• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کیلئے سال 2022ء ہر لحاظ سے ہنگامہ خیز ثابت ہوا جبکہ نئے سال کی آمد پر ہر شہری اندیشوں اور وسوسوں کا شکار ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال کے دوران سیاست، معیشت اور ماحولیات کے شعبے میں آنے والی تبدیلیوں نے ہر پاکستانی شہر ی پر منفی اثرات مرتب کئے ۔ سیاست کے حوالے سے دیکھیں تو یہ سال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں ہی گزرا۔ اس کے نتیجے میں اگرچہ پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے تحریک انصاف کی حکومت ختم کر کے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوا دیا لیکن اس سے عام پاکستانی کی زندگی میں کوئی بہتری نہ آئی ۔ یہ امر اس لحاظ سے بھی تکلیف دہ ہے کہ موجودہ حکومت نے عوام کو یہ خواب دکھائے تھے کہ ان کے اقتدار میں آنے سےملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی لیکن اس وقت حالات یہ ہیں کہ حکومتی اتحاد اپنے وعدے پورے کرنے کی بجائے حکومت بچانے کی تگ ودو میں ہے۔

اسی طرح معاشی محاذ پر نظر دوڑائیں تو وہاں بھی ہر شعبہ تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، برآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جبکہ قومی خزانے میں اتنا بھی زرمبادلہ موجود نہیں کہ حکومت چند ماہ کی درآمدات کیلئے ادائیگیوں کو ہی یقینی بناسکے۔ وزیر خزانہ اور ان کی معاشی ٹیم اس حوالے سے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے اس کی نشاندہی کرنے والوں پر الزامات در الزامات لگا کر عوام کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے میں مصروف ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کی کوششوں نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ کاروباری طبقے کیلئے بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے جبکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی حکومت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اپنی ترسیلات زر بینکنگ چینل کی بجائے ہنڈی سے بھجوانی شروع کر دی ہیں۔ حکومت اس حوالے سے اپنی ناکامیوں کا ملبہ اسمگلنگ کرنے والے عناصر پر ڈال رہی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈالر، آٹے یا کھاد کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کو روکنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔؟

یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیاسی اور معاشی محاذ کی طرح موجودہ حکومت نے سیلاب زدگان کی مدد وبحالی کے کام کو بھی وہ اہمیت نہیں دی جو وقت کا تقاضا تھی۔ سال 2022ء میں موسمی تغیرات کے سبب آنے والے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب قرار دیا جا رہا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب کے باعث تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد 1739 ہے۔ علاوہ ازیں 80 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہیں جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اہم انفراسٹرکچر، مکانات اور مویشیوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ سیلاب کے کئی ماہ بعد بھی اس وقت کم از کم دو کروڑ لوگ بے گھر ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق کئی ماہ گزرنے کے باوجود سیلاب سے متاثرہ دیہات زیر آب ہیں اور قابل کاشت اراضی کا بڑا حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس وقت تقریباً ایک کروڑ بچے غذائی قلت، اسہال، ملیریا، ڈینگی بخار، ٹائیفائیڈ، سانس اور جلدکے امراض کا شکار ہیں جبکہ ہزاروں خاندان سخت سردی کے موسم میں بھی کھلے آسمان تلے خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

ان تمام بڑے چیلنجز کا سامنا کرنے کی بجائے حکومت اپنی تمام تر توانائی عمران خان کی آواز دبانے میں ضائع کر رہی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ہونے والے ان حکومتی اقدامات کی وجہ سے تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف سے لے کر مسلم لیگ ن کے تمام وزرا ہر کام چھوڑ کر تحریک انصاف کو زک پہنچانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ چند ماہ پہلے تک تحریک انصاف کی حکومت سے نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے والی پی ڈی ایم کی قیادت اب خود نئے انتخابات سے بچنے کیلئے ہر ممکن حربہ اختیار کر رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی کو برقرار رکھنے کیلئے گورنر کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے اور اب اس قضیے پر بھی پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے۔

اگر پی ڈی ایم کی قیادت قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے فوراً بعد سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتی تو فوری عام انتخابات ہی وہ واحد راستہ تھا جن کے ذریعے نیا سیاسی مینڈیٹ حاصل کرکے یہ تنازع ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا سکتا تھا۔ اب نئے سال کے آغاز پر جہاں پی ڈی ایم کو اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کا چیلنج درپیش ہے، وہیں معاشی محاذ پر ہونے والی مسلسل ناکامیوں کا بوجھ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پی ڈی ایم کی قیادت سیاسی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مطالبے پر ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کےاصول پر نئے انتخابات کے انعقاد کی جانب پیشرفت شروع کرے۔ اس سے نہ صرف سیاسی محاذآرائی کی شدت میں کمی ہو گی بلکہ قومی اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کی سیاسی قیادت کے بارے میں ایک مثبت تاثر پیدا ہو گا۔ اس طرح معیشت اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے معاملے پر بھی قومی اتفاق رائے پیدا کر کے عالمی برادری سے بہتر تعاون اور مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین