• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکس کو اکٹھا کرنا اور پھر عوام پر خرچ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے،محصولات حکومت کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں جن کے ساتھ ساتھ حکومت غیر ملکی قرضوں پر بھی انحصار کر تی ہے، اگر عوام پر ٹیکس کا بوجھ کم ہو گا تو عوام خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ پچھلے 8 سالوں سے اشیائے خرو نوش اور بلز پر ٹیکس کی مد میں اضافے کی انتہا کر دی گئی ہے جس سے عوام پریشان ہیں، بجلی کے بلز میں فی یونٹ اضافہ بھی مسلسل ہو رہا ہے، جس میں بجلی کی قیمت 60% اور ٹیکس فیول چارچز 40%ہوتے ہیں، دیگر ممالک جوں جوں آپ بجلی زیادہ استعمال کرتے ہیں فی یونٹ قیمت کم ہو جاتی ہے اور یہاں زیادہ استعمال کرنے سے بہت زیادہ ہوتی ہے یعنی بلزمیں اور یونٹ کی قیمت میں اضافہ کا کوئی فارمولہ ہی نہیں ہے، ٹیکس دینا ہر شہری کا فرض ہے اور ٹیکس کلچر کو پروموٹ کرنا بھی ضروری ہے لیکن نہ ہی یہاں ٹیکس کلچر پروموٹ ہوا اور نہ ہی ٹیکس کا بہتر مصرف ہو سکا ہے، عوام اور حکومت کے اعتماد کو ٹیکس کلچر کی پروموشن کے لئے بحال کرنا ضروری ہے۔ حکومتیں عوام کے ٹیکس سے ہی چلتی ہیں، یہاں ٹیکس چوری بھی عام ہے اوریہ حقیقت ہے کہ ایف بی آر کے بغیر ٹیکس چوری نہیں ہو سکتا ہے، اب حکومت کی آمدنی کا ایک اور اہم ذریعہ زمینوں کی رجسڑیوں پر ٹیکس ہے، رجسٹریوں پر ٹیکسوں میں اضافہ کی وجہ سےجائیدادوں کی خریدوفروخت میں کمی آ گئی ہے اور ملکی خزانے کی آمدنی میں بھی کمی ہو گئی ہے،قریباً دو ماہ گزر گئے جائیدادوں کی خرید و فروخت پر بڑھائے جانے والے ٹیکسوں میں کمی نہ آ سکی۔

دوسری طرف اشٹام فروش، وثیقہ نویس، وکلا اور ان کے دیگر اسٹاف کے گھروں میں کسمپرسی کی حالت ہے۔رجسٹری برانچوں میں سوائے چند بینکنگ سیکٹر سے متعلقہ ڈاکیومنٹ یعنی مورٹگیج، ریڈمیشن ڈیڈ، ہبہ نامہ، دستبرداری وغیرہ جن پر ٹیکسز اپلائی نہیں ہوتے، وہی جمع کروانے جا رہے ہیں۔بیعہ نامہ رجسٹری نہیں آ ر ہی ،سرکاری اسٹاف سارا دن انتظار کرتے رہ جاتے ہیں ۔یہ ہی حال پٹوار خانوں کا بھی ہے،جب لوگ خردیں ہی گے نہیں تو لازمی بات ہے کہ رجسٹریاں بھی پاس نہیں ہونگی تو انتقال کیسے درج ہوں گے؟ لہٰذا ریوینیو عملہ فیلڈ اسٹاف بھی مکمل طور پر زبوں حالی کا شکار ہے۔ریل گاڑی کی طرح انجن سے آخری بوگی تک ہر ایک شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔حکومتی پالیسی میکرز کو چاہئے تھا کہ آہستہ آہستہ ایک ایک ٹیکس بڑھاتے ہوئے ریونیو کلیکشن میں اضافہ کرتے ۔ ایک ساتھ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے کی کوشش سے منفی نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔اببھی دیر نہیں ہوئی حکومت رجسڑی کی مد میں ٹیکسوں میں کمی کر ے توبہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔

ایک تو مہنگائی کی شرح قابو سے باہر ہے اوپر سے اگر کوئی غریب اپنی مشکل کو آسان کرنے کے لئے اپنی کوئی جائیداد فروخت کرنے کا سوچتا ہے تو گین ٹیکس کی شرح دیکھ کر رک جاتا ہے۔اور خریدار تقریباً 15 فیصد رجسٹری اخراجات کا سن کر دبک جاتا ہے،ویسے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کیا صرف حکومت کو ہی سرمائے کی ضرورت ہے غریب آدمی کو نہیں؟ دراصل حکومت اس وقت دو کشتیوں پر سوار ہے، صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت،اگر وفاقی حکومت کوئی ریلیف دینا چاہے تو صوبائی حکومتیں حزب اختلاف اور اگر صوبائی حکومت عوامی سہولت کا کوئی منصوبہ پیش کرے تو وفاقی حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ اس شعبہ سے لا تعداد خاندان روز گار سے منسلک ہیں، حکومت کو رجسڑی ٹیکس میں کمی لا کر اس کاروباری صنعت کو ترقی دینی چاہئے تاکہ پراپرٹی کی خرید و فروخت کا عمل جاری رہے اور ملک میں ترقی وخوشحالی ہو۔ چند دن قبل حکومت پنجاب نے اشٹام ڈیوٹی کی شرح میں 100 فیصد کمی کر کے صوبے کے عوام کو 25ارب روپے کا ریلیف دیا ہے۔ عوام کی سہولت کیلئے پنجاب بھر میں اشٹام ڈیوٹی کی شرح ایک فیصد مقرر کی ہے، اشٹام ڈیوٹی کی شرح کم ہونے سے شہری جائیداد کی رجسٹری اور انتقالات میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ حکومت نے یہ فیصلہ صوبے کے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے، اس اقدام کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ سرکاری ملازمین کا ایک اہم مسئلہ بھی تھا جس کے بارے میں عدالت نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے ، عدالت نے حکومتی حکم نامے کو کالعد م قرار دیتے ہوئے 25سال کی سروس پوری کرنے والوں کی ریٹائرمنٹ کو آئین وقانون کے مطابق قرار دے دیا، اس فیصلے سے پنجاب بھر میں ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ڈیوٹی پر جانے والے محکمہ ایجوکیشن کے اساتذہ ودیگر ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پٹیشن دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیاتھاکہ گورنمنٹ آف پنجاب نے سروس ایکٹ کی سیکشن 12میں ترمیم کرکے یہ شرط عائد کر دی تھی کہ 25سال سروس مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ ریٹائرمنٹ کے لئے 55سال عمر کا ہونا بھی ضروری ہے۔اس پر محکمہ تعلیم کے کئی اساتذہ 25سال سروس مکمل ہونے پر ریٹائرڈ ہو چکے تھے، بعد ازاں سروس ایکٹ کی سیکشن 12 کی ترمیم کی روشنی میں محکمانہ اتھارٹیز نے پینشن کے احکامات واپس لے لئے۔فاضل عدالت نے وکلاکے دلائل سننے کے بعد دائر ہونے والی پٹیشن کو منظور کرلیا،ادھر عدالت عالیہ کے فیصلے کےبعد اب 25 سال سروس مکمل کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین دوبارہ اگر چاہیں تو اپنی بقیہ سروس مکمل کر سکتے ہیں کیونکہ ایسے ملازمین ذاتی وجوہات کی بنا پر قبل از ریٹائرمنٹ 25 سال کے بعد ریٹائرڈ منٹ لینے کا استحقاق رکھتے تھے، اب وہ دوبارہ جوائن کر سکتے ہیں۔ عدالت عالیہ کے جسٹس جواد حسن نے ایک پٹیشن پر یہ فیصلہ دیا ہے جس سے ہزاروں ملازمین کو فائدہ ہو گاایسےفیصلے مفاد عامہ کے لئے مثال ہیں۔

تازہ ترین