• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام !آ پ نے اپنی زندگی میں یہ مقولہ تو بچپن سے سنا ہو گا کہ ’’کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہے کھڑکیاں‘‘ مگر اس کے پیچھے کی داستان کا نہیں پتہ ہوگا ۔ کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے،پٹیالہ کے سب سے با اثر بڑے جاگیر دار اور گائوں کے سرپنچ بھی تھے۔ ایک دن بھانجے کے پاس پہنچے اور کہا کہ شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دو۔ (ان دنوں کسی بھی سیشن جج کے آرڈر انگریز وائسرائے کرتے تھے)، بھانجے سے چٹھی لکھوا کر کھڑک سنگھ وائسرائے کے پاس جا پہنچے ،وائسرائے نے خط پڑھا ۔ وائسرائے:نام؟ کھڑک سنگھ: وائسرائے۔ تعلیم؟ کھڑک سنگھ ’’تسی مینو جج لانا اے یا اسکول ماسٹر؟‘‘ وائسرائے ہنستے ہو ئے ’’سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں، اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟ کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تائو دیا اور بولے ’’بھلا اتنے سے کام کے لئے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھا ئوں؟ میں برسوں سے پنچایت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں، ایک نظر میں چنگے، بھلے کی تمیز کر لیتا ہوں۔‘‘ وائسرائے نے سوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے جس نے سفارش کی ہے۔ وہ جانے اور اس کا ماموں، عرضی پر دستخط کر دئیے اور کھڑک سنگھ کو جسٹس کا فرمان جاری کر دیا۔ اگلے دن بطور جسٹس کھڑک سنگھ کمرہ عدالت میں پہنچے، اتفاق سے پہلا کیس قتل کا تھا۔کٹہرے میں ایک طرف 4ملزم اور دوسری جانب ایک روتی خاتون تھی۔ ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا، مائی لارڈ یہ عورت کرانتی کور ہے، اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔ عورت نے بتایاـ ’’سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے کھیت سے نکلے اور میرےخصم (شوہر ) کو مار مار کر جان سے ماردیا ۔‘‘دائیں طرف کھڑے بندے نے کہا ’’نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی۔‘‘ دوسرے نے کہا ’’میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف سمجھانا تھا۔‘‘ کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا ’’جو بھی ہو بندہ تو مر گیانا؟‘‘ پھر قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگے تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص کھڑا ہوا اور بولا ’’مائی لارڈ رُکیے، یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے، یہ ایک زمین کا تنازعہ تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزم کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا؟‘‘ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا ’’یہ کالے کوٹ والا کون ہے؟‘‘ ’’جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے‘‘ پولیس والے نے جواب دیا ’’تو انہیں کا بندہ ہوا ناجو ان کی طرف سے بات کر رہا ہے‘‘، پھر کھڑک سنگھ نے وکیل کو بھی ان چاروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا، پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دئیے۔ فیصلے میں لکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)۔ پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی، ہر طرف لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھرتھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دیتا ہے، اچانک جرائم کی شرح صفر ہو گئی، کوئی وکیل کسی مجرم کا کیس نہ پکڑتا، جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ میں جج رہے، ریاست میں خوب امن رہا، آس پاس کی ریاست سے لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔ اس واقعہ میں دور حاضر کے پڑھے لکھے ججوں کے لئے ایک گہرا سبق ہے ۔

یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں سب سے بے بس اور بے اختیار عدالتی نظام ہے۔ اس نظام کے سامنے روز ایسے ملز م پیش ہوتے ہیں جن کے بارے میں سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ ان سے جرم سرزد ہوا ہے لیکن و ہ انہیں سزا نہیں دے سکتے۔روزانہ عدالت کے رو برو پیش ہونے والے گواہوں کو کہیں پیسے دے کر اور کہیں ڈرا دھمکا کربیان بدلنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اسے بیرون از عدالت تصفیہ بھی کہتے ہیں۔ اکثر بااثر قاتل گھر انے کے لو گ مقتول کے گھرانے کو دھونس، جبر یا پھر ان کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمائے کا استعمال کر کے گواہوں کو بٹھا تے ہیں اور عدالت کس قدر بے بس ہو جاتی ہے کہ اس کو علم بھی ہو کہ اس شخص نے قتل کیا ہے ،وہ اسے باعزت بری کر دیتی ہے۔

تازہ ترین