• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی سماج اور ترقی کا بلیک ہول،دراصلاخلاقی دیوالیہ پن کا سفر ہے۔حقیقت تو خیر یہی ہے، لیکن لطیفہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں اور خود ہمارے یہاں بھی یہ سفر ترقی اور جدید طرزِ حیات کے نام پر طے کیا جارہا ہے۔ پوری انسانی دنیا، کیا ترقی یافتہ، کیا ترقی پذیر اور کیا پس ماندہ ممالک کے لوگ، سب اس وقت جس راہ پر گامزن ہیں، اس کی آخری منزل اخلاقی دیوالیہ پن ہی ہے۔ ممکن ہے، کچھ لوگوں کے لیے یہ بات کسی قدر اچنبھے اور کوفت کا باعث ہو اور ان کے اندر اس بیان پر غصے اور ردِعمل کی کیفیت کو بھی ابھارے۔ لکین حقیقتیں تبدیل تو نہیں ہوسکتیں۔ وہ تو جو ہیں وہی رہیں گی ،خواہ ہم انھیں پسند کریں یا نا پسند۔ 

ویسے اگر دیکھا جائے تو ناپسندیدگی، افسردگی اور خفت کا یہ احساس برا نہیں، بلکہ سچ پوچھیے تو بہت اچھا ہے اور ہمارے یہاں جتنے زیادہ لوگوں کے اندر اس صورتِ حال پر یہ احساس پیدا ہوگا اتنا ہی زیادہ اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ احساس اس امر کا ثبوت ہے کہ تمام تر خرابی کے باوجود سماجی سطح پر اور اجتماعی دائرے میں ہمارے یہاں اب تک وہ لاتعلقی پیدا نہیں ہوئی ہے جو خرابی اور بگاڑ کی طرف انسان کی آنکھ ہی نہیں اٹھنے دیتی اور پھر وقت کے ایک عمل میں پورا سماج اخلاقی دیوالیہ پن کے گھاٹ جا اترتا ہے اور ہزاروں برس کے تمدن کی نفی کرتے ہوئے جنگلیوں کے قبیلے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

تھامس کارلائل نے لکھا ہے کہ سماج میں انسانی حسیت کے اظہار کے پیمانے کئی ایک ہوتے ہیں۔ تاہم ایک پیمانہ ان میں ایسا ہوتا ہے جو اُس کے اخلاقی نظام، باہمی رویے اور انسانی حسیت کے بارے میں بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں کلام کرتا ہے، اور یہ پیمانہ ہے کسی سماج میں ہونے والے جرم پر اس کے اجتماعی رویے کا اظہار۔ بس ایک اسی پیمانے سے اگر ہم اپنے سماج کی صورتِ حال کا جائزہ لیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں، ۲۰۲۲ء میں سماجی سطح پر ہمارے یہاں ہونے والے جرائم کی طرف ہمارا اجتماعی رویہ کیا رہا ہے، تو اس ایک مسئلے کی تفتیش سے ہی یہ بات بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے اجتماعی اور سماجی وجود پر بے حسی کا آسیب تیزی سے غلبہ پا رہا ہے۔ 

مثال کے طور پر آپ خود دیکھ لیجیے کہ کیا نقدی، موبائل، موٹر سائیکل اور گاڑیاں چھیننے کے واقعات ہمارے یہاں اب روزمرہ زندگی کے ایسے مسائل کی حیثیت اختیار نہیں کر چکے کہ جن کے بارے میں آپس میں بھی لوگ کچھ زیادہ بات کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔ اس نوع کے واقعات پر اب ہمارے یہاں صرف ان لوگوں یا ان کے بے حد قریبی افراد کا کوئی ردِ عمل سامنے آتا ہے جو خود ایسے کسی تجربے سے گزرتے ہیں ورنہ ان حادثات پر بالعموم خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ جو لوگ بات کرتے ہیں، ان کے یہاں بھی کسی غم، غصے یا افسوس کے اظہار سے زیادہ محض خبر دینے کا انداز نظر آتا ہے۔

اس سلسلے میں متعدد سروے رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس طرح کے واقعات میں بیالیس فی صد سے زائد کی تو نہ کوئی رپورٹ درج کرائی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کا اقدام کیا جاتا ہے۔ اس رویے کے عام طور سے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ ہم اپنے یہاں کے پولیس کے نظام، قانون کی اثر پذیری اور انصاف کے معاملات سے داد رسی کی کچھ زیادہ توقعات نہیں رکھتے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ قانونی نظام کی پیچیدگی یا اور بھی کچھ؟ ہم سب کے لیے سماجی سطح پر یہ غور طلب سوال ہے۔ 

دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسے جرائم کو ہم نے اپنے لیے قابلِ قبول بنا لیا ہے۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب سماج کے افراد باہمی طور پر بے حسی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جرم کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، وہ بہرحال انسانی استحصال کی بدترین شکل ہے۔ اس کے خلاف مزاحمت یا ردِعمل صرف ناپسندیدگی کا اظہار نہیں ہے، بلکہ اس کے ناقابل قبول ہونے اور انسانی توہین کے پہلو پر انسان کے ردِعمل کو بھی سامنے لاتا ہے، اور یہ ردِعمل کسی ایک فرد ہی نہیں بلکہ اجتماعی یعنی سماجی ضمیر کا مظہر ہوتا ہے۔

دوسری طرف اس سے بھی زیادہ اذیت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی استحصال اور چوری ڈکیتی کی وارداتیں تو رہیں ایک طرف، ہمارے یہاں تو انسانی زندگی کی قدر و قیمت کا احساس تک اب ختم ہو رہا ہے۔ اس کا ثبوت قتل کے ان واقعات سے ملتا ہے جوکہ اب بڑھتے ہوئے تناسب کے ساتھ ہمارے یہاں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہی معاشرے میں وہ دور بھی گزرا ہے اور ہماری عمر کے لوگ اس کی تصدیق کریں گے کہ جب کسی شہر میں کسی ایک انسانی جان کے زیاں کی خبر آتی تھی تو پورے کے پورے شہر کو جیسے سانپ سونگھ جاتا تھا، اور یہ فضا اگلے ہی دن بحال نہ ہوتی، شہر پر اس کا اثر کئی دن رہتا تھا۔ 

آج اس کے برعکس ایک ہی دن میں ایسے کئی کئی واقعات ہوتے ہیں اور شہر کے سارے معمولات اسی طرح جاری رہتے ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ جس علاقے میں ایسا کوئی سانحہ پیش آتا وہاں کچھ وقت، یعنی محض چند گھنٹوں کے لیے کچھ تبدیلی، خاموشی یا گمبھیرتا کی فضا نظر آتی ہے اور بس۔ قتل کے واقعات پر ہمارے یہاں افسوس کا اظہار تو بے شک ہوتا ہے، ان کی مذمت بھی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے افسوس کی یہ کیفیت ہمارے اندر کہیں بہت گہرائی میں پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے احساس کی محض اوپری سطح پر نمودار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان واقعات پر ہمارے یہاں اسی وقت تک بات ہوتی ہے جب تک سوشل میڈیا اور الیکڑونک میڈیا پر اُن کا ذکر رہتا ہے۔ 

یہاں مسئلے کی نوعیت کی وضاحت اور اپنے سماجی رویے کی بہتر تفہیم کے لیے اسی سال کی دو مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ایک معروف صحافی اور سیاست داں ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز امیر کی جو اپنی بیوی سارہ کو شک کی بنیاد پر مار ڈالتا ہے۔ یہ کیسا وحشیانہ اقدام تھا، اس کی تفصیلات میڈیا، خاص طور سے سوشل میڈیا پر آچکی ہیں۔ بلاشبہ یہ سخت افسوس ناک واقعہ تھا، اور اتنا ہی افسوس ناک وہ ردِ عمل تھا جس کا اظہار اس واقعے پر ہماری صحافی دنیا نے کیا۔ ایسا ایاز امیر کی صحافتی اور سیاسی ساکھ کی وجہ سے ہوا یا کسی اور سبب سے، لیکن سخت ملال کی بات ہے کہ قتل جیسے واقعے کے لیے اگر مگر، چوں کہ، چناں چہ جیسی طرزِ اظہار دیکھنے میں آئی۔

دوسرا واقعہ اس بیٹے کا ہے جس نے جائیداد کے حصول کے لیے ماں اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قتل بیوی کا ہو یا ماں ، بہن کا، اس نوع کی واردات دنیا میں پہلی بار نہیں ہو رہیں، ہزاروں برس کی معلومہ تاریخ میں لاکھوں واقعات اس طرح کے گزر چکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہتر، باشعور، روشن خیال اور ترقی کے سفر پر گامزن اس دنیا میں آج بھی وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو ظلمت اور گمراہی کے زمانے کی دنیا میں ہوا کرتا تھا۔ 

اس سے بھی زیادہ ملال انگیز بات یہ ہے کہ اس قسم کے سانحات پر ہم ذرا سی دیر کے لیے رکتے ہیں اور اس کے بعد آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے اجتماعی رنج اور سماجی ملال کا دورانیہ اس طرح کے واقعات کے لیے سکڑ سمٹ کر اب چند منٹ تک رہ گیا اور وہ بھی مشکل سے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات ہمارے دل ودماغ، مزاج اور اعصاب پر گہرا اور دیرپا اثر کیوں نہیں چھوڑتے؟ ہم ان کی روک ھام کے لیے آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ ہم اسے بے حسی کہہ کر غافل نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ اس نوع کی بے حسی ہمیں آگے چل کر انسان نہیں رہنے دے گی۔ نوم چومسکی کے، بقول قتل پر خاموشی انسانی سماج کی کایا کلپ کا رستہ کھول دیتی ہے۔

وحشت، بربریت اور بہیمیت پہلے بھی انسانوں میں تھی، بلکہ کہنا چاہیے کہ ہمیشہ سےہے، لیکن جس بہیمانہ طرزِ عمل کا اظہار اس ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور روشن خیالی کے دور میں ہو رہا ہے، وہ اپنی نوعیت میں بالکل الگ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد میں انسانی احساس کی تشکیل اسی طرح ہو رہی ہے جیسی وحشی قبائل میں ہوا کرتی تھی۔ ہمیں اس حقیقت کے بارے میں سوچنا اور اس کے سدباب کی کوشش ضرور کرنی چاہیے لیکن اس اعتراف میں تأمل نہیں ہونا چاہیے کہ سائنسی اور مادی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے میں بہیمیت کا تناسب بھی اسی طرح اوپر جا رہا ہے۔ 

تھامس کار لائل نے کہا تھا کہ، جو معاشرہ انسانی قتل جیسی واردات پر خاموشی یا بے حسی اختیار کر لیتا ہے، وہ انسانی سماج نہیں، وحشی قبیلہ ہے۔ جدید عہد کی یہ دنیا دراصل وحشی قبیلے کے افراد جیسے رویے کا اظہار کر رہی ہے۔ وحشت و بربریت کے واقعات میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، صرف ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک کا نہیں۔ کینیڈا، جرمنی، آسٹریلیا اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں تھوڑے تھوڑے عرصے بعد اجتماعی قتل کی وارداتیں ہو رہی ہیں، جن کی بنیاد رنگ، نسل، مذہب اور قومیت میں سے کسی نہ کسی عنصر پر ہوتی ہے۔

یہ عناصر آج انسان کے اندر نفرت کے ان جذبات کو پروان چڑھا رہے ہیں جو اسے گھڑی کی گھڑی میں جیتے جاگتے اور ہنستے بستے انسانوں کو کسی براہِ راست ٹکرائو کے بغیر موت کے منہ میں دھکیلنے پر اکساتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کے حوالے سے، ماہرینِ نفسیات کے تجزیے بتاتے ہیں کہ یہ واقعات عام طور سے کسی لمحاتی اشتعال کے نتیجے میں وقوع پذیر نہیں ہوتے، بلکہ یہ رفتہ رفتہ انسانی احساس کی کایا کلپ کے تحت متشکل ہوتے اور زیرِ اثر پروان چڑھتے ہیں۔ انسانی احساس کی تشکیل کوئی بہت سادہ عمل نہیں ہوتا، یہ تو ایک بڑا پیچیدہ عمل ہوتا ہے، اس کے لیے کوئی ایک نہیں بلکہ متعدد عوامل کام کرتے ہیں، تب انسان کے اندر ایسے کسی احساس کی صورت اپنا اظہار کرتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا خارجی عوامل اس درجہ اثر انگیز اور مؤثر ہوتے ہیں کہ وہ انسان کے داخل میں رونما ہونے والے ایسے پیچیدہ عمل کی نوعیت بدل کر رکھ دیں؟ اگر واقعی ایسا ہے اور بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے، تو پھر یہ سخت تعجب کی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانی احساس یا فرد کا اعصابی اور ذہنی نظام تو پھر ایسی خارجی ہوائوں کی زد پر رہتا ہے۔ 

یہ بات اپنی جگہ ہے کہ متعدد فیکٹرز انسانی رویے اور احساس کی پیچیدہ کیفیات کی صورت گری کرتے ہیں، تاہم سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ فیکٹرز کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی مخلوق کے عمل دخل کے زیرِ اثر تو ہمارے یہاں کارفرما نہیں ہوتے، بلکہ یہ ہمارے اطراف ہی میں موجود ہوتے ہیں، لیکن ان کی جانب ہمارا دھیان نہیں جاتا، یعنی اس مسئلے کی گمبھیرتا کا سماج کے ایک بہت بڑے طبقے کو احساس تک نہیں ہوتا،اس لیے کہ وہ چیزوں کو ایک بڑے کینوس پر رکھ کر دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ عوامی حافظہ دنیا کی سب سے ناپائیدار شے ہے۔ ایک بات آج ہوئی اور عوامی سطح پر کل سے اسے بھول جانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ انسانوں کی اکثریت خود اپنے تجربے اور مشاہدے سے وہ سبق حاصل کرتی ہے اور نہ ہی وہ فائدہ اٹھاتی ہے جو دراصل اٹھایا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اسی ترقی کے سفر کو دیکھ لیجیے،جن ملکوں میں مادی ترقی کا تناسب زیادہ ہے، اُن کے یہاں انسانی رویے میں پیدا ہونے والے مسائل اور انسانی احساس کی متغیر ہوتی صورتوں سے ان پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک نے کچھ نہیں سیکھا جو ترقی کی اس چوہا دوڑ میں اپنے سے آگے نظر آنے والے جہانِ اوّل کے ممالک کے نقشِ قدم پر قدم رکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے چلے جارہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں انسانی رشتوں میں تیزی سے بڑھتا ہوا خلا اس حد تک ہول ناک ہو چکا ہے کہ انسان خود انسان کی ضرورت اور خواہش سے آزاد ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا کے تھینک ٹینکس، سماجی سائنس داں اور نفسیات کے ماہرین اس مسئلے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے اسباب پر غور کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ورچوئل ریئلٹی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور سوشل میڈیا نے خاص طور سے انسان کے انسان سے روز افزوں فاصلے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

ان ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کے باہمی رابطے اور تعلق سے بڑھتی ہوئی مغائرت آج کس درجے تک آچکی ہے اور آگے کس منزل کی طرف جارہی ہے، اس کا اندازہ محض اس ایک بات سے کسی قدر لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں وجودی ضرورت کے لیے بھی اب انسان کو انسان کی خواہش اور قربت سے آزاد کرنے کا سامان مارکیٹ میں فراہم ہے ،اسے انسان کی آزادی اور خود انحصاری کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ ہے اس عہدِ جدید کے انسان کی ترقی کے سفر کی اگلی منزل۔

ہم ابھی اتنے ترقی یافتہ نہیں ہوئے ہیں اور خدا کرے کہ ترقی کی ایسی کوئی منزل ہماری تہذیب اور سماج کی زندگی کبھی آئے بھی نہ، لیکن ۲۰۲۲ء میں ہم اپنی سماجی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھیں تو جو نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ کوئی بہت خوش کن یا حوصلہ افزا تو ہرگز نہیں ہے، انسانوں کے درمیان فاصلہ تو ہمارے یہاں بھی روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیے، پہلے کسی شخص کے انتقال کی خبر پر آس پاس یا پڑوس کے لوگ اور اس سے دفتری یا کاروباری اور سماجی تعلق رکھنے والے افراد تو اس کے جنازے میں شریک ہوتے ہی تھے، لیکن ان کے علاوہ دور پار کے لوگوں میں بھی کتنے ہی افراد ایسے ہوتے تھے جوخبر ملنے پر اپنی شرکت کو لازمی گردانتے تھے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ ایسی کسی اطلاع پر فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں تعزیتی کلمات کہنے اور افسوس کا اظہار کرنے والوں کی تعداد تو ہمارے یہاں سیکڑوں میں ہوتی ہے، لیکن جنازے میں ان میں سے سو افراد بھی مشکل سے شریک ہوتے ہیں۔ انسان کے دوسرے انسان سے حقیقی یا قلبی رشتے کی نفی کا اس سے برا اور افسوس ناک منظر بھلا کیا ہوسکتا ہے۔

لیکن بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ خاندان بلکہ ایک گھر کے افراد کے درمیان رشتے، لحاظ، محبت، احترام اور خلوص کی صورتِ حال بھی دیکھتے ہی دیکھتے کچھ سے کچھ ہوتی چلی جارہی ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل بتا رہا ہے کہ ہماری آئندہ نسل کس نہج پر اٹھے گی اور کس سمت میں سفر کرے گی۔ آج کتنے ہی گھروں میں بڑے چھوٹے کے احترام اور لحاظ کا معاملہ اس سطح پر ہے کہ نہ تو بڑوں کی حیثیت اب کسی کے لیے سائباں جیسی رہی ہے اور نہ ہی چھوٹوں سے رشتہ بڑوں کے لیے کسی تقویت کا باعث رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب فرد کی آزادی کا وہ گمراہ کن تصور ہے جو اس عہد کی سب سے اہم دین ہے۔ آج آزادی کا مطلب ہر طرح کی تربیت کے قطعی طور پر نہ مطلوب ہونے سے عبارت ہے۔

آج کی اور تین چار دہائی پہلے کی دنیائوں کو بہ یک وقت پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ سمجھنے اور جاننے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے کہ قومی اور سماجی زندگی کے اس دورانیے میں ہمارے سماجی رویے اور اجتماعی مزاج میں اتنی بڑی اور حیرت ناک تبدیلیاں کیسے آئی ہیں کہ ان دونوں ادوار کو باہم پیوستہ زمانے کہا جاسکے کہ، یہ ایک سماج کے تاریخی تسلسل کی تبدیلی گردانا جاسکے۔ مثال کے طور پر کم سے کم ہماری عمر کے لوگ تو اس حقیقت کی گواہی دے سکتے ہیں کہ اگلے وقتوں میں خاندان یا گھر کے افراد کا تو ذکر ہی کیا، محلے پڑوس کے لوگ بھی چھوٹوں کی تربیت کی ذمہ داری محسوس کیا کرتے تھے اور اس میں اپنے اپنے حساب سے شریک بھی ہوتے تھے۔ 

اپنوں ہی کو نہیں، دوسروں کے بچوں کو بھی کسی غلط بات پر ٹوکنے اور سمجھانے والے بلکہ ڈانٹنے ڈپٹنے والے جب اور جہاں بھی انھیں یہ کام کرنا پڑتا، وہ اسے اپنا فرض سمجھ کر کیا کرتے تھے، جن بچوں کو ٹوکا جاتا تھا، ان کے بڑوں میں کوئی شخص ایسی کسی بھی بات پر برا ماننے کا تصور تو کیا معنی، الٹا شکر گزاری کا اظہار کرتا تھا،اس لیے کہ وہ یقین رکھتا تھا کہ ٹوکنے والے نے یہ کام نیک نیتی سے کیا ہے، اس لیے جو کچھ اس نے کیا، وہ ہم پر اس کا احسان ہے۔ آج صورتِ حال بالکل بدل چکی ہے۔ گیلپ کے ایک سروے کے مطابق اہلِ محلہ کے مابین چپقلش اور جھگڑے کی سب سے بڑی وجہ بچوں کا آپس کا اختلاف اور اس پر کسی بڑے کا ان کے درمیان میں آکر ٹوک یا ڈانٹ دینا ہے۔

یہی سروے اس امر کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ ہمارے یہاں خاندان کی اکائی ٹوٹنے کا تناسب اس وقت تیئس فی صد سے زیادہ ہے، یعنی ہر دس میں سے کم سے کم دو گھر ایسے ہیں جن کے افراد اپنی آزادی کے تصور یا عدم برداشت کے رویے کی وجہ سے اب اکٹھے یا مل کر رہنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ کوئی چھوٹا تناسب نہیں ہے، اس لیے کہ آگے بڑھ کر تو یہ شرح پھر ایک ہوا سی بنتی چلی جاتی ہے جو ایک کے بعد دوسرے تک پہنچتی ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ اس کی وجوہ کیا ہیں؟ یقینا کئی ایک ہوں گی، مثلاً آزادی کی خواہش اور عدم برداشت کے بعد ان میں سب سے زیادہ اہم اور بنیادی وجہ ہے ،مادی اشیا کے حصول کی، کسی مرحلے پر نہ رکنے والی خواہش اور اپنی ذات کی دوسروں پر فوقیت کا شدید احساس۔ 

یہ ہے وہ چیز جو رشتوں کو پسِ پشت ڈالنے یا ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کی ترغیب دیتی ہے۔ چاہے کسی بھی وجہ سے ہم اس کو تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ عہدِ جدید کے انسان کی ان خواہشوں اور اس کی زندگی میں موجود ترغیبات نے اس دنیاوی زندگی کے علاوہ باقی سب چیزوں سے اس کا دھیان یا تو بالکل ہٹا دیا ہے یا پھر دوسری سب چیزوں کو اتنا غیر اہم اور غیر مؤثر بنا دیا ہے کہ اس دور کے انسان ان کے بارے میں سوچنے یا اپنی زندگی میں ان کی کمی کو محسوس کرنے کی ضرورت سے بھی بڑی حد تک دستبردار ہوچکے ہیں۔

سچائی یہ ہے کہ مادی خواہشوں اور ترغیبات نے اس عہد کے انسانی سماج میں ایک طرف جرائم اور استحصال کا تناسب تشویش ناک حد تک بڑھایا ہے تو دوسری طرف اس کے دل و دماغ میں وہ توڑ پھوڑ کی ہے کہ اب اس کے جیون میں تنہائی، بے یقینی، اداسی، مایوسی، غصے، گم شدگی اور لایعنیت کے احساس کے سائے گہرے اور لمبے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ انسان طبعاً ایک سماجی مخلوق ہے اور انسان کے سماجی مخلوق ہونے کی یہ بحث ارسطو کے زمانے سے چلی آرہی ہے،تاہم دل چسپ اور غور طلب بات یہ ہے کہ ،انسان کی بیزاری کے اظہار کے باوجود عہدِ جدید کے انسان کے سماجی رجحانات کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ 

یہی وہ رجحان ہے جس کی وجہ سے آج بھی انسان کسی نہ کسی انداز سے تنہائی، ڈپریشن اور گم شدگی جیسے آسیبی سایوں سے نکلنے کا آرزو مند محسوس ہوتا ہے۔ اب طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس نوع کے کسی مسئلے سے نکلنے کے لیے اس عہد کا انسان ہاتھ پائوں تو بے شک مار رہا ہے، لیکن یہ کام وہ محض اضطراری حالت میں کر رہا ہے، کسی غور و فکر اور سمجھ بوجھ کے بغیر،اس لیے کوئی کوشش بارور اور بہتری کا باعث نہیں بن رہی۔ 

اس عہد کے انسان کی حالت اس شخص جیسی ہے جو دلدل میں دھنسا ہوا ہو اور اس سے نکلنے کے لیے وہ جتنا ہاتھ پائوں ہلا رہا ہے، اتنا ہی دھنستا جا رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مادی اشیا کے چنگل سے اپنی رہائی کے لیے وہ جو اقدام بھی کر رہا ہے، اس کا نتیجہ الٹا اس کی زندگی میں انھیں مادی اشیا کی فراوانی کی صورت میں سامنے آرہا ہے، ایسے میں بھلا خیر اور بھلائی کا کیا امکان ہوسکتا ہے۔

ہمارے یہاں حکومتی اور سماجی سطح پر ایسے ادارے اوّل تو ہیں نہیں جو سماج اور فرد کی زندگی میں بدلتے ہوئے رجحانات کا اندازہ لگائیں اور ان کے اسباب کی چھان پھٹک کریں اور تغیر و تبدل کے تناسب کو اعداد و شمار کے ساتھ سمجھنے سمجھانے کی کوشش کریں اور اگر کہیں کوئی اِکا دُکا ادارہ ہے بھی سہی تو وہ یکسر غیر فعال اور غیر مؤثر حالت میں ہے۔ افسوس یہ کام بھی ہم نے دوسروں پر چھوڑا ہوا ہے اور وہ اپنے مقاصد اور طے شدہ اہداف کو سامنے رکھ کر اس نوع کا کام کرتے اور پھر ہماری صورتِ حال سے ہمیں آگاہ بھی کرتے ہیں۔ 

ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے ہماری معاشی اور سیاسی صورتِ حال پر تو نظر رکھتے ہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ اپنے دوسرے ذرائع سے وہ ہماری سماجی، اخلاقی، تہذیبی اور انسانی کیفیات کا اشاریہ بھی مرتب کراتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے، ایسا وہ ہماری فلاح و بہبود کے لیے نہیں بلکہ اپنے ویسٹڈ انٹرسٹ کے لیے کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک اشاریے کے مطابق ہمارے یہاں اس برس میں جنسی جرائم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سترہ فی صد، ذہنی و نفسیاتی امراض میں گیارہ فی صد اور معاشی مسائل میں ستائیس فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار پریشان کن اور نہایت تشویش ناک ہیں۔ 

ایسے اشاریے کسی قوم کی موجودہ زندگی کا جو منظرنامہ سامنے لاتے ہیں، وہ صرف اس کے حال کی روداد بیان نہیں کرتا بلکہ اس کے مستقبل کا عکس بھی ایک حد تک دکھا دیتا ہے۔ ۲۰۲۲ء میں ہماری سماجی، ثقافتی، معاشی اور تہذیبی زندگی کا جو رُخ سامنے آیا ہے، وہ ترقی کی راہ پر مصروفِ سفر قوم کاہرگز نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس آئینے میں جو عکس ابھرتا ہے، وہ ایک ایسے انبوہ کا ہے جو ذہنی خلفشار ، سماجی انتشار، اخلاقی اضمحلال، تہذیبی زوال، معاشی بدحالی اور قدروں کی پامالی کے راستے پر رواں ہے۔ یہ تاریکی اور گم راہی کا سفر ہے۔ اس کی منزل تباہی اور گم شدگی ہے، تاہم ملک، قوم اور سماج کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ 

یہ عناصر کی اس دنیا کا فطری عمل ہے،البتہ جو سماج اپنے اچھے برے ہر تجربے سے سیکھنے اور اس کو سمجھ کر آئندہ کا لائحۂ عمل بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ اپنی تقدیر کا سامان کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے گزشتہ کی طرف ہمیں پوری ذمہ داری سے پلٹ کر دیکھنا چاہیے۔ اب اگر ہم بحیثیت قوم آزادی، خودمختاری اور استحکام کے رستے پر چلنا چاہتے ہیں اور اپنی آئندہ نسلوں کے بہتر اور متوازن انسانی حالت میں زندگی گزارنے کے آرزو مند ہیں تو ہمیں ان اعداد و شمار اور ان مسائل کی طرف سنجیدہ اور ہوش مندانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ 

ہمیں یہ سوچنا اور دیکھنا ہوگا کہ ہم جس کو ترقی، کامیابی اور خوش حالی کی راہ سمجھ رہے ہیں، وہ واقعی وہی راستہ ہے یا پھر ترقی کا وہ بلیک ہول ہے جس میں داخل ہونے والی ہر چیز نابود ہو جاتی ہے۔