(گزشتہ سے پیوستہ)
جسٹس سر شادی لعل (رانی جنداں کا محل) کے محل کی گیارہ کنال جگہ پر پہلے ہی قبضہ ہو چکا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ تعلیمی اداروں کی جگہوں تک کو نہیں چھوڑ رہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ کچھ سرکاری اور دیگر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس تاریخی محل کی بالکل مرمت نہ کی جائے اوریہ محل خود بخود بوسیدہ اور خطرناک ہو جائے۔ پھر سی اینڈ ڈبلیو کے وہ اہلکار جنہوں نے اس شہر میں پہلے بھی کئی تاریخی عمارتوں کو زمین بوس کر دیاہے، مثلاً لاہور کے کمشنر ہائوس کی عمارت بہت خوبصورت اور تاریخی تھی، اس کو گرا کر انتہائی بدصورت عمارت تعمیر کردی ہے۔ جب سے ہمارے ملک میں سرکاری عمارتوں میں ٹائل لگانے کا رواج پڑا ہے، اس سے کئی لوگوں نے بڑی دیہاڑیاں لگائی ہیں۔ گورے پبلک دفاتر میں فرش اور عمارتوں میں ایسا میٹریل استعمال کرتے تھے جو آج بھی ایک سو سے ڈیڑھ سو برس گزرنے کے باوجود کام دے رہا ہے۔ ٹائلیں گھروں میں یا صرف ان عمارتوں میں لگائی جاتی ہیں جہاں آمدو رفت بہت کم ہو کیونکہ ٹائل صرف تین چار سال میں گھس جاتی ہے اور بدصورت ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس آئی آر ڈیپارٹمنٹ کا فرش ساٹھ برس گزرنے کے باوجود آج بھی نیا لگتا ہے، فرش سیمنٹ اور چپس کا ہے۔لاہور میں انگریزوں کی تعمیر کردہ عمارتوں میں ایک خاص قسم کی مضبوطی اور حسن ہے۔ ا نہوںنے یہاں جو سرکاری عمارتیں تعمیر کیں، ان کے اندر ایک خاص قسم کی گولائی چونے والی چھتیں یا پھر لکڑی کے بہت بڑے بڑے شہتیروں والی چھتیں ہیں جن کو 100/150 برس گزرنے کے باوجود دیمک نہیں لگی۔ جسٹس سر شادی لعل کے محل میں رانی جنداں نے لکڑی کا بڑا خوبصورت کام بڑے شوق سے کرایا تھا مگر اس کو وہاں رہنا نصیب نہیں ہوا۔ کسی نہایت ہی بے وقوف انسان نے لکڑی کے اس خوبصورت کام پر پالش کی بجائے پینٹ کردیا ہے۔ پینٹ کرنے سے لکڑی پھر دوبارہ کبھی پالش (روایتی ہلکا برائون پالش) کے قابل نہیں رہتی۔ جسٹس سر شادی لعل کے کمرے کی چھت کے اندر لکڑی کا بہت خوبصورت اور دیدہ زیب بیل بوٹوں کا کام کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ کمرہ کبھی رانی جنداں کا ہوگا کیونکہ اس کمرے کی خوبصورتی اس بات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس محل کے ہر ستون اور بے شمار دروازوں اور چھتوں پر لکڑی کی خوبصورت کاریگری کی گئی ہے۔ پرانے لاہور میں کبھی ہر مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں پر مختلف رنگوں کے شیشے لگائے جاتے تھے جو رات کو بڑا خوبصورت منظر پیش کرتے تھے۔ اندرونِ لاہورمیں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کے دروازے اور کھڑکیوں پر سبز، لال، نیلے، پیلے، گلابی اور دیگر رنگوں کے شیشے کی ٹکڑیاں نہ لگائی جاتی ہوں، یہ بھی قدیم لاہور کے طرز تعمیر کا ایک حصہ تھا۔ اس محل کے دونوں گنبدوں کے اندر بھی مختلف رنگوں سے بیل بوٹے بنائے گئے ہیں، اب صرف ان کے نقش اور کچھ رنگ باقی رہ گئے ہیں۔ لاہور میں کبھی چھوٹی اینٹ کے ساتھ ساتھ بڑی چوڑی ٹائل بھی استعمال کی جاتی تھی جو اب دونوں بالکل ناپید ہوچکی ہے۔ لاہور میں کئی حویلیوں، احاطوں اور کٹڑیوں کے داخلی دروازے چھوٹی اینٹ اور لکڑی سے تعمیر کئے گئے تھے۔ لاہور میں اب تو صرف چند ایک اس طرح کے داخلی دروازے رہ گئے ہیں۔ شاہی قلعہ، مسجد وزیر خان، شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر، نور جہاں اور آصف جاہ وغیرہ چھوٹی اینٹ سے تعمیر کئے گئے تھے۔
اس تاریخی محل کے قریب حضرت موج دریا بخاریؒ کا مزار مبارک بھی ہے اور پھر قریب ہی ایک ایسی حویلی ہے جس کا لوگوں کوپتہ نہیں۔ اس حویلی کا نام ہے رائے صاحب لکشمن نرائن۔ اب اس کا نام اوایس ایل این گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین موج دریا روڈ 16 ایڈورڈ روڈ ہے۔ ایڈورڈ روڈ پر کبھی ہندوئوں کی کئی پرانی کوٹھیاں تھیں جو مسلمانوں کو الاٹ ہوئی تھیں ، کچھ پر ہمارے لوگوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ یہ وہ ایڈورڈ روڈ بالکل نہیں جو ہم نے کبھی اپنے کالج کے زمانے میں دیکھا تھا۔ اس ایڈورڈ روڈ پر لاہور کے بچوں کے پہلے اور بڑے مشہور ڈاکٹر واسطی کی لال اینٹوں سے بنی کوٹھی ہوا کرتی تھی۔ ان کے کلینک پر اس طرح رش ہوتا تھا جیسے کوئی مٹھائی تقسیم ہو رہی ہو،ان کے ہاتھ میں بڑی شفا تھی۔ وہ پرانی کوٹھی بھی زمانے کی نذر ہوگئی۔ اب ان کا بیٹا ڈاکٹر عثمان واسطی یہاں پریکٹس کرتا ہے، جگہ تو وہی ہے مگر یہ اب ایک پلازہ بن چکا ہے۔ یہ سڑک کبھی بڑی پرسکون اور صاف ستھری تھی۔ اس سڑک پر رائے صاحب لکشمن نرائن کی لال اینٹوں سے تعمیر کی گئی حویلی موجودتھی، ہم نے یہ حویلی کئی مرتبہ دیکھی ہے۔ اس میں بڑ کا ایک بہت بڑا درخت ہے جس کا تنا کم از کم بیس فٹ پر محیط ہے۔ حکومت کی غفلت اور لاپرواہی سے یہ عمارت تباہ ہو رہی ہےجبکہ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کو کسی اور جگہ منتقل کردیا گیا ہے۔ کسی احمق شخص نے اس خوبصورت حویلی کے فرنٹ پر گرے سیمنٹ کی لپائی کر دی ہے۔ آج کل اس عمارت کےسامنے گھوڑوں کے پینے کیلئے پانی کا حوض ہے اور گلی میں چند گھوڑے اور تانگے بھی کھڑے ہوتے ہیں جو یہ یاد دلاتے ہیں کہ کبھی لاہور شہر تانگوں کا شہر بھی تھا۔ حضرت موج دریا بخاریؒ اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور میں تشریف لائے تھے، بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے۔ کبھی اس مزار مبارک کے ساتھ بڑا وسیع لنگر خانہ اور لاہور میں باہر سے آنے والے لوگوں کے لئے قیام گاہیں تھیں اور تمام پرانے مکانات، رہائش گاہیں اور لنگر خانے 1960ء تک رہے پھر یہاں انکم ٹیکس والوں نے قبضہ کرلیا۔ کبھی اس علاقے کو کپور تھلہ ہائوس اور کڑی باغ بھی کہتے تھے۔ کپورتھلہ ہائوس کے بے شمار قدیم خوبصورت گھر کب کے مرورِزمانہ کی نذر ہو گئے۔ (جاری ہے)