شریف خاندان پر گزشتہ پانچ برسوں میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے جو الزامات عائد ہوئے ان کی روشنی میں انہیں عدالتوں اور سزائوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم رفتہ رفتہ صورتحال ان کے حق میں بہتر ہوتی دکھائی دے رہی ہے اوربعض کیسوں میں بریت کے بعد جمعرات کے روز برطانوی عدالت میں زیر سماعت ایک انتہائی اہم معاملے سے متعلق حقائق پر سے پردہ اٹھا ہے۔ تین سال پہلے برطانوی اخبار ڈیلی میل نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف سے متعلق ایک تہلکہ خیز رپورٹ شائع کی تھی جس میں برطانوی اہل ثروت افراد کی طرف سے پاکستان کو زلزلہ زدگان کےلئے دیےگئے فنڈز میں خوردبرد کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس رپورٹ کوبعض سیاسی حلقوں کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف کرپشن کا واضح ثبوت قرار دیا اور اسے اپنے بیانیے کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا مگر تین سال بعد لندن میں شریف خاندان نے اس حوالے سے قانونی جنگ جیت لی ہے اور نتیجتاً اخبار کو شہباز شریف سے اپنی رپورٹ سے متعلق معافی مانگنا پڑی اور اس نےوہ مضمون اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے اور معافی نامہ اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کر دیا ہے جس میں کہا گیاہے کہ ہم نے 14جولائی 2019ء کو شائع کردہ مضمون میں نیب کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کا جوذکر کیاتھا ایسا نہ ہونے اور اس غلطی پر شہباز شریف سے معافی مانگتے ہیں۔اس حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ جھوٹ بے نقاب ہوا، ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز کی زندگی چھوٹی جبکہ سچائی حتمی فتح ہے اور ڈیلی میل کی خبر سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ تین سال تک عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے میری کردار کشی کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ واضح ہو کہ 2019ء میں برطانوی اخبار ڈیلی میل میں شائع کردہ متذکرہ مضمون کو بنیاد بناتے ہوئے شہباز شریف نے اخبار اور اس کے رپورٹر ڈیوڈرولز کو قانونی نوٹس بھیجا اور پھر جنوری 2020ء کو لندن کی عدالت میں اس حوالے سے مقدمہ دائر کیا تھاجس کے بعد فروری 2021ء میں برطانوی عدالت نے کیس کے پہلے رائونڈ میں یہ قرار دیا کہ جو آرٹیکل شائع ہوا، اس میں ہتک آمیز باتیں پائی جاتی ہیں جس کی رو سے ڈیلی میل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مضمون میں عائد کئے گئے الزامات کو ثابت کرے۔ کیس کے اس ابتدائی رائونڈ کو، ن لیگ نے اپنےدفاع کیلئے استعمال کیا جس کے بعد ڈیلی میل نے اپنا موقف اور پھر شہباز شریف کو اپنا مزید دفاعی بیان جمع کرانا تھا مگر بعد میں شہباز شریف کے وکلا نے عدالت سے اس معاملے پر حکم امتناع مانگا تھا لیکن 6نومبر کو شہباز شریف اپنی اس درخواست سے دستبردار ہوگئے جس کے بعد عدالت نے اسے خارج کرتے ہوئے احکامات جاری کئے کہ شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران یوسف کو اپنا تفصیلی جواب 13دسمبر شام ساڑھے چار بجے تک جمع کرانا ہو گا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اخبار کے خلاف ان کا دعویٰ مسترد کر دیا جائے گا۔ صرف یہی نہیں ،عدالت نےحکم امتناع کی درخواست پر ہونے والی سماعتوں سے متعلق شہباز شریف کو اخبار کے قانونی اخراجات کی ادائیگی کا بھی حکم جاری کیا اور ہدایت کی کہ شہباز شریف 23نومبر تک 30ہزار پونڈ ڈیلی میل کو ادا کریں۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عدالت کے ثبوت مانگنے کے حکم پر ڈیلی میل نے اس سے 9مرتبہ مہلت مانگی اور ثبوت ا کٹھے کرنے کیلئے پاکستان کادورہ کیا لیکن جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اور بالآخر اسے معافی مانگنا پڑی۔ ساری صورتحال میں گو کہ متذکرہ اخبار نے معافی مانگ کراخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں بے بنیاد معاملات کو جس طرح اچھالا جاتا ہے، اس کی حوصلہ شکنی کےلئے بھی مناسب پیشرفت ہونی چاہئے۔