس میں کیسی دوستی ہے؟
ج: میری بڑی بہن کی شادی ہوچُکی ہے۔ ان کے دو بچّے ہیں۔ دوسری بہن ملازمت کررہی ہے۔ میرا نمبر تیسرا ہے اور چوتھی بہن ابھی زیرِ تعلیم ہے۔ہم چاروں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی ہیں ۔امّی سمیت ہم سب کی آپس میں بہت گہری دوستی ہے۔ مَیں تو ہر بات چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو،امّی ہی سے شیئر کرتی ہوں۔
س: آپ کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ آپ Broken Family سے ہیں، تویہ خود اعتمادی وراثت میں ملی یا پھر زمانے کے نشیب و فراز نے اعتماد دیا؟
ج: دیکھیں، اگر بچّے کو والدین میں سے کسی ایک فریق کی بھی بَھرپور محبّت و توجّہ مل جائے تو وہ زندگی میں ناکام نہیں رہتا۔ ہم چارو ںبہنوں کی کام یاب زندگی کا بھی یہی راز ہے کہ ہماری والدہ اور نانی نے ہمیں بَھرپور محبّت و توجّہ دی، زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ہر طرح سپورٹ کیا۔
س: اپنے بچپن سے متعلق بھی کچھ باتیں، یادیں شیئر کریں؟
ج: میرا بچپن ٹام بوائے کی طرح گزرا۔مَیں نصابی ہی نہیں، غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی نمایاں رہی۔ نعت خوانی کرتی تھی،گلی میں بڑے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ، بیڈ منٹن اور فٹ بال کھیلی، تو سائیکلنگ بھی کی۔ مَیں اکثر امّی کو بتائے بغیر سائیکل کاپنکچر لگوانے چلی جاتی اور اپنی سہیلیوں سے کہتی کہ اگر امّی پوچھیں تو کہہ دینا کہ’’ زینب ہمارے پاس تھی اور ابھی یہیں سے گئی ہے۔‘‘ ایک بار پنکچر لگواکر گھر آرہی تھی، تو امّی اور نانی دونوں ہی دروازے پر میر انتظار کررہی تھیں اور اُس وقت اُن کے چہروں پر جو تاثرات تھے، آج یاد کرکے ہنسی آجاتی ہے۔ ویسے بچپن کی طرح آج بھی شرارتی ہوں، مگر اب شرارتوں کا انداز بدل گیا ہے۔
س: آپ نے بی کام کیا، اُس کے بعد یہ اداکاری کا شوق کیسے ہوگیا؟
ج: مجھے بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ اکثر شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اداکاری یا ڈانس کی پریکٹس کرتی تھی، لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میرا یہ شوق میرا کیرئیر بن جائے گا۔ دراصل مَیں اکثر سوشل میڈیا پر آڈیشنز کے لیے سرچنگ کرتی رہتی تھی، تو ایک روز مجھے ایک نجی چینل سےآڈیشن کی کال آگئی۔
متعلقہ جگہ گھر سے بہت دُور تھی اور اس وقت پاکٹ منی بھی اتنی نہیں تھی کہ وہاں تک جاسکتی، مگر مَیں وہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی، لہٰذا اپنے بچپن کے دوست کو مسئلہ بتاکر جتنے پیسے تھے، اُس کے حوالے کیے، تو وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔
یوں بغیر کسی سفارش کے آڈیشن دیا اور الحمد للہ کام یاب رہی۔ میرا پہلا ڈراما 2018ء میں ’’ماں صدقے‘‘ آن آئیر ہوا، جس میں مَیں نے منفی کردار ادا کیا۔ اس کے فوراً بعد ہی مجھے ڈراما ’’سانوری‘‘ میں مرکزی کردار مل گیا، جو میرے کیرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔
س: پہلی بارجب خود کو اسکرین پر دیکھا، تو کیا احساسات تھے؟
ج: اصل میں مَیں نے سب سے پہلے ایک کمرشل میں کام کیا تھا، تو جب وہ آن ائیر ہوا،توکچھ دیر تو گُم صم اسکرین تکتی رہی کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا ۔بہرحال، امّی، بہنوں، عزیز و اقارب غرض کہ سب ہی نے خُوب سراہا اور مبارک بادد ی۔
س: مختصر سے عرصے میں انڈسٹری میں اپنی پہچان بنائی، قدم جمانے کے لیے کیا کیا مشکلات برداشت کیں؟
ج: ابتدا میں سب کو لگتا تھا کہ مَیں کسی سفارش پر آئی ہوں، حالاں کہ میرے خاندان میں تو کوئی بھی شوبز انڈسٹری سے وابستہ نہیں۔ بہرحال، پھر کچھ عرصے بعد سب ہی کو اندازہ ہوگیا کہ میری کوئی پرچی نہیں۔ ہاں،جو تھوڑی بہت مشکلات پیش آئیں تو آسانی سے حل ہوگئیں کہ میرے ساتھ ہمہ وقت امّی کی ڈھیروں دُعائیں جو رہتی ہیں۔
س: جیو سے نشر ہونے والے ڈراما سیریل’’ مشکل ‘‘ میں منفی کردار ادا کیا ،تو فیڈ بیک کیسا رہا؟
ج: بہت ہی اچھا رہا۔ مَیں کافی عرصے سے پازیٹیو کردار ادا کررہی تھی اور ایک جیسے کردار ادا کرکے اُکتا سی گئی تھی، مجھے خود کسی نیگیٹو کردار کی تلاش تھی اور پھر مرینہ خان کی ڈائریکشن میں ڈراما’’مشکل‘‘ میں حریم کا منفی کردار نبھانے کا موقع مل گیا۔ سچ کہوں تو مجھے مرینہ خان کی ڈائریکشن میں کام کرکے بہت مزہ آیا اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا۔
س: کسی ڈرامے کی آفر قبول کرتے ہوئے کیا دیکھتی ہیں، اسکرپٹ،کاسٹ یا پھر ہدایت کار؟
ج: سب سے پہلے ہدایت کار اور پھرکردار دیکھتی ہوں،کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہدایت کار اچھا ہو، تو کم زور اسکرپٹ کے باوجود ڈراما ناظرین کی توجّہ حاصل کرلیتا ہے۔
س: اگر اداکارہ نہ ہوتیں تو…؟
ج: تو پھر ’’اینیمل شیلٹر ہوم‘‘ بناتی اور جانوروں کا خیال رکھ رہی ہوتی۔
س: اب تک جو ڈرامے کیے،اُن میں اپنا کون سا کردار، روپ سب سے اچھا لگا؟
ج: اب تک جو ڈرامے کیے، اُن میں مجھے’’یار نہ بچھڑے‘‘میں پلوشہ اور ’’مشکل‘‘ میں حریم کے کردار اچھے لگے ۔
س: ان دِنوں کیا مصروفیات ہیں، کس نئے پراجیکٹ پر کام کررہی ہیں؟
ج: مَیں ان دنوں جیو کے ایک پراجیکٹ پر کام کررہی ہوں۔ یہ ڈراما جلد ہی آن ائیر ہوگا۔ اس میں میرے ساتھ ہارون شاہد اور حماد فاروقی کام کررہے ہیں۔اس سے زیادہ تفصیل شیئر نہیں کرسکتی۔
س: مستقبل میں کس طرح کے کردار ادا کرنا چاہتی ہیں؟
ج: اب تک جتنے کردار نبھا چُکی ہوں، اُن سے ہٹ کےکوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہوں۔
س: کن کن اداکاروں ، ہدایت کاروں کے ساتھ کام کی خواہش ہے؟
ج: صبا قمر، بلال عباس، نعمان اعجاز کے ساتھ کام کی خواہش ہے اور ثانیہ سعید کے ساتھ دوبارہ کام کرنا چاہتی ہوں۔ رہی بات ہدایت کاروں کی، تو کاشف نثار، سیفِ حسن، احتشام الدّین اورمہرین جبّار سرِ فہرست ہیں۔
س: موسیقی کا شوق ہے، کیا کبھی خود گنگناتی ہیں، اگر ہاں، تو کیا؟
ج: مجھے موسیقی سُننے کابہت شوق ہے اور ایک بار تو باقاعدہ گانے کی کوشش بھی کی، مگر اپنی آواز کچھ خاص پسند نہیں آئی۔
س: ستارہ کون سا ہے، سال گِرہ مناتی ہیں؟
ج: میری تاریخِ پیدایش 26 جون اور برج سرطان ہے۔ سال گرہ بھی مناتی ہوں، لیکن بہت دھوم دھام سے نہیں۔
س: خود کو آئینے میں دیکھ کر کیا خیال آتا ہے؟
ج: آئینہ دیکھ کر شکل و صُورت پر تودھیان نہیں جاتا، البتہ یہ ضرور سوچتی ہوں ہے کہ مجھے اپنی صلاحیتوں میں مزید بہتری لانی ہے۔
س: سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو ہیں، تو اس کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں؟
ج: سوشل میڈیا پر پہلے اپنی ذاتی باتیں، تصاویر وغیرہ شیئر کرتی رہتی تھی، مگر اب محتاط ہوگئی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب Criticismبڑھ گیا ہے،لہٰذا صرف کام سے متعلقہ چیزیں ہی شیئر کرتی ہوں۔
س: میڈیا انڈسٹری میں کس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے؟
ج: انڈسٹری میں مخلص، وفا دار اور سچے دوستوں کا ملنا مشکل ہے، تو بس یہی کمی محسوس ہوتی ہے۔
س: چُھٹی کا دِن سو کر گزارتی ہیں یا …؟
ج: چھٹی کا دِن سو کر ہی گزارتی ہوں کہ مجھے سونے کا کریز ہے۔
س: ایک ہوٹل میں جب آپ فیملی اور فرینڈز کے ساتھ برتھ ڈے پارٹی منارہی تھیں ،تو وہاں موجود ایک خاتون نے اپنے بیٹے کے لیےآپ کا رشتہ مانگ لیا، تو وہ کیا قصّہ تھا؟
ج: یہ اُن دِنوں کا قصّہ ہے، جب مَیں کالج میں پڑھ رہی تھی۔ مَیں اپنی بہن اور دوست کے ساتھ برتھ ڈے پارٹی انجوائے کررہی تھی کہ اچانک ہی ایک خاتون ہمارے پاس آئیں اور کوئی بات کیے بغیر ہی میرا رشتہ مانگ لیا۔ جس پر دوست نے یہ کہہ کر بات رفع دفع کردی کہ زینب ابھی بہت چھوٹی ہے۔بہرحال، گھر آکر ہم سب ہی خُوب ہنسے۔
س: گزشتہ دِنوں اسامہ خان اورآپ کے متعلق کچھ باتیں گردش میں رہیں، تو حقیقت کیا ہے؟
ج: دراصل مَیں نے اور اسامہ نے ایک شوٹ کی تصویر بغیر کسی ہیش ٹیگ کے شیئر کی ، جس پر یہ مشہور کردیا گیا کہ ہم نے منگنی کرلی ہے۔ حالاں کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ سانوری ڈرامے میں مَیں نے اسامہ، سحر،حمزہ کے ساتھ کام کیا تھا، ہم چاروں اچھے دوست ہیں، البتہ اسامہ انڈسٹری میں میرا سب سے قریبی اور گہرا دوست ہے۔
س: شادی کے کب تک ارادے ہیں؟
ج: فی الحال تو کوئی ارادہ نہیں کہ ابھی مجھے صرف اپنے کیرئیر پر فوکس رکھنا ہے۔
س: شریکِ سفر کیسا ہونا چاہیے؟
ج: جو میرا خیال رکھے، میری اور میری فیملی کی عزّت کرے اور سچ بولے۔
س: زندگی کا کوئی ایسا فیصلہ، جسے دوبارہ کرنے کا اختیار ملے تو وہ یک سر مختلف ہوگا؟
ج: نہیں مَیں کوئی بھی فیصلہ دوبارہ نہیں کرنا چاہوں گی کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔
س: زندگی سے مطمئن ہیں یا قسمت سے کچھ گلے شکوے بھی ہیں؟
ج: زندگی سے پہلے بہت گلے شکوے تھے، مگر اب لگتا ہے ،جو ہوا ،اچھا ہوا اور یہ ایسے ہی ہونا تھا۔
س: آپ کی کوئی انفرادیت؟
ج: مَیں سوچے سمجھے بنا ہر ایک کی مدد کردیتی ہوں۔
س: اپنے پرستاروں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: سب سے پہلےتو مَیں اپنے تمام فینز کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی، جو مجھ سے اس قدر پیار کرتے ہیں اور پھر یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ پیار بانٹیں، کسی سے نفرت نہ کریں۔