• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں برسات کا موسم جاری ہے اور پچھلے کئی برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی زیادہ، بے ترتیب اور تیز بارشوں اورشہروں اور دیہات میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ملک بھرمیں اب تک سیکڑوں جانیں جاچکی ہیں۔ بارشوں کے باعث صرف صوبہ پختون خوا میں بیس ارب روپے سے سے زائد کا مالی نقصان ہوچکا ہے۔یاد رہے کہ رواں برس مون سون کے موسم میں یہ صوبہ اب تک سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

خیبرپختون خوا میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق حالیہ بارشوں کےباعث صوبےکےبیس محکموں کی603 سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچاہے۔بٹگرام میں سب سے زیادہ 214 سرکاری املاک تباہ ہوئیں، سوات میں97، باجوڑ میں65اور مانسہرہ میں 58 سرکاری عمارتیں متاثر ہوئیں۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق سینتیس سرکاری تعلیمی ادارے، تیراسی سڑکیں اور دس پُل مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ بارشوں کے باعث آب پاشی کے226 چینلز، 68 واٹر سپلائی اسکیمز بھی متاثر ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق محکمہ آب پاشی کو10 ارب 32 کروڑ 80 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کو 3ارب43 کروڑ80 لاکھ روپے اور محکمہ تعلیم کو ایک ارب 44 کروڑ 90 لاکھ روپے اور محکمہ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ کو21 کروڑ 70 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ذہن نشیں رہے کہ یہ صرف ایک صوبے میں ہونے والا نقصان ہے۔

ایک نظر نقصانات پر

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق بارشوں کے باعث بیس اگست تک ملک بھر میں 748افراد جاں بہ حق اور978زخمی ہوئے تھے۔ جاں بہ حق ہونے والوں میں459مرد،11خواتین اور 178 بچے شامل ہیں۔ زخمیوں میں475مرد، 243 خواتین اور 260 بچے شامل ہیں۔

اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ بیس اگست تک پنجاب میں 165، خیبر پختون خوا میں 446 اور سندھ میں 40 افراد جاں بہ حق ہو چکے تھے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں45، آزاد کشمیر میں 22 اور اسلام آباد میں 8 افراد جاں بہ حق ہوئے۔علاوہ ازیں این ڈی ایم اے کے مطابق مذ کورہ تاریخ تک بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں990مکان گرے اور 3 ہزار 898 مویشی بھی ہلاک ہوئے تھے۔

کراچی چند گھنٹوں میں بہہ گیا

ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی میں بھی برسات ہوئی اوراُنّیس اگست کو ایک ہی جھٹکے میں دس جانیں لے گئی۔مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ اس روز تیز بارش کی وجہ سے شہرجل تھل ہوگیا، سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہوئیں، بدترین ٹریفک جام ہوا، خواتین سمیت ہزاروں افراد پھنس گئے، اربن فلڈنگ کی صورت حال پیدا ہوئی، نظام زندگی مفلوج ہوگیا، شہر میں رین ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی، کرنٹ لگنے، دیواریں گرنے اور دیگرحادثات میں دو بچوں اور دو خواتین سمیت دس افراد جان سے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ بارش اور گٹر کاپانی گھروں میں داخل ہوگیا، بیش تر علاقوں میں بجلی غائب‘رہی،نوسو سے زائد فیڈر ٹرپ ہوگئے اورشہرکا بیش تر حصہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ اس صورت حال میں شہری انتظامیہ غائب رہی۔

کراچی میں ترقیاتی کاموں اور گیس کی لائنیں بچھانے کے لیے جگہ جگہ کی گئی کھدائی نے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے، سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہو گئیں ‘ بلدیاتی ادارے بر وقت پانی کی نکاسی نہ کر سکے‘بجلی کا نظام مفلوج ہوکررہ گیا‘مرکزی شاہ راہوں کے ساتھ اندرونِ شہر اور آبادیوں کی اندرونی گلیاں کئی کئی فیٹ پانی جمع ہونے سے زیرآب آگئیں۔

گلشن حدید فیزون اورقائدآباد کے قریب گھروں میں بارش کا پانی داخل ہوگیا۔ شاہ راہ فیصل پر نرسری کے قریب گاڑیاں پانی میں تیرتی رہیں۔ لیاقت آبادڈاک خانے سے تین ہٹی جانے والی ایس ایم توفیق روڈ جگہ جگہ دھسنے سے متعد گاڑیاں پھنس گئیں۔ لیاقت آباد، چوناڈپو کے قریب سڑک مکمل زیرآب آگئی اور ٹریفک معطل ہوگیا۔

شمالی ناظم آباد، لنڈی کوتل چورنگی کی سڑک کا ایک حصہ بھی دھنس گیا۔ لیاقت آباد، ناظم آبادسمیت دیگر انڈر پاسز میں پانی بھر گیا۔ ملینیم مال سےنیشنل اسٹیدیم جانے والی سڑک پر فیصل کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے میں ڈالمیا روڈ اور قریبی آبادی کا پانی آنے سے نہر کا منظر پیش کر رہی تھی۔

اس کا ایک ٹریک ٹریفک کے لیے کئی گھنٹے بند رہا۔جوہر چورنگی کے اطراف کی سڑکیں پانی سے بھر گئی تھیں، لیکن کنٹونمنٹ کا عملہ مکینوں کو کہیں نظر نہیں آیا۔ پانی جمع ہونےکے باعث گاڑیاں، موٹر سائیکلیں بند ہو گئیں۔ شہری دھکے لگانے پر مجبور رہے۔

دن بھرو قفے وقفے سے جاری رہنے والی بارش سے شمالی ناظم آباد، ناظم آباد اوربفر زون کے تمام بلاک شیر شاہ سوری روڈ سمیت کے ڈی اے، فائیو اسٹار، سخی حسن اور ناگن چورنگی ہمیشہ کی طرح مکمل ڈوب گئیں اور ٹریفک معطل ہوگیا۔شمالی کراچی، سرجانی ٹاؤن اور اطراف میں بھی مسلسل بارش نے جل تھل کر دیا تھا۔ سائٹ کے علاقوں میں نالوں میں طغیانی سے سڑکیں زیرآب آگئیں‘ یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن منصوبے کے باعث بچنے والےٹریک بارش کے پانی میں ڈوبے رہے۔

کورنگی، کلفٹن، منظور کالونی، قیوم آباد، اختر کالونی ، ڈیفنس موڑ صدر اور کوریڈور نمبر تین، بنارس، علی گڑھ کالونی میں بارش کا پانی جمع ہو گیا۔ قصبہ کالونی،ایم اے جناح روڈ پر حدنگاہ پانی ہی پانی رہا، اولڈسٹی ایریاکی گلیاں بھی ڈوب گئیں۔شہر کے بڑے علاقے کو بجلی کی فراہمی پہروں معطل رہی ۔کے الیکٹرک کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ 2100 میں سے 450 فیڈر بند ہوگئے تھے۔

اُس ایک روز کی بارش سے کراچی کی سڑکوں پر شہری کئی گھنٹے پانی کی نکاسی نہ ہونے کے باعث پھنسے رہے اور انٹرنیٹ اور بجلی کی عدم فراہمی نے بھی لوگوں کو کوفت میں مبتلا کیے رکھا ہے۔ایسے میں شہر کے میئر، مرتضی وہاب نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں لگ بھگ235ملی میٹر بارش ہوئی ہے اور ہمارے پاس 40 ملی میٹر بارش کی گنجائش ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس روز کراچی میں ہونے والی بارش ’’غیر معمولی‘‘ تھی۔ 

یاد رہے کہ پاکستان میں رواں سال مون سون کا موسم ملک کے اکثر علاقوں میں غیر معمولی رہا ہے۔ چناں چہ ایک جانب خیبرپختون خوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اربن فلڈنگ، لینڈ سلائیڈنگ اور بادل پھٹنے سے مختلف واقعات میں سیکڑوں اموات ہو چکی ہیں، وہیں اُنّیس اگست کو کراچی میں ہونے والی بارش سے مختلف حادثات میں دس افرادجان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کراچی کا نوحہ

کراچی میں بارش سے پیدا ہونیوالی اربن فلڈنگ میں شہریوں کوجس اذیت ناک صورت حال سے دو چار ہونا پڑاس سےاندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تمام حکومتی اداروں جن میں پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ، ریسکیو 1122، کراچی کی انتظامیہ، کمشنر،ڈپٹی کمشنرز، بلدیاتی اداروں، کے ایم سی، ٹاونز، یو سیز، ساتوں کنٹونمنٹ بورڈز ،سوک ایجنسیز،کے ڈی اے، واٹر کارپوریشن ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے کی لوگوں کو ریلیف دینے کے حوالے سے کوئی تیاری نہ تھی۔ اُس روز بھی بد انتظامی عروج پر دیکھنے میں آئی۔

کے ایم سی اور ٹاؤنز کا عملہ اور مشینری سڑکوں پرکچھ کام کرتی نظر آئی، لیکن ان کی تیاری بھی بارش کی پیش گوئی کے مطابق نہ تھی۔ ان کے پاس دست یاب وسائل سے صورت حال کنٹرول نہیں ہو سکتی تھی۔ 

سوملی میٹر سے زیادہ بارش کے حوالے سے کوئی پلان نہ تھا۔ کراچی میں جتنی بڑی تعداد میں الگ الگ کنٹرولنگ اتھارٹیز قائم ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام اداروں کو کسی ایک چین آف کمانڈ کے ماتحت کیا جائے۔ اس روز کراچی میں حکام کے ناقص انتظامات کھل کر سامنے آ گئے۔

کئی جگہوں پر سڑکوں پر گہرے گڑھے اور ٹوٹ پھوٹ بھی نمایاں ہوئی۔ قیوم آباد چورنگی پر مسلسل پانی جمع رہنے کے باوجود نکاسی آب کے لیے جدید مشینری استعمال کرنے کے بجائے جھاڑو اور پوچھوں سے پانی نکالا جا رہاتھا۔ سینیٹری ورکرز کو اس کام کے عوض صرف پانچ روپے یومیہ اجرت دی جا رہی ہے۔

دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ جدید دور میں بھی نکاسی آب کے لیے پرانے اور ناکافی طریقے استعمال ہونا انتظامیہ کی ناکامی ہے جس کے باعث کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش کا پانی کھڑاہے اور معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

شہر کی اس ناگفتہ بہ صورت حال پر تاجر بھی خاموش نہ رہ سکے۔ چناں چہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر، محمد جاوید بلوانی اور بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے شہر میں بارشوں کے بعد پیدا ہونے والے سنگین بحران پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت فوری طور پر کراچی میں ہنگامی حالت کا نفاذ کرے ، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کو مؤخر کیا جائے۔ 

ایک بیان میں ان کا کہنا تھاکہ موسلا دھار بارشوں نے کراچی بھر میں تباہی مچا دی ہے، شہر کے ہر کونے کو مفلوج کر دیا ہے اور شہریوں کو ناقابلِ برداشت مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی معیشت کا انجن ہونے، قومی خزانے میں سب سے بڑا حصہ ڈالنے اور پورے ملک کو سہارا دینے کے باوجود کراچی کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے، امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور شہر کے بوسیدہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے بہت قلیل سرمایہ لگایا جاتا ہے۔

بارشوں سے تباہی کے واقعات ملک کے دیگر حصوں، جیسے خیبرپختون خوا اور گلگت بلتستان میں بھی دیکھنے میں آئے جہاں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔ لیکن کراچی میں اربن فلڈنگ کا مسئلہ اپنے آپ میں کئی حوالوں سے منفرد ہے جو خراب منصوبہ بندی اور غیر منظم ترقی کی وجہ سے بڑھا ہے۔میئر نے اس تباہی کی وجہ ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ کو قرار دیا ہے۔ 

اگرچہ موسمیاتی تبدیلی، غیرمعمولی موسمیاتی خرابی اور گلوبل وارمنگ کی ذمّےدار ہے، لیکن اسے کراچی کی حالتِ زار کا واحد سبب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیوں کہ ہر سال مون سون کے بادل آتے ہی ہمیں شہر میں یہی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔

سیلاب سے بھری سڑکیں، گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے ہوئے لوگ اور گھٹن زدہ موسم میں طویل عرصے تک بجلی کی بندش۔ منگل کے اسپیل کے کچھ نتائج تھے۔ یقیناً اس بار شہر کے بہت سے حصوں میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں، لیکن اس سے قبل بھی نسبتاً کم بارشوں نے بھی شہری زندگی کے پہیے کو جام کیا۔

خستہ حال اور خانماں بربادکراچی کے بارے میں سپریم کورٹ اور آزاد شہری ماہرین سے لے کر سوشل میڈیا پر اظہارِ برہمی کرتے لوگوں تک، سب ہی نے اس حقیقت پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ کراچی میں مناسب نکاسیِ آب کا نظام نہیں ہے اور یہ کہ مون سون سے متعلق تباہی ہر سال کا معمول بن چکی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے حل طلب ہے اور اس کا الزام صرف موجودہ حکومت کو دینا ناانصافی ہوگی۔ یکے بعد دیگرے آنے والی انتظامیہ نے کراچی کو نظرانداز کیا یا شاذو نادر اس کے شہری مسائل پر لب کشائی کی، کیوں کہ تجاوزات اور زمین پر قبضہ کرنے والوں نے اس کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔

کراچی کے شہری مسائل بہ شمول ناقص نکاسیِ آب پے چیدہ ہیں اور کئی دہائیوں سے نظر انداز کیے جانے کو ہفتوں یا مہینوں میں دور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن شروعات شہر کے اہم مسائل، بنیادی طور پر ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے، پانی کی فراہمی، کام کرنے والا سیوریج سسٹم، زمین کا منصفانہ انتظام وغیرہ سے ہونی چاہیے جو سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ 

شہر کے منتظمین اور آزاد ماہرین کو یہ مسائل حل کرنا چاہییں۔ اس کے علاوہ ایک بہتر بلدیاتی نظام جو مقامی مسائل فوری حل کرے اور لوگوں کو جواب دہ ہو، کراچی کے شہریوں کی پریشانیوں کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے، کیوںکہ کراچی میں زمین کو کنٹرول کرنے والے متعدد ادارے بھی شہری نظم و نسق کوپے چیدہ بناتے ہیں۔

بڑھتے خطرات

حالیہ صورت حال نے موسمیاتی خطرات کے مقابل پاکستان کی کم زور حالت کو ایک مرتبہ پھر آشکار کر دیا ہے۔ 2022میں مون سون کی غیرمعمولی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے بدترین سیلاب نے 1,700 جانیں لیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، پانی کے نظام تباہ ہوگئے اور لاکھوں لوگوں کو امداد کی اشد ضرورت درپیش رہی۔

اس آفت نے ملک کو تقریباً40 ارب ڈالرن کا نقصان پہنچایا اور ترقی کے شعبے میں کئی سال کی محنت اکارت گئی۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدت اختیار کر جانے والی مون سون کی بارشیں پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیا کو ہر سال بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ براعظم ایشیا عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے اور اس شرح میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ گرمی میں اضافے سے لوگوں کی زندگیاں اور روزگار بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور اس صورت حال سے خطے کا کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ہے۔

ادارے کی سیکردٹری جنرل سیلیسٹ ساؤکے مطابق ایشیا میں موسمی شدت کے واقعات ناگوار طورسے لوگوں پر انتہائی شدید اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ قدرتی آفات میں زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے قومی سطح پر موسمیاتی اور آبی خدمات کے شعبے اور ان کے شراکت داروں کا کام بہت اہمیت رکھتا ہے۔

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں شدید گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، جنگلوں میں لگنے والی آگ اور ناقص فضائی معیار اس بحران میں اضافہ کر رہا ہے۔ ادارے کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق 2000 اور 2019 کے درمیانی عرصے میں شدید گرمی کے نتیجے میں سالانہ 489,000 اموات ہوئیں جن میں 36 فی صد یورپ اور 45فی صد ایشیا میں ریکارڈ کی گئیں۔شہروں میں صحت پر گرمی کے اثرات کہیں زیادہ سنگین ہیں، کیوںکہ گنجان آباد علاقوں میں کئی عوامل کی بنا پر گرمی کی شدت دیہات کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ شہروں میں ترقی اور آبادی بڑھنے کے نتیجے میں یہ مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

خوف ناک تصویر

اگر ہم اسی طرح چلتے رہے تو زراعت، توانائی اور پانی کے انتظام میں تبدیلی کی سرمایہ کاری کیے بغیر، پاکستان کے زرعی اور صنعتی شعبہ جات میں 2047ء تک جی ڈی پی میں 17 فی صد کی کمی ہو سکتی ہے۔2022ء کے سیلاب نے پاکستان کی جی ڈی پی میں8فی صد کی کمی کی ۔پاکستان میں غربت کو کم کرنے کی تمام تر کوششوں پر پانی پھیرنے کے لیے جی ڈی پی میں نو فیصد کمی کافی ہوگی۔ اگر موسمیاتی خطرات جیسے ہیٹ ویوز اور سیلاب کا سلسلہ جاری رہا تو ملک کی سالانہ اقتصادی پیداوار میں 18 فی صد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

فضائی آلودگی جو خطرناک حد تک ناقص ہوا کے معیار کے ساتھ بہت سے شہروں کو بری طرح متاثر کرتی ہے، جی ڈی پی میں مزید4فی صد کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ ایک بڑا ہندسہ ہے جس کے نتائج تمام شعبہ جات میں محسوس کیے جائیں گے۔ وسائل میں مزید تناؤ، ترقی میں رکاوٹ اور صحت عامہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

میکرو لیول پر موسمیاتی واقعات اور قرضوں کا امتزاج غریب ترین طبقات پر بھاری بوجھ ڈال سکتا ہے جس سے ان کے لیے بقا کی جدوجہد مشکل ہوجائے گی۔بے عملی یا سست اصلاحات کے اخراجات بڑھ سکتے ہیں۔ اگرچہ کوئی بھی یقین کے ساتھ مستقبل کی پیش گوئی نہیں کر سکتا لیکن موسمیاتی تناؤ کے وسیع منظرنامے پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔

حل اور راستہ

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق متوقع سالانہ نقصانات ہر سال 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی رقم ہے جو پاکستان کی ترقی کے پہیے کو پٹری سے اتار سکتی ہے، موسمیاتی لچک، ترقی کے اہداف اور اقتصادی استحکام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جس سے پاکستان زیادہ موافق طاقت بننے کی اپنی کوششوں سے دور ہوسکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو تخلیقی، گھریلو موسمیاتی مالی معاونت کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ حل ممکن ہے لیکن اس کے لیے ایک معاون ریگولیٹری ماحول اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو جدت کو فروغ دے۔ بہت سے حل مقامی ہونے چاہییں جو پاکستان کی مخصوص ضروریات اور چیلنجز کے مطابق ہوں۔

عالمی بینک کے مطابق پائے دار ترقی اور صحت کے لیے پاکستان کو 2030ء تک348ارب ڈالر زکی ضرورت ہوگی۔ یہ ملک کو درپیش بے پناہ مالی اور قرض کے چیلنجز کو اجاگر کرتا ہے جوکہ عوامی اور توانائی کے شعبہ جات میں مسائل سے پیچیدہ ہیں۔ کچھ اندازے بتاتے ہیں کہ 2050ء تک، پاکستان کو آب و ہوا سے ہونے والے نقصان کی سطح تیرہ کھرب ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔

قدرتی آفات ۔بہت سے آنسو روکے جاسکتے ہیں

قدرتی آفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بتا کر نہیں آتیں۔ لیکن سائنس کی ترقی کے باعث آج ان میں سے بعض کے بارے میں کسی حد تک پیش گوئی کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ تاہم یہ ایک علٰیحدہ بحث ہے کہ کوئی قدرتی آفت آنے سے کتنی دیر پہلے پیش گوئی کرنا ممکن ہے اور اس کی روشنی میں کس حد تک ممکنہ نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

سائنس دانوں، محققین اور ماہرین ماحولیات کے مطابق کوئی بھی قدرتی آفت آنے سے پہلے کئی مخفی اور کئی عیاں علامات کا اظہار کرتی ہے۔ ان میں سے بعض کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی اور بعض کو آج سائنسی سہولتوں کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود انسان آج تک اس قابل نہیں ہو سکا ہے کہ وہ تمام قدرتی آفات آنے سے قبل ان کے بارے میں پیش گوئی کر سکے۔

یہ بھی انسان کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ کوئی قدرتی آفت کو آنے سے روک سکے۔ البتہ ان کے بارے میں جو اشارے سمجھے جا سکتے ہیں انہیں مدنظر رکھ کر اور آفات سے نمٹنے کی تیاری کر کے ہم ممکنہ نقصانات کم کر سکتے ہیں اوربہت سے بہت سے آنسو روکے جاسکتے ہیں۔

قدرتی آفت دراصل فطری خطرات کے اثرات کا دوسرا نام ہے جو ہمارے ماحول پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جانی، مالی اور ماحولیاتی نقصانات ہوتے ہیں۔ یہ فطری خطرات،بہت زیادہ بارشیں، سیلاب، ہوا کے طوفان، سمندری طوفان، آتش فشانی، زلزلہ یا تودے گرنا یا زمین کا سرکنا وغیرہ ہیں۔

ان کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا دارومدار اس علاقے میں آباد لوگوں کی جانب سے ان خطرات سے نمٹنے، ان کے خلاف مزاحمت کرنے یا ان کا معاون بننے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک سادہ سا کلیہ بیان کیا جاتا ہے جو کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے: ’’قدرتی آفت اس وقت آتی ہے یا تباہی پھیلاتی ہے جب خطرات کی سطح بہت بلند ہو جاتی ہے۔‘‘ 

چناںچہ کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی فطری خطرہ اس علاقے میں بہت زیادہ تباہی پھیلاتا ہے جہاں خطرات کی سطح بلندی تک جا پہنچی ہو۔ مثلاً بہت شدید زلزلہ اگر کسی غیرآباد علاقے میں آتا ہے تو وہاں مالی اور جانی نقصانات کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ بہت سے فطری خطرات کا سبب انسان کی فطرت کے خلاف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں آج کل بہت زیادہ قابل ذکر بات عالمی حدت میں اضافہ ہے ۔

اس اضافے کا سبب گرین ہاؤس گیسز کا زیادہ اخراج بتایا جاتا ہے جو کارخانوں، گاڑیوں اور دیگر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے دنیا بھر میں موسم بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہم چند برس قبل پاکستان میں آنے والے ملکی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب کی صورت میں کر چکے ہیں۔