آج کی دنیا میں جب اطلاعات کا ایک سیلاب ہے، خبر حاصل کرنے کے لاتعداد ذرائع موجود ہیں، سوشل میڈیا ایک ’’سونامی‘‘ کی مانند آگے بڑھ رہا ہے، اس آزادی نے آج آپ کو زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ آج آپ کے ہاتھ میں اسمارٹ فون آپ کے قتل کا موجد بھی بن سکتا ہے اور قاتل تک پہنچنے کا ذریعہ بھی۔ کینیا کے شہر نیروبی میں صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کا بہیمانہ قتل ہوا تو سب سے پہلے اس کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ ’’ادھر ادھر‘‘ کیا گیا جو اب تک ہماری تحقیقاتی ٹیم کے غالباً ساتھ نہیں آسکا، چند سال پہلے صحافی سلیم شہزاد کو اسلام آباد سے اغوا اور قتل کیا گیا تو اس میں بھی اغوا کرنے میں موبائل کے ذریعہ لوکیشن تبدیل کی گئی، پھر اس کی تلاش بھی اسی طرح کی گئی۔میرے نزدیک ارشد شریف اور ناظم جوکیو کا قتل اس سال کا سب سے اہم واقعہ ہے، کم از کم صحافتی حوالوں سے۔
اہم بات یہ ہے کہ الگ الگ ہی صحیح دونوں معاملات میں کہیں نا کہیں سیاست کا عمل دخل ہے۔ جوکیو کو ایک ویڈیو بنانے کے جرم میں بااثر وڈیرہ نے قتل کیا۔ مبینہ قاتل پکڑا بھی گیا، فرار بھی ہوا اور پھر ان آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ حکمران جماعت پی پی پی کے لوگوں نے اسے ہار بھی ڈالے کیونکہ ایک ایم پی اے کو بچانا مقصود تھا۔ارشد شریف کا قتل بہت بڑا واقعہ ہے۔
وہ نا صرف ایک اپنے انداز اور مزاج کا صحافی تھا مگر جن حالات میں اسے ملک چھوڑنا پڑا اس نے ہماری صحافت، سیاست اور ریاست پر ان گنت سوالات اٹھا دیے ہیں۔ موت اس کو ایک ایسے ملک میں اور شہر میں لے گئی جہاں قتل و غارت گری، پولیس گردی اور انڈر ورلڈ کا راج ہے۔ اسی وجہ سے یہاں ہونے والی وارداتیں، حادثات سے تعبیر کی جاتی ہیں۔
90ء کی دہائی میں کراچی میں ماورائے عدالت قتل عام میں یہی تھیوری اپنائی گئی تھی۔ شاید ارشد کو راستے سے ہٹانے والوں کے پیش نظر بھی یہی ہوا، مگر کبھی کبھی ’’لہو‘‘ خود گواہی دیتا ہے، مارنے والوں کی بھی اور سازش کرنے والوں کی بھی۔ اب اگر آپ کہانی کو الجھانا چاہیں تو الگ بات ہے، ورنہ چار پانچ افراد کے بشمول ارشد کے موبائل ڈیٹا حاصل کرلیں، نام بھی سامنے آجائیں گے اور وجہ قتل بھی۔ مجرم تو ماضی میں نشانات چھوڑ جاتے تھے، آج کی دنیا میں قتل کرنا بھی آسان ہوگیا اور قاتل تک پہنچانا بھی… اگر ہم پہنچنا چاہیں تو…
ویسے تو پاکستان کئی سالوں سے صحافیوں کے لیے قتل گاہ بنا ہوا ہے کہ ہر سال ہی چار پانچ صحافی اپنی پیشہ ورانہ کاموں کی وجہ سے مارے جاتے ہیں مگر اس سال کا ایک افسوس ناک واقعہ خاتون صحافی صدف نعیم کا ہے۔
رپورٹنگ ایک ایسا نشہ ہوتا ہے کہ رپورٹر خبر کی لگن میں خالی پیٹ بھی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ مہینوں تنخواہ نہ ملنے کے باوجود وہ لانگ مارچ کی کوریج پر گئی اور کنٹینر کے نیچے آگئی۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹس نے اپنی رپورٹ میں اسے انتہائی مجرمانہ غفلت قرار دیا ہے اور خاصی حد تک ادارہ کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ نہ اس کی کوئی ٹریننگ تھی، نہ اس کو کوئی ٹرانسپورٹ دی گئی اور نہ ہی اس حادثہ کے بعد حکومت نے امداد کا اعلان کیا مگر جس ادارہ کے لیے جان گئی وہ خاموش رہا۔ پی یو جے کی 6 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کئی تجاویز بھی شامل ہیں۔
صدف نعیم کی طرح کئی ہمارے رپورٹرز ٹریننگ نہ ہونے کی و جہ سے اس قسم کے حادثات کا شکار ہوجاتے، کبھی وہ جان سے جاتے ہیں تو کبھی زندگی بھر کی معذوری، ایسے کم از کم دو کیس میرے سامنے ہیں۔ ایک کو اسلام آباد میں کئی سال پہلے لال مسجد میں دوطرفہ فائرنگ میں گولی لگی اور وہ زخمی ہوا، معذوری کا سامنا کرنا پڑا مگر چونکہ وہ ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی میں کام کرتا تھا، ادارہ نے اس کا پورا خیال رکھا اور پوری تنخواہ اس کو ادا کرتا رہا۔ دوسرا کیس کراچی میں ایک مذہبی اجتماع میں خودکش بم دھماکے میں مقامی اخبار کا رپورٹر شدید زخمی ہوا، اس کے جسم کا ایک حصہ پوری طرح متاثر ہوا، اورایک آنکھ بھی، نوکری برقرار رکھنا تو دور کی بات، ادارہ نے دو پیسے بھی ادا نہیں کیے۔
ارشد شریف ایک مقبول شو کا میزبان تھا۔ اس کے انداز صحافت پر دو رائے تھیں کیونکہ اس نے اپنے شوز میں کئی صحافیوں پر بھی سنگین الزامات عائد کیے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے قتل اور ملک چھوڑنے کا تعلق اس کے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف اور شاید حد سے زیادہ تحریک انصاف اور عمران خان کے قریب ہونے سے ہے۔ مسلم لیگ (ن) پر تو وہ ماضی میں بھی شدید تنقید کرتا تھا مگر اس دور میں ہی آخر کیوں اس پر بغاوت اور غداری کے مقدمات بنائے گئے۔
اس کے قتل کی تحقیقات ابھی جاری ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ وہ یہاں اپنی زندگی کو خطرہ میں دیکھ رہا تھا مگر بدقسمتی سے موت اس کو ایک ایسے ملک لے گئی جہاں قتل کرنا آسان اور بچنا اور بھی آسان سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں دی نیوز کے ایک سب ایڈیٹر ساجد بلوچ کا قتل کینیڈا میں چند سال پہلے ہوا تھا مگر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی، اسی طرح کچھ سوشل میڈیا اور مختلف گروپس میں سرگرم پاکستانیوں کے قتل نے بھی سنجیدہ نویت کے سوالات اٹھائے ہیں۔
کیا اپنی نویت کا یہ منفرد واقعہ جس نے نہ صرف پاکستان میں صحافی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دنیا کے انتہائی خطرناک ترین ممالک میں لا کھڑا کیا ہے جہاں صحافت آسان نہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سازش، قتل کبھی بے نقاب ہوگا یا بس یہ کہیں گے۔ ’’بے گناہ کون ہے، اس شہر میں قاتل کے سوا‘‘ یا یوں کہیں گے کہ، قاتل نے کس صفائی سے دھوی ہے آستین اس کو خبر نہیں لہو بولتا بھی ہے۔
کسی بھی قتل کی تحقیقات اگر تاخیر سے شروع ہوں یا اس میں خود شک کی ابتدا خود پولیس سے ہو تو سمجھ لیں اس کا فوری فائدہ ہمیشہ مجرم کو ہوتا ہے۔ ارشد کے قتل کا تعلق بادی ا لنظر میں پاکستان میں اس کے شو ’’پاور پلے‘‘ سے لگتا ہے۔ اسلام آباد سے نیروبی تک کے سفر کے دوران اس کے رابطے کس کس سے رہے اور کیا رہے، جاننا ضروری ہے۔ وہ ایسے ملک کیوں نہ گیا جو زیادہ محفوظ تصور کیے جاتے ہیں، ویسے تو دبئی کے ویزہ میں توسیع کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا، نہ لندن کا ویزہ ،تو نیروبی کیوں، پھر جن میزبانوں کے پاس وہ ٹھہرا یا ٹھہرایا گیا ان کا کردار کیا تھا، اس سارے معاملے میں یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں ابھی کچھ آنا باقی ہے مگر اس سب کے پیچھے کون ہوسکتا ہے اور آخر اس حد تک جانے کے فیصلے تک پہنچنے کی اصل وجوہات جاننا بہت ضروری ہیں، جو کچھ نیروبی میں ہوا، اس سے قتل کا پتہ اور قاتل کا پتہ تو چل سکتا ہے مگر سازش کے اصل کرداروں کا نہیں۔ مقدمہ تو بہت دور کی بات ہے، اب تک تو جس پولیس کے پاس یہ کیس ہے وہ تو آج تک یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ یہ ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ ہے۔ آج کی تحقیقاتی دنیا میں قاتل اور سازش تک پہنچنا اتنا مشکل نہیں مگر اس وقت تو ارشد کا موبائل اور لیپ ٹاپ بھی ان ہی کے قبضہ میں ہیں۔
اس واقعہ میں خرم اور وقار جو بظاہر میزبان کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ ملزم نہیں تو اہم ترین گواہ ضرور ہیں اور پورے واقعہ کے عینی شاہد بھی۔ اب اگر وہ ملوث نہیں تو دونوں کی جانوں کو شدید خطراہ لاحق ہیں کیونکہ قاتل بہرحال اپنی تمام نشانیاں مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔مگر ارشد کی کہانی دبئی یا نیروبی سے نہیں اسلام آباد سے شروع ہوتی ہے، اس پہلو کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ پچھلے چھ مہینوں میں اس پر قائم ہونے والے مقدمات جن میں بغاوت کے کیس بھی شامل ہیں۔ ریاست کی مدیت میں درج ہوئے یا مدعتی دوسرے افراد تھے اور وہ کون لوگ تھے۔ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ یہ مقدمات ایسے شہروں میں بھی قائم ہوئے جہاں وہ کبھی گیا ہی نہیں تھا۔
یقینی طور پر وہ موجود حکومت کے سخت ترین ناقدوں میں سے تھا۔ حکومت کا ناقد ہونا ایک بات ہوتی ہے مگر وہ ریاست کے بھی چند کرداروں کے خلاف کھل کر بولنے لگا تھا ، اس دوران وہ پاکستان تحریک ا نصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب ہوگیا تھا۔ یہ بھی ہماری آج کی صحافت کی بدقسمتی ہے کہ صحافی بھی جماعتوں می بٹ گئے ہیں مگر مسلم لیگ کے ناقدین میں پہلے بھی اس کا شمار ہوتا تھا، پھر بھی غالباً پچھلی (ن) لیگ کی حکومت نے اس کے خلاف مقدمات قائم نہیں کیے۔
اس کیس کا اہم ترین پہلو ارشد کے وہ خدشات ہیں جس کا اظہار ا س نے اپنے خطوط میں کیا ،جو صدر مملکت اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجے گئے۔ سوال یہ ہے، ان خطرات پر کوئی تحقیق کیوں نہیں ہوئی اور اگر ہوئی تو منظرعام پر نہ سہی کم از کم ارشد کی فیملی کو تو پتہ ہونی چاہیے تھی۔ اس کی جان کو خطرہ تھا اور خدشات کا اظہار بھی کردیا تھا تو پھر کوئی کارروائی کیوں نہ ہوئی، کیا کسی نے اس کو سیکورٹی آفر کی تھی، یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آنا ضروری ہے۔ تیسرا اہم پہلو جو اس تحقیقات سے جڑا ہونا چاہیے وہ اس چینل کا ہے، جس میں وہ کام کرتا تھا، یعنی ARY، بظاہر چینل کی پالیسی پروPTI نظر آتی ہے مگر اس میں ٹاک شوز کرنے والے تمام اینکرز ایک جیسا شو نہیں کرتے۔
یہ بات ہمیں پھر اس بحث کی طرف لے جاتی ہے کہ میڈیا کی تقسیم کے اثرات اور خطرات کا نشانہ کئی بار صحافی بنتے ہیں۔ اب اگر ارشد نے چینل کے مالک سلمان اقبال صاحب کو ان خطرات سے آگاہ کردیا تھا اور انہوں نے اس کو ملک چھوڑنے میں مدد کی تو یہ تو ذمہ داری کا کام کیا کہ اپنے دفتر میں کام کرنے والے دو اہم اینکر کو جانے کی اجازت بھی دی اور مدد بھی کی۔ یہ تو ہر میڈیا ہائوس کا فرض ہے کہ اپنے صحافیوں کو نہ صرف تحفظ دیں، ٹریننگ دیں، لائف انشورنس دیں بلکہ اس طرح کے واقعات کی صورت میں اس کے اہل خانہ کی مدد بھی کریں۔ اب اس کے علاوہ کچھ ہے تو وہ کم از کم میرے علم میں نہیں لیکن مجھے یقین نہیں کہ کوئی اور رول ہوسکتا ہے۔ بہرحال ابھی بہت کچھ آنا باقی ہے، لہٰذا کوئی باب اور نتائج قبل او وقت ہیں۔
اب اگر پاکستان اور کینیا کے درمیان ملزم کو حوالے کرنے کے بارے میں مشترکہ تحقیقات کا کوئی معاہدہ ہے یا نہیں جوکہ اہم پہلو ہے۔ ارشد بھی پاکستانی، خرم اور وقار بھی پاکستانی مگر واردات نیروبی میں ہوئی۔ ارشد کا موبائل اور لیپ ٹاپ مل جائے تو مکمل ڈیٹا مل سکتا ہے۔ شاید آج کی نئی انفارمیشن اور ڈیجیٹل دنیا میں بڑی بڑی تحقیقات باآسانی شواہد جمع کرسکتی ہیں، اگر کرنا چاہیں۔
ہمارے سامنے کئی مثالیں ہیں۔ ایک زمانے میں پرنٹ میڈیا میں کامران خان کا بڑا نام تھا اور ایک خبر پر انہیں چاقو مارکر زخمی کردیا گیا تھا۔ اس طرح اسی زمانے میں غلام حسنین کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا۔ البتہ انہیں اغوا کرکے وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا، جس کی ایک وجہ اسی دن امریکی صحافی ڈینیل پرل کا اغوا تھا، جسے بعد میں بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ حالیہ سالوں میں تحقیقاتی رپورٹر عمر چیمہ، احمد نورانی ، صحافی مفتی اللہ جان، اسد طور اور ابصار عالم بھی نشانہ بنے۔ ہم تو آج تک ماضی میں شہید ہونے والے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکے تو حامد میر یا دیگر پر حملہ کرنے والوں کو کہاں پکڑ پائیں گے، مگر یہاں بات سال2022ء میں ہونے والے واقعات کی ہے۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ اگر قاتل پکڑ لیے جائیں تو انہیں آزاد کرانے میں، سہولتیں دلوانے میں حکومتیں آگے آگے نظر آتی ہیں۔ صحافی ناظم جوکھیو کا کیس ایسا ہی ایک کیس ہے۔ کس طرح ایک ایم پی اے کو بچانے کے لیے پی پی پی کی قیادت اور سندھ حکومت آگے نظر آئی۔ مبینہ ملزم کا استقبال پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے اور ہار پہننا کر کیا گیا۔ کیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سیشن کورٹ کو منتقل ہونا ہی تھا، ایک غریب خاندان بااثر افراد کا کہاں سے مقابلہ کرتا، ماں ہو یا بہو، پھر حکومت بھی مظلموں کے ساتھ ہونے کے بجائے ظالموں کے ساتھ کھڑی ہو تو ’’دیت‘‘ کے نام پر رقم مل ہی جاتی ہے۔ اب یہ بھی ایک طریقہ تلاش کرلیا گیا، بااثر افراد نے ’’دیت‘‘ کے نام پر رقم دے دو اور قاتلوں کو آزاد کرالو۔ ریمنڈ ڈیوس سے لے کر ناظم جوکھیو کے واقعہ تک، ہمیں تو تماشہ لگ رہا ہے۔
پچھلے سالوں کی طرح یہ سال بھی صحافی ہی نہیں صحافت کے لیے بھی مشکل تھا،یہ الگ اور اہم بات ہے کہ خود صحافت بھی اپنا اعتبار کھو رہی ہے۔ پہلے صحافت میں چند ایک ہی کالی بھیڑیں ہوتی تھیں، اب بس کچھ ہی ہیں، اب صحافت اس بھیڑ چال میں کرنی ہے۔ جتنا آپ اپنا دامن بچا سکتے ہیں بچالیں۔ دوسرے یہ کہ صحافی سیاسی کا رکن بھی بنتے جارہے ہیں۔
کوئی چیک اینڈ بیلنس اس لیے قائم نہیں ہو پارہا کیونکہ درجنوں تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں۔ PFUJجیسی معتبر تنظیم جو پہلے ایک تھی، پھر دو ہوئیں اور اب ’’ماشاء اللہ‘‘ سے چار یا پانچ ہیں، ان کو یکجا کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں گیں، مفادات آڑے آجائیں تو بہت مشکل ہوتا ہے اسے ختم کرنا، یہ ہی حال اخباری کارکنوں کی یونینوں کا ہوکر رہ گیا ہے۔
یہ ساری علامات حکومتوں اور ریاست کو سوٹ کرتی ہیں، تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ جمہوری ادوار میں بھی قوانین ایسے لائے جارہے ہیں جن میں پابندی کا عنصر زیادہ اور کسی متفقہ ضابطوں میں لانا کم لگتا ہے۔ سال 2022ء بھی2021ء کی طرح میڈیا پر ،صحافیوں پر دبائو کے حوالے سے اچھا نہیں رہا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بہت سے ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں کہ حکومت کے نہ چاہتے ہوئے بھی ہوجاتے ہیں اور حکومت کو انہیں تسلیم کرنا پڑ جاتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ صحافیوں کو دھمکیاں، چینلوں کا اچانک آف ایر ہوجانا، پیمرا کے جائز و ناجائز نوٹس، کبھی اخلاقیات کے نام پر تو کبھی سیاسیات کے نام آج بھی جاری ہوتے ہیں۔ کل اگر طلعت حسین، حامد میر، نصرت جاوید مشکل میں تھے تو2022ء میں ایسا ہی کچھ کبھی ایاز میر صاحب کو تشدد کی صورت میں بھگتنا پڑا تو کبھی عارف حمید بھٹی، صابر شاکر، عمران ریاض کو فیس کرنا پڑا۔
بات یہاں تک بھی رہ جاتی تو ٹھیک تھا، صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے اس میں بدقسمتی سے حکومت کم اور سیاسی جماعتوں کا کردار زیادہ نظر آتا ہے، جس میں پاکستان مبینہ طور پر تحریک انصاف کا نمایاں رول نظر آتا ہے۔ اب اس کا کیا کریں کہ خود عمران خان جیسے مقبول لیڈر بھی بنا ثبوت صحافیوں کو ’’لفافہ‘‘ کہتے تھکتے نہیں ہیں۔ خواتین صحافیوں میں محترمہ عاصمہ شیرازی اورغریدہ فاروقی کے خلاف ٹرینڈ بھی چلے اور دھمکیاں بھی ملی۔
قوانین کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاص طور پر پابندی لگانا مشکل لگتا ہے مگر پچھلے چند سالوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھیFIAکو غیر معمولی اختیارات دے دیے ہیں مگر کیاFIAکے پاس سائبر کرائم اور اسے روکنے کے حوالے سے تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ خود ان کے حوالے سے بھی مختلف خبریں آتی ہیں کہ قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے2016ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت انسداد الیکٹرونک کرائمز ایکٹ، 2016ء لے کر آئی مگر اس میں زیادہ تر ٹارگٹ حکومت مخالف صحافی اور انسانی حقوق پر بات کرنے والے بنائے گئے۔ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی،جناب فواد چوہدری جو وزیر اطلاعات بنے تو انہوں نے اس قانون میں ایک خطرناک ترمیم کرکے پورے میڈیا کو قابو کرنے کی کوشش کی، پیکا آرڈیننس کے ذریعہ۔ یہ ایسا خطرناک قانون بننے جارہا تھا، جس کے تحت حکومت پوری میڈیا انڈسٹری کو قابو کرسکتی تھی، یہ الگ بات کہ جب وہ حکومت میں نہیں ہوتے تو اسی قانون کی گرفت ان کے مخالف استعمال کرتے اور پھر کچھ ایسا ہی ہوا جب حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے جو اب سپریم کورٹ کے جج ہیں، ایک کیس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ ریمارکس دیے کہ اگر آج پیکا آرڈیننس ہوتا تو اپ لوگ جیل میں ہوتے۔ میڈیا کے تمام اسٹیک ہولدرز نے متفق ہوکر اس قانون کو روک دیا۔ بدقسمتی سے یہ قانون اس وقت لانے کی کوشش کی گئی جب پی ٹی آئی کی حکومت اور میڈیا کی قائم کردہ کمیٹی کے درمیان اتفاق رائے ہونے والا تھا اور ’’فیک نیوز‘‘ کی تعریف پر اتفاق ہوگیا تھا۔
سندھ کی طرح کی قانون سازی کی پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اشد ضرورت ہے ،کیونکہ صحافی اور صحافت کو خطرات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔
اگر مرکز اور دیگر صوبوں میں اس طرح کے قوانین آگئے اور50فیصد بھی عمل سے آغاز ہوا تو امید ہے چند سال بعد پاکستان میں صحافی اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگیں یا کم از کم کسی ’’حادثہ‘‘ کی صورت مقدمات بھی درج ہوں اور ملزمان بھی گرفتار ہوں۔
’صحافت‘‘ کا قتل خود صحافیوں کے ہاتھوں بھی ہورہا ہے۔ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے صحافیوں کو بھی مختلف کیمپوں میں بانٹ دیا ہے۔ ہمارے بہت سے دوست سیاسی کارکن بنتے جارہے ہیں۔ایک اخبارات اور چینل ہی کیا کم تھے کہ رہی سہی کثر سوشل میڈیا، یو ٹیوب چینل وغیرہ نے پوری کردی۔
بعض دوستوں کو گفتگو کرتے سنتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ کوئی پروفیشنل جرنلسٹس بات کررہا ہے یا سیاسی کارکن، کسی صحافی یا مدیر یا مالک کا کسی سیاسی جماعت میں یا سیاست میں حصہ لینے پر نہ کوئی پابندی ہے، نہ ہونی چاہئیں، البتہ اسے اخلاقی طور پر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ غیر جانبداری کا جھانسہ دے کر جانبداری کا مظاہرہ کرنے سے صحافت کی ساکھ متاثر ہوتٓی ہے۔ ایسے میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ وہ اس لڑائی کا خود شکار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ایک سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے صحافیوں کے اتحاد کی اور کوئی متفقہ ایسے ضابطہ بنانے کی جس سے صحافی آزادانہ انداز میں کام کرسکیں۔
ارشد شریف کا کیس دل دہلا دینے والا ہے۔ کوشش کریں اب کوئی سلیم شہزاد، کوئی حیات اللہ، ولی خان بابر نہ بنے۔ ارشد کا بہیمانہ قتل پاکستان کی صحافتی تاریخ کی بدترین مثال اور ہم سب کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ابھی میں یہ تحریر ختم ہی کرنے والا تھا کہ خبر آئی کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے جیو اور صف اول کے اینکر شاہ زیب خانزادہ کے خلاف پاکستان، دبئی اور لندن میں مقدمات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا تعلق ان نے ایک پروگرام سے ہے جو توشہ خانہ سے مبینہ طور پر ایک انتہائی مہنگی گھڑی بیچنے کے حوالے سے ہے۔
عمران اس سے پہلے بھی جیو اور جنگ گروپ سے نالاں رہے ہیں اور اپنی تقاریر میں اس پر حملے کرتے رہے ہیں۔
یہ کسی بھی سیاسی جماعت، لیڈر یا ایک عام شہری کا بھی بنیادی حق ہے کہ اگر اسے لگے کہ کوئی خبر بے بنیاد ہے، ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے چلائی گئی ہے تو وہ فرد یا ادارے پر مقدمہ قائم کرے۔ قانون کا راستہ ہی اصل راستہ ہے۔ اب اس کیس میں اینکر اپنی ایک ایک بات پر قائم ہے۔اس سے پہلے بھی 2014ء میں عمران خان نے جیو اور جنگ کو نشانہ بنایا، صحافیوں پر حملے بھی ہوئے۔ کوریج مشکل سے مشکل ہوگئی۔ اب یہ قانونی جنگ ایک فرد کے ہی خلاف نہیں ،گروپ کے خلاف بھی ہے۔
شاہ زیب کا اپنی بات پر کھڑے رہنا کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہر بات تحقیق کے بعد کی گئی ہے۔ ظاہر ہے ایک بڑے اینکر کی بھی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا یہ مقدمہ اگر عدالت پہنچا تو ایک تاریخ رقم ضرور کرے گا۔ مگر توشہ خانہ کیس منظرعام پر سب سے پہلے لانے والا بھی ایک نجی ٹی وی کا رپورٹر تھا، جس نے ’’پاکستان انفارمیشن کمیشن‘‘ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس پر ریکارڈ سامنے آیا۔
اہم بات یہ ہے کہ ایک انتہائی موثر کمیشن جو2018ء سے قائم ہے وہ اس وقت غیر موثر ہوگیا جب اس نے چیئرمین اور چار میں سے تین ممبران کی معیاد ختم ہوگئی۔ موجودہ حکومت کی نااہلی یہ ہے کہ انہوں نے نہ موجودہ چیئرمین اور ممبران کوئی مدت ملازمت میں اضافہ کیا اور نہ ہی نیا تقرر کیا، لہٰذا وہ غیر موثر ہوگیا ہے جوکہ ایک انتہائی افسوسناک رویہ ہے مگر پاکستان بس ایسے ہی چلتا ہے ،اگر ہم اسے چلنا کہتے ہیں۔ اس ملک میں صحافی اور صحافت ہمیشہ ہی خطرات میں رہے ہیں، ویسے بھی یہ شعبہ ہے ہی کسی نہ کسی کو ’’بے نقاب‘‘ کرنے کا مگر حقائق اور شواہد کی بنیاد پر، کیونکہ یہ خطرہ بہرحال موجود رہتا ہے کہ ،کہیں آپ کسی نہ کسی کے ہاتھوں دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال تو نہیں ہورہے۔ کہیں کسی کو ڈبل کراس تو نہیں کررہے۔
’صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے پچھلے چند سالوں میں کچھ سنجیدہ نویت کی کاوشیں ضرور ہوئی ہیں ،گوکہ رفتار سست رہی۔ سب سے پہلے پی ٹی آئی کی حکومت میں، محترمہ شیریں مزاری صاحبہ نے ’’جرنلسٹس پروٹیکشن بل‘‘ پر کام شروع کیا، جس پر بہت باتوں پراعتراض تھا، بعد میں وزارت اطلاعات نے بھی ’’اگر مگر‘‘ سے کام لیا اور تاخیری حربے استعمال کیے۔ بہرحال اب وہ قانون تو بن گیا مگر کمیشن بنانے میں غیر ضروری تاخیر کی جارہی ہے، ورنہ شاید کمیشن کے سامنے اس وقت ارشد شریف کیس اس کا پہلا امتحان ہوتا۔
اس معاملے میں سندھ ، وفاق اور دیگر صوبوں پر بازی لے گیا، اس حسن کو حسن بنانے میں میرا ہاتھ بھی ہے۔ پہلے طویل بحث ومباحثہ کے بعد سندھ اسمبلی نے بل پاس کیا، پھر قانون بنا، پھر اس کے رولز مل کر بنائے گئے اور غالباً14یا 15نومبر کو سندھ کابینہ نے اس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔ چیئرمین کے لیے ایک انتہائی قابل اور معتبر نام جسٹس (ر) رشید رضوی صاحب کا انتخاب کیا گیا ہے۔ امید سے سندھ میں صحافی کی باتوں کو لاحق خطرات کا کسی حد تک ازالہ کیا جاسکے گا۔ کسی حادثہ یا سانحہ کی صورت میں کمیشن اپنا رول ادا کرپائے گا۔ کام آسان نہیں کیونکہ سب ہی صحافی اپنی محض خبر کی بنا پر اپنے آپ کو خطرےمیں نہیں ڈالتے، کچھ کیس میں ان کے ذاتی معاملات بھی آڑے آتے ہیں۔
صحافت کا بنیادی اصول یہ ہی ہے کہ صحافی خود کسی خبر کا حصہ نہ بنے، اس کا کام خبر نکال کر لانا ہے۔ یہ ہی خیال اسے خبر دیتے وقت رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس میں اس کے ذاتی خیالات یا تاثر اجاگر نہ ہو۔ اب یہ الگ بات ہے کہ خبر کی تلاش کی لگن میں وہ کبھی خود ’’خبر‘‘ بن جاتا ہے، بس اس کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ ارشد شریف، ناظم جوکھیو اور نہ جانے کتنے ہمارے ساتھی کراچی سے خیبر تک اس کا شکار ہوئے۔
حال ہی میں کراچی میں دفاعی نمائش میں ایک ایسے اسٹال پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں بورڈ لگا تھا۔ Media Analyyics، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا۔ اس پر وہاں موجود افسران اور نجی کمپنی کے اسٹاف سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ اس نئی دریافت کے ذریعہ میڈیا کے ان تمام شعبوں میں جو کام ہورہا ہے تحریریں اور تجزیہ ہورہے ہیں اس کے بارے میں مشین کے ذریعہ معلومات حاصل کی جاتی ہے کہ یہ مثبت ہیں کے منفی۔ اس پر ہمارے ایک صحافی دوست نے اذراہ مذاق دریافت کیا کہ کیا یہ ہم پر نظر رکھنے کے لیے ہے۔
دنیا تو خیر اس شعبہ میں خاصی آگے نکل گئی ہے مگر اندازہ ہورہا ہے کہ بظاہر صحافت اور اظہار رائے خاصی آزادی ہے مگر حقیقت تو کچھ یوں ہے کہ آج کے دور میں آپ اپنے گھر میں اپنے بیڈ روم میں بھی محفوظ نہیں، اگر آپ کا موبائل آف نہیں۔
انفارمیشن کے اس جدید دور میں جہاں فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر نے دنیا کو انتہائی قریب کردیا ہے وہیں خبر کی لگن میں مگن صحافیوں کے لیے خطرات میں بے انتہا اضافہ کردیا ہے۔
ہر سال دنیا میں صحافیوں کے قتل کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے مگر یہ شرح خاص طور پر9/11کے بعد بہت بڑھ گئی ہے، اب صرف صحافی کو مارا ہی نہیں جاتا بلکہ مارنے سے پہلے اس کی ویڈیو بھی بنائی جاتی ہے۔ 2002ء میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے کیس میں تو اسے قتل کرتے ہوے تک دکھایا گیا ہے۔
کیا2023ء صحافیوں کے لیے اور صحافت کے لیے ایک محفوظ سال ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے صحافی نہ صرف تقسیم ہیں بلکہ صحافت بھی تقسیم ہوگئی ہے اور ہمارے بیشتر ساتھیوں نے صحافیوں کے روپ میں سیاسی کارکن بننا پسند کرلیا ہے۔ کسی مسئلے پر پوزیشن لینا ایک بات ہوتی ہے مگر صحافت کے بنیادی اصولوں سے انحراف دوسری بات۔ جو یہ کہتا ہے کہ اگر آپ غیر متنازع ہیں تو اس کی کوئی سوچ نہیں ان کے لیے صرف اتنا کہوں گا کہ کسی مسئلے پر تنازعہ کھڑا ہونا اور بات ہے اور اپنے آپ کو جان بوجھ کر متنازعہ بنانا اور 2023ء ایک بھرپور الیکشن کا سال ہے، اس میں صحافت اور صحافیوں کی تقسم اور بھی بڑھ سکتی ہے، خطرہ ہے تو صرف اس بات کا کہ اس تقسیم میں کہیں ہم اپنے کچھ اور ساتھیوں کو نہ کھو بیٹھیں۔ لہٰذا اگر تقسم ایسی ہی رہی تو شاید ہم کچھ اور اچھے قوانین تو بنالیں گے مگر اپنے ساتھیوں کو اس اطلاعات کے سیلاب اور میڈیا کے سونامی سے بچا نہ پائیں۔