• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پطرس کی بائیسکل اور ہماری زندگی... شہر آشوب۔۔۔۔۔وقار خان

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ پون صدی قبل جو خصوصیات پطرس بخاری کی بائیسکل میں پائی جاتی تھیں ، آج ہماری زندگی کی گاڑی میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اردو ادب کے اس عظیم نثر نگار کی ’’شاہی سواری‘‘ کو دیکھ کر بقول مصنف یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ ’’بائیسکل‘‘ ہی ہے بلکہ اس کے لئے خود کو یقین دلانا پڑتا تھا۔ ادھر مملکت خداداد کے باسیوں کو دیکھ کر بھی یہ اعتبار کرنا مخول ہی لگتا ہے کہ جو وہ بسر کر رہے ہیں ، زندگی ہی ہے۔
پطرس بخاری کو بائیسکل ان کے دوست مرزا صاحب نے گفٹ کی اور وطن عزیز ہمیں قائداعظم نے تحفہ دیا۔ مرزا صاحب کی نیت پر شبہ کیا جا سکتا ہے نہ بابائے قوم کے اخلاص اور صلاحیتوں پر۔ البتہ پطرس بخاری بائیسکل کے ساتھ پنجہ آزمائی کے دوران مرزا صاحب سے شاکی رہے اور ہم لوگ محاذِ زیست پر برسرِپیکار بابائے قوم کو یاد کر کے آہ و فغاں کرتے ہیں کہ ’’پاٹی لیرپرانی وانگوں ٹنگ گیئوں وِچ ککراں‘‘ مرزا اور ان کے صاحبزادے نے بائیسکل ہذا پر اتنے ظلم روا رکھے کہ زنگ اور میل کی کثرت کی بنا پر اس کے سوراخوں میں تیل ڈالنا ناممکن تھا۔ ادھر ہمارے ساتھ بھی قومی مسیحائوں نے 66سال تک وہ حسن سلوک کیا کہ آج گاڑیوں میں تیل ڈلوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہ قدر بھی دونوں میں مشترک ہے کہ ایک طرف بخاری صاحب نے نوکر کو ہدایت کی کہ سوراخوں میں تیل نہیں جاتا تو بائیسکل کے اوپر انڈیل دو ،مفید ہوتا ہے ۔ دوسری طرف آئے روز کتنی ہی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتنے لوگوں نے اپنے اوپر تیل ڈال لیا کہ مفید ہوتا ہے اور سارے آلام سے نجات مل جاتی ہے۔ پطرس بخاری اپنی ’’ہونے والی بائیسکل‘‘ کے بارے میں خیالی پلائو پکاتے رہے کہ آفتاب کی روشنی جب چلتے بائیسکل کے چمکیلے حصوں پر پڑے گی تو وہ جگمگا اٹھے گی۔یہاں ہم بھی اسی امید پر جئے جا رہے ہیں کہ جب ہمارے ملک میں بجلی کی کمی پوری ہو گی تو زندگی جگمگا اٹھے گی۔ پطرس کا خیال تھا وہ اپنی بائیسکل پر سوار سڑک پر سے ہاتھی کے دانت کی گیند کی طرح خاموشی سے گزر جائیں گے۔ ادھر ہم بھی چپ چاپ فٹبال بنے ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز مماثلت دیکھئے کہ بخاری صاحب کی سائیکل کو چلتا دیکھ کر لگتا ہے جیسے وطن عزیز کی گاڑی چل رہی ہو کہ ’’میں ملک ہوں کسی اور کا،مجھے چلاتا کوئی اور ہے‘‘…پطرس بخاری لکھتے ہیں’’ آخر بائسیکل پر سوار ہوا۔ پہلا پائوں ہی چلایا تو معلوم ہوا کہ جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخاچٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہو۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی ۔ اس پر بائیسکل خود بخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے کہ جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے‘‘ اسی تارکول کی رفتار سے چلنے والی ہماری زندگی کے بارے میں شاعر نے کہا ہے
کوئی بے فیض سفر پائوں سے لپٹا ہے کہ ہم
چلتے رہتے بھی ہیں اور نقل مکانی بھی نہیں
کچھ خوبیاں بائیسکل مذکور میں ایسی ہیں کہ جن کا اپنے ساتھ تقابل کرنے کی حاجت ہی نہیں، ان میں مماثلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ مثلاً خطرے کی صلیب سے جھولتی اپنی سواری کے بارے میں مرحوم فرماتے ہیں ’’بائیسکل کی آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں، چاں، چوں قسم کی آوازیں گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ ، کھڑ ،کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈ گارڈوں سے آتی تھیں۔ چر، چرخ ۔چر، چرخ قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ جب پیڈل پر زور پڑتا تو زنجیر (چین) میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی، جس سے وہ تن جاتی اور چڑ ،چڑ بولنے لگتی پھر ڈھیلی پڑ جاتی (جیسے ہمارے ہاں ہر نئی حکومت ابتدا میں مسائل کے سامنے تن جاتی ہے پھر ڈھیلی پڑجاتی ہے یا عوام کوئی نیا بحران پیدا ہونے پر پہلے چڑ چڑ بولتے ہیں پھر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں) پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑتا، اسے دیکھ کر لگتا کہ جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر گزر گیا ہو‘‘ (بالکل ایسے ،جیسے ہماری سابق حکومتیں مخمور نشان چھوڑجاتی ہیں )۔
جس تزک و احتشام سے مرحوم اپنی بائیسکل نما چیز چلاتے تھے،اسی کروفر سے ہم خشکی پر کشتیاں چلانے میں ماہر ہیں۔ پطرس بخاری اپنی بائیسکل پر جہاں سے گزرے ،ہماری طرح رسوائیاں بوتے چلے گئے ۔ لکھتے ہیں ’’ اگلے پہیے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا ہوا تھا (جس طرح ہمارے آمر آئین میں پیوند لگاتے ہیں) جس سے ہر چکر میں پہیہ اوپرکو اٹھتا اور میرا سر یوں جھٹکی کھاتا جیسے کوئی متواتر میری ٹھوڑی کے نیچے مکّے مار رہا ہو(جیسے پاکستانی عوام کے سر حکومت کی جانب سے ’’ریلیف در ریلیف‘‘پر متواتر جھٹکیاں کھاتے ہیں)جب اترائی پر بائیسکل تیز ہوئی تو فضا میں ایک بھونچال آگیا۔ (جیسے ہمارے ہاں جمہوریت بحال ہونے پر ہماری بریکیں فیل ہوتی ہیں اور ہم اسے مطعون کرنا شروع کردیتے ہیں )کئی پرزے جو اب تک سو رہے تھے بیدار ہو کر گویا ہوئے۔ ادھر ادھر کے لوگ چونکے۔مائوں نے بچے اپنے سینوں سے لگا لئے۔ بائسیکل کی آواز چونکہ پہلے سے زیادہ تیز تھی لہٰذا چوں چوں پھٹ کی آوازیں اب چچوں پھٹ ،چچوں پھٹ کی صورت اختیار کر گئیں (ہمارے ٹاک شوز کی طرح) اس قدر تیزی بائیسکل کی طبع نازک پر گراں گزری، چنانچہ اس میں یک لخت دو تبدیلیاں واقع ہو گئیں۔ ایک تو ہینڈل ایک طرف کو مڑ گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں جا تو سامنے کو رہا تھا لیکن میرا جسم دائیں طرف مڑا ہوا تھا۔ (ہمارا سفر بھی اسی طرح کٹ رہا ہے) اس کے علاوہ گدی دفعتاً 6انچ نیچے بیٹھ گئی چنانچہ پیڈل چلاتے وقت میرے گھٹنے ٹھوڑی کو چھونے لگے اور کمر دہری ہو کر باہر نکل گئی (جیسے خریداری کرتے وقت مہنگائی سے ہم لوگوں کی کمر دہری ہو جاتی ہے) میں گدی کو اوزاروں سے اونچا کرتا تو ہینڈل نیچے ہو جاتا اور جب ہینڈل کو اونچا کرتا تو آگے چل کر گدی نیچے ہو جاتی ۔ پھر دونوں نیچے ہو گئے (جیسے ہم امریکہ کو راضی کریں تو طالبان ناراض اور طالبان کی طرف جھکائو کریں تو امریکہ خفا ہو جاتا ہے۔اب دونوں دشمن ہو گئے ہیں)ایسے میں ایک لڑکے نے مجھے دیکھ کر کہا ’’دیکھو ! یہ آدمی کیا کر رہا ہے؟‘‘گویا اس بدتمیز کے نزدیک میں کوئی کرتب دکھا رہا تھا‘‘ (جیسے ہمارے سیاسی ومذہبی رہنمائوں کو دیکھ کر دنیا کہتی ہے کہ دیکھو انہوں نے کیسا سرکس لگایا ہوا ہے)۔
مصنف نے ایک مستری کو بائسیکل دکھائی تو اس نے کہا ’’بھئی صدیاں ہی گزر گئیں، اس بائیسکل کی خطا معاف ہونے میں نہیں آتی‘‘… ادھر خدا جانے ہماری خطا کیا ہے، جو معاف ہونے میں نہیں آتی…؟
تازہ ترین