اب ہم کہاں تھے ؟ چند ماہ ہی گزرے ہیں کہ پاکستانی سیاست نے دلچسپ مو ڑ مڑتے ہوئے پینترا بدلا اور اس تباہی کو ٹال دیا جس کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ تحریک انصاف کے اقتدار کی راہداریوں سے نکل کر گلیوں میں بکھر جانے کے بتیس ہفتوں کے بعد مسابقت کے کھیل کا پہلا رائونڈ تمام ہوا۔ اسکورکارڈ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت ٹاپ پر ہے جب کہ حزب اختلاف امکانات کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ اب جب کہ دوسرا رائونڈ شروع ہوا چاہتا ہے، یہ دیکھنا بہتر ہوگا کہ اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں! پی ڈی ایم حکومت تحریک انصاف کے چیلنج سے نمٹنے میں کامیاب رہی ۔اب یہ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے جارہی ہے ۔ اس مرحلے تک کا سفر خاصا ناہموار رہا ہے لیکن اب جب کیلنڈر کا صفحہ پلٹنے کے دن قریب آتے جارہے ہیں، حکومت کو یہ جان کرسکون کا سانس لینا نصیب ہورہا ہے کہ اس کی رگِ جان کو دبوچنے والے عفریت دسمبر کی خنک فضائوں میں تحلیل ہوچکے ہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ کولیشن بھان متی کا کنبہ ہو، لیکن پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی توانا اتفاق رائے کی لڑی پرو نے میں کامیاب رہی۔
دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف ، عمران خان کی سیاسی حکمت عملی مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی ۔ پہلے رائونڈ کے اختتام پر ممکن ہے کہ وہ گزشتہ سات ماہ کے دوران کی گئی فیصلہ سازی کے نتائج کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان سے کہیں ، کیوں اور کس طرح حساب کتاب کی غلطی ہوگئی ۔ ان سے سرزد ہونےوالی کچھ بڑی غلطیاں اس طرح ہیں :
پہلی ، قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا اور حکمران اتحادکےلئے میدان کھلا چھوڑ دینا ۔ عمران خان کے لگائے گئے حساب کے برعکس ، اس اقدام نے حکومت کو تازہ انتخابات کرانے پر مجبور نہیں کیا ۔ دوسری، فرضی امریکی سازش کی دیومالائی کہانی کو تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث قرار دینا اور سیاسی اور عسکری قیادت کو نیچا دکھانے کے لئے تباہ کن جذباتی جنونیت کی نفرت انگیز لہر ابھارنا۔ سات ماہ بعد عمران خان الزامات سے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوچکے ہیں تاہم شرمناک پسپائی اس نقصان کا مداوا نہیں کرسکتی جو اس مہم کے نتیجے میں واقع ہوچکا ۔ تیسری، مئی میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کو اپنی حکمت عملی کی فیصلہ کن یلغار قرار دینا ، اور پھر اس تمام کاوش کو دھوئیں میں تحلیل ہوتے دیکھنا (عملی طور پر بھی )۔ مارچ کا حکومت پر قطعاً کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کی بجائے عمران خان کو سپریم کورٹ میں جانا پڑا۔ چوتھی، سیاسی اسٹیک اور درجہ حرارت بڑھانے کے لئے عوامی جلسوں میں نام لے کر تضحیک آمیز نعرے لگانا تا کہ عسکری قیادت خائف ہوجائے اور گھبراہٹ کے مارے ریفری تازہ انتخابات کا اعلان کردے ۔
تشویش کا باعث یہ ہے کہ معیشت کوسیاسی اکھاڑے سے کس طرح نکالا جائے ؟ دشمن کو جھلسانے کے لئےاپنے گھر کو آگ لگانایقیناً کسی مسئلے کا حل نہیں ۔ کم از کم ریاست کے امور میں یہ منتقم مزاجی کام نہیں دیتی ۔ لیکن ’’بیانیہ سازی‘‘ کا شور ایک بھیانک حقیقت بنتا جارہا ہے ۔ بہتر ہے کہ حقائق کی طرف رجوع کیا جائے ۔ حقائق بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے وزیر خزانہ ، حفیظ شیخ نے 2019 ء میں آئی ایم ایف سے مذاکرات اس وقت کئے جب خاں صاحب پہلے ہی خطرناک حد تک تاخیر کرچکے تھے ۔ مسٹر خان اور ان کی ٹیم نے سخت شرائط پر معاہدہ کیا ۔ معیشت کو لاحق مرض کے علاج قوم کو یہ کڑوی گولی نگلنا تھی ۔ اس لئے تحریک انصاف نے دستخط کئے اور مطلوبہ ڈالروں کی پہلی قسط وصول کرلی ۔ تاہم جب 2020 ء کے آغاز میںکوویڈ 19کی وباپھوٹ پڑی اور تحریک انصاف کی حکومت نے طے شدہ شرائط پر عمل کرنے سے انکار کردیا تو آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہوگیا ۔ آخرکار 2021 ء میں پروگرام پھر جاری ہوگیا اور پاکستان کو اگلی قسط مل گئی ۔لیکن یہاں حالات موڑ کھاتے ہیں۔ صورت حال نے ایک آدمی کو ناخوش کر دیا تھا۔ وہ بڑبڑانے لگا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے ٹھیک طرح سے مذاکرات نہیں کئے اور وہ معیشت کو غلط سمت میں لے جا رہی ہے۔ اس شخص نے اس قدر شکایت کی کہ بالآخر مسٹر خان نے اس شخص کی جگہ اس کو ہی وزیر خزانہ مقرر کر دیا جس نے آئی ایم ایف ڈیل پر بات چیت کی تھی۔جیسے ہی حفیظ شیخ پاکستان سے پرواز کرگئے، شوکت ترین آئی ایم ایف کے بیل کو سینگوں سے پکڑنے کیلئے رنگ میں اترگئے۔ترین نے نرم شرائط کیلئے چمکارنے کی کوشش تو کی لیکن اگست 2021 میں آئی ایم ایف کےساتھ بات چیت بے نتیجہ رہی۔ رنگ میں بیل شیر ہوچکا تھا۔اسی کی مرضی غالب آئی۔ آخر کارترین کو اسی کی شرائط نومبر 2021 میں تسلیم کرنا پڑیں ، تب جاکر فروری 2022 ء میں قسط موصول ہوئی ۔ لیکن یہ سانحہ گہرے ہوتے ہوئے سایوں میں چھپ گیا۔آئی ایم ایف کے ساتھ تین سال کے ہنگامہ خیز تعلقات ،بار بارعہد شکنی کے بعد آخرکار تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے پر آمادہ ہوگئی۔ ترین اور آئی ایم ایف کے درمیان نومبر میں سمجھوتا ہوا۔ اس میں دیگر چیزوں کے علاوہ پٹرولیم لیوی بھی شامل تھی جس کا مقصدمحصولات کوبڑھانا تھا۔ سیانوں نے کہا بھی تھا کہ مارچ سے خبردار رہنا، لیکن ہونی ہوکر رہی ۔ مسٹر خان نے ناقابل تصور قدم اٹھا لیا۔ اقتدار کوخطرہ محسوس ہوتے ہی معیشت کو تباہ کرنے اور ایندھن اور بجلی پر بڑے پیمانے پر سبسڈی دینے کا اعلان کردیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کو روکنے میں ناکامی واضح ہونے لگی تو اُنھوں نے سیاسی اسکور برابر کرنے کیلئے معیشت کی بنیادوں میں بارود بھرنا شروع کردیا۔گزشتہ سات ماہ میں مسٹر خان نے عسکری اصطلاح میں زمین کو جلا کر راکھ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ وہ منزل کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے پر کمر بستہ ہیں چاہے اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے ۔ اور ملک یہ قیمت آلودہ سیاست، خستہ حال معیشت، اخلاق اور کردار کی پامالی ، اداروں کی توہین ، زہرناک انتخابی تصادم اور قطبیت کے شکار معاشرے کی صورت اداکررہا ہے ۔
پھر بھی اس آتش فروزی کا خاکستری نتیجہ کیا نکلا؟ مسٹر خان اپنی مرضی سے انتخابات کروانے میں ناکام رہے۔ نہ وہ الیکشن کمشنرملا جو اُنھیں درکار تھا، اور نہ وہ آرمی چیف جو وہ چاہتے تھے۔ آج وہ زمان پارک میں تمام اختیارات سے محروم،تمام تصورات سے عاری بیٹھے دکھائی دیتے ہیں ۔
(صاحب مضمون وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے پبلک ہیلتھ اور اسڑیٹجک کمیونیکیشن ہیں)