چھٹی کا دن تھا اور اس شام فضا میں خاصی خنکی تھی۔ماحول پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔شہر اقتدار کا ہر باسی سردی سے بستر میں دبکا بیٹھا تھا۔کسی کو کیا خبر تھی کہ جڑواں شہر میں ایک مقتل سجانے کی تیاریاں کی جاچکی ہیں۔راولپنڈی سے آنے والی اطلاعات نے تو رگوں میں دوڑنے والے خون کو جما ہی دیا۔میڈیا کی جانب سے واقعے کی ذمہ دارانہ کوریج کے باعث اصل واقعہ سے ہر شخص لاعلم تھا۔ رحمٰن ملک کی موبائل سروس بندش ایجاد سے مستفید ہوتے ہوئے مواصلات کی واحد سہولت بھی بیکار معلوم ہورہی تھی۔کسی بھی جانب سے مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہورہی تھیں مگر میں محسوس کرچکا تھا کہ معاملات بہت حساس نوعیت کے ہیں۔اگر ہم کچھ دیر کے لئے اس واقعے سے ہٹ کر تاریخ کی ورق گردانی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قومیں اور تہذیبیں بالکل انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ابن خلدون اوشپنلگر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں،یہ جنم لیتی ہیں ،پروان چڑھ کر جوان ہوتی ہیں پھر زوال کا شکار ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ رومی، یونانی اور مصری تہذیبوں کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد ہمیشہ چند اصولوں ،ضابطوں اور اخلاقی قدروں پر ہوتی ہے۔ ان کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب یہ اخلاقی قدریں کمزور پڑ جاتی ہیں اور سوسائٹی میں تضادات نمودار ہوجاتے ہیں اور یہی اس کے نیست و نابود ہونے کا سبب بنتے ہیں۔لگ بھگ 65 برس پہلے جب ہم نے یہ وطن حاصل کیا تو مذہب کے نام پر دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آیا۔جہاں مسلمانوں کو قرآن و سنت کے رہنما اصولوں کے تحت ایک اخلاقی معاشرے کا قیام کرنا تھا۔اس ملک میں مسلمانوں کو دین اسلام کی روشن تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا تھی،یہی نہیں بلکہ قائداعظم نے 11اگست1947ء کے شہرہ آفاق خطاب میں یہ واضح کردیا کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ عیسائیوں اور ہندؤئوں کو بھی اس میں اپنے مذاہب کے مطابق رہنے کی بھرپور اجازت ہوگی لیکن آئندہ آنے والی دہائیوں میں جو کچھ ہوا اس پر قطعاً فخر نہیں کیا جاسکتا۔ 1960ء میں جس مملکت خداداد کو ایشیاء کا ماڈل کہا جاتا تھاآج آبادی کے لحاظ سے اسلامی دنیا کا دوسرا بڑا ملک ،جو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بن جانے اور بہترین ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کرنے، معدنیات اور زرخیز زمین سے مالا مال ہونے کے باوجود اپنا اصل مقام حاصل نہ کرسکا ،بیڈ گورننس، سیاسی عدم استحکام ،جمہوری عمل میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ گرتی ہوئی اخلاقی قدریں بھی بہت بڑی حد تک ہماری اس حالت کی ذمہ دار ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں عدم مساوات، رواداری، تحمل اور برداشت کی کمی اور شدت پسندی سرائیت کرچکی ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ جن ملکوں پر آج ہم رشک کرتے ہیں وہ ملک اپنے ملٹی کلچرل،ملٹی ایتھنک اور ملٹی ریلیجیس کردار کی کس طرح سے حفاظت کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہی انہوں نے ترقی کی منازل طے کیں۔ملائیشیا اور شمالی امریکہ اس سلسلے میں محض دو مثالیں ہیں۔ اوکلوہاما میں بم دھماکے کا واقعہ ہو یا 9/11کا واقعہ، اس کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے جو کہیں کہیں پرتشدد بھی رہے لیکن بہت جلد امریکیوں کو یہ خیال آیا کہ وہ تباہی کی طرف جارہے ہیں تو انہوں نے فوراً اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے اقدامات کئے ۔اگر قدرت کی اسکیم پر غور کیا جائے تو سارے نظام کائنات کا مرکزی محور تنوع ہے،دن رات سے مختلف ہے تو گرمی سردی سے،دریا ریگستان سے مختلف ہیں تو پہاڑ سمندروں سے ۔رب ذوالجلال اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی شکل کا پیدا کرتا لیکن ایسا نہیں ہے۔انسان گورے بھی ہیں اور کالے بھی، لمبے بھی ہیں اور پست قد بھی۔ غرض یہ کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ ایسے میں فرق کو ختم کرنا قدرت کی اسکیم کے خلاف جانے کے مترادف ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر جگہ ،ہر ملک میں مختلف زبان بولنے والے، مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کیا کرسچن برادری کے کیتھولک، پروٹسٹنٹ اور ایسٹرن اورتھوڈوکس میں اختلاف نہیں؟ کیا بدھ مت اور ہندومت کے مختلف فرقوں میں اختلاف نہیں پائے جاتے؟ سب مذاہب میں اختلافات موجود ہیں۔ یورپی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک جرمنی، فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک اس فرقہ وارانہ اختلاف میں الجھے رہے انہوں نے ترقی نہیں کی۔ ترقی کا سفر تب شروع ہوا جب اس فرق کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے ساتھ رہنا شروع کر دیا گیا۔ شیعہ سنی سیکڑوں سالوں سے اس خطے میں قیام پذیر ہیں ،آپس میں ہم آہنگی زیادہ ہے جبکہ تضادات کم ہیں۔ ایک ہی درسگاہوں میں پڑھتے ہیں، ایک ہی محلے اور کالونیوں میں رہتے ہیں اور آپس میں رشتہ داریاں رکھتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ عوامی سطح پر باہمی طور پر دونوں کے لئے کوئی منفی جذبات نہیں۔مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ان فرقوں سے تعلق رکھنے والے بعض مذہبی رہنما اپنی روزی روٹی کے لئے سادہ لوح عوام کا ذہنی استحصال کرتے ہیں اور اپنے جھنڈے تلے ایسے لوگوں کو فوج بنا کر مخالف قوتوں کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں۔پاکستان کے تمام فرقوں کے علماء اور قائدین انتہائی تعلیم یافتہ،باشعور اور بلند خیال ہیں اور نفرت کے جذبات کے ذریعے ملک اور معاشرے کو پہنچنے والے نقصان سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ راولپنڈی کے بعد علامہ ساجد نقوی سے لے کر مولانا فضل الرحمن، سمیع الحق جیسے جید علماء سے گفتگو ہوئی تو ان کی یہی رائے تھی کہ فرقہ وارانہ فسادات کسی طور قبول نہیں اور تمام مسلمان چاہے جس مکتبہ فکر سے ہوں اسلام اور پاکستان کی چھتری تلے ایک ہیں۔اس سانحے کے بعد تمام قابل ذکر علماء نے نفرت کی آگ پر قابو پانے کے لئے مثبت کردار ادا کیا۔نفرت کی آگ بھڑکانے والے لوگوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ وہ عراق ،شام اور لبنان میں پیدا صورتحال کو مت بھولیں۔ جہاں پر اچھے خاصے پڑھے لکھے اور متمول گھرانوں کے بچے بدامنی کے باعث اس وقت سڑکوں پر ہیں ۔ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انہوں نے اس ملک میں رہنا ہے اور ان کی نسلیں بھی یہیں پروان چڑھیں گی ،تو وہ اپنی نسلوں کے لئے اپنے ہاتھ سے کیسا پاکستان تخلیق کررہے ہیں۔انتقام کی آگ کو جلد از جلد بجھانا اس ملک کے بہتر مفاد میں ہے۔اس موقع پر مجھے حضرت علیؓ سے منسوب ایک واقعہ یاد آرہا ہے ،آپ ایک دفعہ جنگ میں مصروف تھے اور جنگ میں عین اس وقت جب ایک کافر کی گردن آپ کی تلوار کی کاری ضرب سے چند ساعتوں پر تن سے جدا ہو جاتی اس کافر نے آپ کے چہرے مبارک پر تھوک دیا،آپ نے فوراً اپنا ہاتھ روک لیا اور دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔کافر تعجب میں مبتلا ہو گیا اور اس نے استفسار کیا کہ اے علی ؓ تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا تو آپؓ نے فرمایا کہ تمہاری اس حرکت کے بعد اگر میں وار کرتا تو اس کے پیچھے انتقام کا جذبہ ہوتا جو کہ بہت تباہ کن ہوتا ہے،اس لئے میں نے تمہیں چھوڑ دیا،کیا ہمیں اس واقعے سے کچھ سیکھنا ہے؟؟؟