• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبر آئی ہے کہ ڈچ حکومت نے ہالینڈ میں مقیم لگ بھگ 10لاکھ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی چھان بین اور ان پر نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔حکومت کی چھان بین کا خاص ہدف مساجد اور مذہبی اداروںکے لئے عطیات و رقوم کی فراہمی ،مساجد کے اماموں کا ماضی اور ان کے مذہبی و فکری خیالات جاننا ہو گا۔

ہالینڈ (جس کا سرکاری نام نیدر لینڈ ہے) یورپ کا ایک انتہائی ترقی یافتہ اور بے حد خوشحال ملک ہے، جس میں مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے اور اس میں ہر سال تقریباً 20ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہالینڈ کے تمام اہم شہروں مثلاً ایمسٹر ڈیم،روٹر ڈیم اور دی ہیگ وغیرہ کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے شہروں میں مساجد ہیں، جن میں پاکستانی، بھارتی، مراکشی، ترک، یوگو سلاویہ (مشترکہ) اور دوسری کئی مسلم اقلیتیں نماز ادا کرتی ہیں۔ 11ستمبر 2001کے تاریخی سانحہ کے بعد جہاں یورپ کے دوسرےممالک میں مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہاں ہالینڈ کے کچھ حلقے بھی اپنے سیکولر ازم کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں کے کردار سے چوکنے ہو گئے ہیں اس پر ستم یہ کہ ہالینڈ میں انتخابات کے نتیجہ میں دائیں بازو کی (مکس) پارٹی نے حکومت تشکیل دی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ہالینڈ میں پہلی بار بعض مساجد کےاَئِمَّہ کرام کے خلاف ڈچ حکومت نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ان پر الزامات ہیں کہ بعض امام صاحبان اپنی تقاریر کے ذریعہ ہالینڈ میں بسنے والے مسلمانوں کو تشدد کے لئے اکسا رہے ہیں اور ڈچ حکومت کو اسلام دشمن قرار دے رہے ہیں ان حضرات کی اکثر تقاریر جذباتی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بالخصوص کم تعلیم یافتہ اور سادہ مزاج مسلم نوجوانوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ان اماموں کی تقریریں سن کر ڈچ حکومت اور مقامی مسلمانوں کے درمیان ایک طرح کی خلیج پیدا ہو رہی ہے۔ میرے حساب سے اگر ڈچ حکومت کے مذکورہ اعتراضات کسی بھی حد تک صحیح ہوں اور اگر یہ سچ ہے تو مساجد کے محترم اَئِمَّہ کرام کو چاہئے کہ وہ جذباتی نہ بنیں اوراحتیاط سے کام لیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیل یا امریکہ کے مظالم کے پس منظر میں وہ اپنی پالیسیاں نہ بنائیں کہ ہر ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات مختلف ہوتے ہیں اور کوئی بھی حکومت اپنے ملک کے امن وامان کے مسئلے پر گڑبڑ کی متحمل نہیں ہو سکتی وہ ہر قیمت پر امن و امان چاہتی ہے ۔ وہ نہیں چاہتی کہ مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے اس کے باشندے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں۔ سابق صدرِ امریکہ کی عالمی سطح پر پیدا کردہ احمقانہ اور ناموافق فضا کے باوجود یورپی ممالک کی حکومتیں آج بھی بڑی حد تک مسلم دشمن نہیں ہیں۔ فرانس میں ساٹھ لاکھ اور جرمنی میں 55لاکھ مسلمان آباد ہیں اور وہاں کی حکومتوں کا سلوک ان کے ساتھ مجموعی لحاظ سے اچھا ہے۔ تاہم اگرحکومت وقت کے خلاف عبادت گاہوں اور مساجد میں تقاریر ہوں تو اسے کوئی بھی حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ ہمارے مذہبی قائدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام مسلمانوں کے لئے مسائل پیدا کرنے سے اجتناب کریں اور اپنی تقریروں، واعظوں اور لیکچروں میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ ڈچ قوانین پرعمل کریں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور اداروں کی معاونت کریں۔ یورپ کی حکومتوں میں یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے کہ عبادت گاہیں صرف عبادت کے لئے ہوتی ہیں۔ سیاست کے لئے نہیں ہوتیں، ہالینڈ میں بسنے والے مسلمانوں میں ایک قابل لحاظ تعداد پاکستانی، بھارتی اور دیگرمسلمانوں کی بھی ہے ان میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے اصولوں کی حفاظت تشدد سے ہی ہو سکتی ہے۔ یہ خیال سرے سے ہی غلط ہے دوسرے لوگ جس طرح سوچتے ہیں اس میں بھی صداقت ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہالینڈ میں مقیم پاکستانی، ترک اور مراکشی و عرب انتہا پسند وں کا ساتھ نہ دے کر اور وسیع النظری سے کام لےکر ڈچ حکومت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے بھی مسائل پیدا نہیں کریں گے۔ ہمیں بنیاد پرستی کو یکسر ختم کرنا ہو گا اور درگزر رواداری کے اصولوں پرمبنی معاشرہ کو مضبوط سے مضبوط ترین بنانا ہو گا۔

تازہ ترین