• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان جنوبی پنجاب میں ایک وسیع رقبہ قابلِ کاشت ہے ۔ بیسویں صدی کے وسط تک یہ علاقہ اپنے درمیان بہنے والے عظیم دریائے سندھ کے پانی سے مستفید نہیں ہوتا تھا ،کیونکہ جنوبی پنجاب میںکسانوںکیلئے آبپاشی کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تھا۔ برطانوی دورِ حکومت میں جب پنجاب کے اوپری حصے میں سندھ طاس کے معاون دریائوں سے نہریں نکالی گئیں تو اس علاقے کے لوگ فطری طور پر یہ توقع رکھتے تھے کہ اُنہیں بھی اپنی زمینیں سیراب کرنے کیلئے دریائے سندھ سے آبپاشی کی سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔
ممکن ہے کچھ لوگوں کے لئے یہ باعث ِحیرت ہو مگر دستاویزات سے اِس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان واقع اِس دوآبہ کے علاقے کو سیراب کرنے کیلئے دریائے سندھ سے ماڑی کے مقام پرایک دوامی نہر نکالنے کا تصور پہلے پہل حکومت ِپنجاب نے 1873 ء میں پیش کیا، تاہم آئندہ 27 برس تک اِس بارے میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔بعد ازاں دوآبہ کو سیراب کرنے کیلئے آبپاشی نظام تعمیر کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لئے اکتوبر 1901ء میں سندھ ساگر کالونائیزیشن ایکٹ پاس ہوا۔ اس ایکٹ کی رُو سے پنجاب کو یہ استحقاق حاصل ہوگیا کہ وُہ بھکر اور لیّہ میں 19لاکھ 32ہزار ایکڑ پر مشتمل شاملات اراضی کیلئے سندھ ساگر دوآب (جسے آجکل تھل دوآب کے نام سے جانا جاتا ہے) کو سیراب کرنے کیلئے ایک نہر نکال سکتا ہے۔ مگرزیریں علاقوں کی مخالفت اور مرکزی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے علاقے کے لوگ اِس نہر کی تعمیر کے منتظر ہی رہے۔1919 ء میں حکومتِ پنجاب نے دوآبہ کو آبپاش کرنے کیلئے ایک منصوبہ تیار کیا۔ تاہم ہندوستان کی مرکزی حکومت نے اِس منصوبے کوبھی مسترد کردیا۔
اِسی اثناء میں برطانوی حکومت نے سکّھر بیراج کا منصوبہ تیار کیا ۔ 1923ء میں سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے ہندوستان نے اس منصوبے کی منظوری دی۔جنوبی پنجاب کیلئے پانی کی فراہمی سے مسلسل انکارکے باعث حکومتِ پنجاب نے 1924 ء میں ایک ترمیمی منصوبہ تیار کیا جس میں درج ذیل تین متبادلات شامل تھے:
الف۔تھل کینال کا نسبتاًچھوٹا منصوبہ
ب ۔تھل کینال کا بڑا منصوبہ
ج۔پورے دوآبہ کیلئے آبپاشی کا منصوبہ
برطانوی حکومت نے رائے دی کہ اِس منصوبے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل سکھر بیراج کے منصوبے کیلئے درکار پانی کا معاملہ پہلے طے کیا جائے ۔ بالآخر اکتوبر 1925 ء میں حکومتِ پنجاب نے تھل کینال کا نسبتاً چھوٹا منصوبہ منظوری کیلئے ہندوستان کی حکومت کو ارسال کیا۔ لیکن ہندوستان کی حکومت نے سکھر بیراج کا منصوبہ فعّال ہونے تک تھل کینال کے چھوٹے منصوبے پربھی عدم رضامندی ظاہر کی ۔
ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی حکومت کے اس اِقدام کے ردّعمل میں پنجاب کی حکومت کا فوری اور طویل احتجاج دیکھنے میں آیا۔ نتیجتاً ہندوستانی حکومت، پنجاب اور بمبئی پریزیڈنسی کے درمیان ایک طویل خط و کتابت ہوئی ، جس کے بعد یہ معاملہ انڈس ڈسچارج کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔ کمیٹی نے یہ منصوبہ تعمیر کرنے کیلئے پنجاب کو مزید 10 سال انتظار کرنے کی ہدایت کی۔
پنجاب کی حکومت کی ناکامی نے جنوبی پنجاب میں آباد کسانوں کی اجتماعی نفسیات پر گہرے نقوش مرتب کئے ۔ مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر اگست 1929 ء میں سندھ ساگر کالونائزیشن ایکٹ منسوخ کر دیا گیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب کی حکومت نے اس منصوبے کو کسی بھی مرحلے پر ترک نہیں کیا۔آخر کار 1935 ء کے اوائل میں اینڈرسن واٹر ڈسٹری بیوشن کمیٹی نے پنجاب کی حکومت کو تھل کینال تعمیر کرنے کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ ہی یہ قدغن بھی لگا دی کہ اس نہر میں زیادہ سے زیادہ 6 ہزار کیوسک پانی چھوڑا جاسکتا ہے۔ آخرکار1947ء میں تھل کینال تعمیر کی گئی جس کا مقصد کندیاں۔خوشاب اور کندیاں۔شیرشاہ ریلوے لائنوں کے اردگرد واقع 16 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنا تھا۔
تھل کینال کو تعمیر ہونے میں 70 سال سے زائد کا عرصہ لگا۔ اس منصوبے کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ بات واضح کرنا ہے کہ دریا کے بالائی علاقوں میں مقیم لوگ(Upper riparians) بھی پانی کی تقسیم کے حوالے سے محرومی کا شکوہ کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب محسوس کرتے ہیں۔سندھ میںرائے عامہ کا ایک بڑا حصہ اِس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پنجاب صوبہ سندھ کا اعتماد کھو چکا ہے کیونکہ چشمہ۔جہلم لنک کینال اور گریٹر تھل کینال پی سی۔ ون منظور کرائے بغیر تعمیر کی گئیں ۔بعض اوقات تصورات ،حقائق سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اِسی بات کے پیشِ نظر درج ذیل سطور میں اوپر بیان کئے گئے تصورات سے متعلق حقیقی صورتِ حال واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چشمہ جہلم لنک کینال سندھ طاس متبادل منصوبوںکا حصہ تھی اور اسی وجہ سے یہ منصوبہ اُس وقت کے منصوبہ بندی کمیشن کے دائرۂ اختیار میں شامل نہیں تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی بنک کے نمائندوں، فنڈز فراہم کرنے والے ممالک اور واپڈا پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کو سندھ طاس متبادل منصوبوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔یہ بات درست ہے کہ منصوبہ بندی سے متعلق چشمہ جہلم لنک کینال کی دستاویز آجکل کے پی سی ون کی طرح نہیں تھی، لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ سندھ طاس کے دیگر تمام متبادل منصوبوں جن میں 5بیراج اور 8بین الدریائی نہریںشامل ہیں اُن کی تعمیر کیلئے بھی اسی نوعیت کی منصوبہ بندی دستاویزات استعمال کی گئی تھیں۔ چشمہ جہلم لنک کینال جون 1971 ء میں مکمل ہوئی۔ غلط تاثر قائم کرنے کیلئے کسی ایک منصوبے کا بطورِ خاص تذکرہ اور اِس بات پر اصرار کہ صرف چشمہ جہلم لنک کینال ہی پی سی ون کے بغیر تعمیر کی گئی، کسی طور مناسب نہیں بلکہ یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔یہ درست ہے کہ چشمہ جہلم لنک کینال کے فعال ہونے پر سندھ نے اس نہر کے آپریشن پر جولائی 1972 ء میں اعتراضات اُٹھائے اور اُس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس کا نوٹس لیا۔ بہرحال اِس حوالے سے پنجاب اور سندھ کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے اہم خدوخال یہ ہیں:-اِس بات کی نشاندہی کئے بغیر کہ چشمہ جہلم لنک کینال کیلئے پانی کی متعیّن مقدار کیا ہوگی، رابطہ نہر کے زیریں حصے کو رواں دواں رکھنے کیلئے نہر میں پانی چھوڑنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ نہر میں عارضی بنیاد پر پانی چھوڑا جائے گا اور اِس بات کو مستقبل میں پانی کے استحقاق کی بنیاد نہیں بنایا جاسکے گا۔
دریائے سندھ میں پانی کے بہائو کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر وزیراعلیٰ سندھ کی درخواست پر واپڈا نہر میں پانی چھوڑنا بند کر دے گا۔یہ عبوری معاہدہ اُس وقت تک مؤثر بہ عمل تھا، جب تک صدرِ پاکستان سندھ طاس کے پانی کی تقسیم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کرلیں۔ دو سال کے بعد جون 1974 ء میں متعلقہ حکومتوں نے اِس عبوری معاہدے کو مزیدجاری رکھنے کی اجازت دی جبکہ 1974ء کے بعد چشمہ جہلم لنک کینال کا آپریشن کسی مخصوص معاہدے کے بغیر ہی جاری رہا۔1991 ء میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ طے پانے کے بعد زیریں علاقوں میں واقع آبپاشی کی نہروں میں چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے چھوڑے جانے والا پانی سندھ طاس کے نظام میں پنجاب کے لئے مختص پانی میں شمار کیا جاتا ہے۔گریٹر تھل کینال کے بارے میں سندھ کے اندر یہ گہرا تاثرپایا جاتا ہے کہ اس نہر کے ذریعے پنجاب جو پانی حاصل کرے گا، وہ پنجاب کیلئے مختص حصے کے علاوہ ہوگا۔ جبکہ ارسا کے ریکارڈ کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ بعض مصنّفین کا یہ تاثر ہے کہ پنجاب میں گریٹر تھل کینال پی سی ون کے بغیر تعمیر کی گئی۔ جب میں نے منصوبے کی اصل دستاویزات کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ30 ارب 46کروڑ روپے پر مشتمل گریٹر تھل کینال کا باقاعدہ پی سی ون 28فروری 2002 ء میں منظور ہوا۔
یہ الزام بھی بلاجواز دکھائی دیتا ہے کہ گریٹر تھل کینال کیلئے پانی کا حصہ چوری چُھپے 1991 ء کے معاہدے میں شامل کر دیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 21مارچ 1991 ء میں پانی کا معاہدہ طے پانے کے بعد ہی صوبوں نے اپنے اپنے حصوں کی تفصیلات کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔ چنانچہ تمام صوبوں نے 30 مارچ 1991 ء تک پانی کی ضرورت کے بارے میں بتایا۔ اسی بنیاد پرصوبوںکے لئے مختص کئے گئے پانی کے حصے کے اندر رہتے ہوئے 10دن کے لئے پانی کی مقدار کی ضرورت جمع کروائی گئی تھی ۔ اِرسا کا غیرمتنازع ریکارڈ اِس بات کا شاہد ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ اپنے حصے کے مطابق ہی پانی استعمال کیا ہے۔
تازہ ترین