پاکستان کے تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں رواں سال معمول سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوئیں، جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں سیلابی ریلوں نے رہی کسر پوری کردی۔ ان بارشوں اور سیلابی ریلوں نے جہاں انسانی جانوں اور دیگر تعمیراتی انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا، وہاں بدقسمتی سے زرعی شعبہ بھی محفوظ نہ رہ سکا۔
بارشوں سے سب سے زیادہ سندھ متاثر ہوا۔ حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ صوبہ میں اس سال معمول سے 700 فیصد زائد بارشیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں صوبے کے 19 اضلاع متاثر ہوئے اور بارش کا تقریباً 100 ملین ایکڑ فٹ تک پانی جمع ہو گیا۔ اس وجہ سے جہاں جانی اور مالی نقصان ہوا ہے وہیں صوبے کی 35 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمینوں پر موجود فصلیں تباہ ہو گئیں۔ سندھ کے محکمہ زراعت کے مطابق 25 لاکھ ایکڑ پر چاول کی کاشت کی گئی تھی جو 100 فیصد خراب ہوگئی۔ اندازہ ہے کہ صرف صوبہ سندھ میں زرعی شعبہ کو 300ارب روپے کا نقصان ہوا اور اگر تاحال جمع پانی کو نہ نکالا جاسکا تو آنے والی فصلوں کی بوائی بھی متاثر ہوگی۔
صوبہ بلوچستان بھی اس سال ہونے والی بارشوں سے شدید متاثر ہوا ہے اور صوبائی حکومت کے مطابق اس کے نتیجے میں صوبے کی 90لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہو گئی، جس سے 200ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، جس سے مالی نقصان کا اندازہ سیکڑوں ارب روپے میں ہے۔
زراعت، پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 19 فیصد رہ گیا ہے اور اس میں مزید کمی ہورہی ہے، جب کہ چند برس قبل تک اس کاتناسب 25فی صد کے لگ بھگ تھا۔ اس کے علاوہ زراعت سے متعلقہ مصنوعات کا ملکی آمدنی میں حجم 80 فیصد تک ہے۔ مزید برآں، زرعی شعبہ سے 42.3 فیصد آبادی کا روزگار بھی وابستہ ہے-
ملکی معیشت میں کلیدی کردار کے باوجود پاکستان کا زرعی شعبہ بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ اس کی وجہ جہاں اس شعبہ پر حکومتی عدم توجہی ہے وہاں پانی کی کمی، معیاری بیجوں کی عدم دستیابی، کسانوں کو تربیت کی کمی اور اس شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی کا متعارف نہ ہونا شامل ہے۔
پاکستان کے زرعی شعبہ کو مستقبل کے لیے تیار کرنا
ہر شعبہ میں کچھ حوالاجات ایسے ہوتے ہیں جو اکثر اوقات معیار بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایتھلیٹکس میں تیز دوڑ نے بات کریں تو دنیا کے تیز ترین شخص یوسین بولٹ کو معیار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر طویل مدتی وقت کی بات کریں تو ایک صدی کے دوران اس کی نصف مدت کو ایک اہم سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے 2050رواں صدی کا اہم ترین سنگِ میل بنتا ہے۔ یہ وہ سال ہوگا جب دنیا کی آبادی اپنے عروج کو چھوئے گی اور دنیا بھر کی معیشتوں کو ’’نیٹ زیرو‘‘ اہداف بھی 2050میں حاصل کرنے ہیں۔ لیکن زراعت کا کیا ہوگا؟ خاص طور پر، زراعت میں کام کرنے والوں کا کیا ہوگا؟
اگر کاشتکاری میں عمومی کیریئر 45-50 سال تک رہتا ہے، تو اگلے 15 برسوں میں تقریباً ایک تہائی کسان اس پیشہ سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ اس طرح، 2050میں آج سے 30سال بعد زیادہ تر کھیتی باڑی نئے ہاتھوں میں ہو گی۔ کل کے یہ کسان ایک زبردست ذمہ داری اُٹھا رہے ہوں گے کیونکہ دنیا کی آبادی میں مسلسل اضافہ خوراک کی بے انتہا طلب پیدا کرے گا۔
مستقبل کا کسان کون ہوگا؟ اسے کون سی مہارت کی ضرورت ہوگی؟ وہ اس سے کیسے مختلف ہوگا جسے آج ہم 'روایتی کسان کے طور پر دیکھتے ہیں؟
مستقبل کا کسان
یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ ایک شخص اس لیے کسان بن جاتا ہے کہ یہ اس خاندان کا پیشہ رہا ہے۔ کاشت کار کو کئی وسائل درکار ہوتے ہیں، جس میں زمین، محنت مزدوری، سرمایہ، مہارت اور علم کی ضرورت شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی باڑی میں سابقہ تجربہ کے بغیر داخلہ غیر معمولی رہا ہے۔ اس میں قانونِ تقلیلِ حاصل کا بھی عمل دخل رہا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں میں کاشت کاری میں کامیاب ہونے کے لیے جہاں اس میں کام کرنے کے اوقاتِ کار بڑھتے جارہے ہیں وہاں کم ہوتے منافع نے اگلی نسل میں جانشینی کے لیے کم جوش پیدا کیا ہے۔
امریکا میں، ایک کسان کی اوسط عمر 57 ہے؛ برطانیہ میں 60؛ کینیا میں یہ 60 ہے؛ اور جاپان میں - ایک ایسا ملک جو اپنی عمر رسیدہ آبادی کے لیے جانا جاتا ہے - وہاں کسان کی اوسط عمر 67 سال ہے۔
اس کے باوجود، وہ خاندان جن کی پہلی نسل کاشت کاری سے جُڑ رہی ہے،ان کی بھی ایک بڑھتی ہوئی تعدادہے۔ اسکاٹ لینڈ میں واقع جیمز ہٹن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، جو چیز واقعتاً اس صنعت میں تبدیلی لارہی ہے وہ یہ ہے کہ کاشت کاری سے وابستہ ہونے والے ان نئے افراد میں سے ایک تہائی خواتین ہیں۔ درحقیقت، برطانیہ کے دفتر برائے قومی شماریات کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2018 میں تقریباً 17 فیصد کسان خواتین تھیں، جو 2007-2008 میں سات فیصد تھیں۔
یہ رجحان یونیورسٹی کے زرعی کورسز میں داخلہ لینے والے امیدواروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے، جہاں اب خواتین طالبات کی تعداد مردوں سے تقریباً دُگنی ہوچکی ہے۔ درحقیقت برطانیہ کی نیشنل فارمرز یونین نے 2018 میں اپنی پہلی خاتون صدر کو منتخب کیا۔
مستقبل کی کاشت کاری
اندازہ ہے کہ 2050کا زرعی فارم آج کے کھیتوں سے کافی مختلف ہوگا۔اگرچہ یہ امکان نہیں ہے کہ فصلوں کے کھیت مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے لیکن 'عمودی کاشتکاری (Vertical Farming)یا کنٹرولڈ انوائرنمنٹ ایگریکلچر (CEA)میں دلچسپی عروج پر ہوگی۔ کنٹرولڈ انوائرنمنٹ ایگریکلچر ’’گرین ہاؤس‘‘ کاشتکاری سے زیادہ ٹیکنالوجی پر دارومدار رکھتی ہے۔ LED لائٹنگ میں نئی اختراع کاشتکاروں کو ہر فصل کی ضروریات کے مطابق '’’روشنی کی ترکیبیں‘‘ تیار کرنے کی اجازت دیتی ہے اور بہتر فوٹو سنتھیسس پیداوار میں اضافہ کا باعث بنتا ہے (فوٹو سنتھیسس وہ عمل ہے جس دوران پودے سورج کی روشنی، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے شکر کی صورت میں آکسیجن اور توانائی پیدا کرتے ہیں)۔
دریں اثنا، درجہ حرارت، تری، نمی اور بڑھتے پھلوں کے رنگ کی نگرانی سنسرز کے ذریعے کی جاتی ہے۔ جب کہ پانی دینے، وینٹیلیشن اور کٹائی کے بارے میں فیصلے کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے ذریعے اعدادوشمار بھیجے جاتے ہیں، اور جسے یہ اعدادوشمار بھیجے جائیں گے، وہ غالباً کوئی روبوٹ ہوگا۔
اس کا مقصد فصل کی پوری میعاد کے دوران ممکنہ نشوونما کے لیے بہترین حالات کو برقرار رکھنا ہے، تاکہ پانی، توانائی، روشنی، زمین اور افرادی قوت جیسے قیمتی وسائل کو زیادہ بہتر اور زیادہ مؤثر طور پر استعمال میں لاکر کسانوں کو فصلوں کے موسموں کو بڑھانے کے قابل بنایا جا سکے تاکہ سال بھر کی کاشت میں آسانی ہو۔
زرعی محققین اور انٹرپرنیورز یکساں طور پر اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ ’’روایتی کاشت کاری کے زمین، وسائل اور اِن پٹس (Inputs) پر بہت زیادہ انحصار کے باعث، سی ای اے جدید کاشتکاری سے وابستہ کچھ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کا ایک زبردست موقع فراہم کرتی ہے۔‘‘ یہ 'عمومی کھیتی باڑی سے قطعی مختلف ہے، جو نوجوان فارمنگ انٹرپرنیورز کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔
مٹی میں ڈوبے جوتوں سے سوٹ تک کا سفر
مستقبل کا کسان، زراعت کے ساتھ ساتھ ایک سے زائد ذرائع سے آمدنی حاصل کرنے کو ترجیح دے گا۔درحقیقت، 2017کی امریکی مردم شماری میں شمار کیے گئے نوجوان کسانوں میں سے دو تہائی نے اپنے بنیادی پیشے کو کاشتکاری کے علاوہ کسی اورکام کو درج کیا۔ ایسا ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کے باعث ہورہا ہے اور ’’ایگری ٹیک‘‘ (زرعی شعبہ کی ترقی کی ٹیکنالوجی) بھی ایک پھلتی پھولتی صنعت بن چکی ہے۔
مثال کے طور پر، دودھ نکالنے کے قابل اعتماد روبوٹک نظام کی ایجاد نے ڈیری فارمرز کو زیادہ لچکدار ورکنگ ڈے اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔ اب انھیں گائے کا دودھ نکالنے کے وقت وہاں خود موجود ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ برطانیہ میں، تقریباً 10میں سے ایک ڈیری فارم میں اب دودھ دینے کا خودکار نظام نصب ہے، جب کہ ہالینڈ میں یہ تعداد 40 فی صد تک ہے۔
مستقبل کا کسان اور ٹیکنالوجی
مستقبل کے کسان کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ پیش رفت یقیناً یہ ہوگی کہ زرعی ٹیکنالوجی جیسے ٹریکٹر اور اس کے آلات کیسے ایک دوسرے سے رابطہ کریں گے۔ ٹریکٹر اور اس سے جُڑی مشینری کے لیے مقرر کردہ عالمی معیارات (ISOBUS) کنکشن اور انٹرفیس میں معیار قائم کرنے میں قابل قدر ایجاد ثابت ہوئے ہیں۔ نیز، معیار کے ساتھ مزید مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ٹریکٹر اِمپلیمنٹ مینجمنٹ (TIM) ایک ISOBUS پر مبنی نظام ہے جو انجن ECU کے ساتھ رابطے میں آکر، پی ٹی او، گراؤنڈ اسپیڈ، اسٹیئرنگ اور لفٹ جیسے کاموں کے لیے ٹریکٹر کا اِمپلیمنٹ کنٹرول فراہم کرتا ہے۔
ٹریکٹر اِمپلیمنٹ مینجمنٹ سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے، سسٹم آپریٹر کو دائرے بناتے وقت رُکو، دروازہ کھولو، دروازہ بند کرو، چلو وغیرہ جیسے احکامات کو دُہرانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ٹریکٹر اور اس کا اِمپلیمنٹ یہ کام خودکار نظام کے تحت خود انجام دیتے ہیں۔
ٹریکٹر اِمپلیمنٹ مینجمنٹ سسٹم(TIM) ڈرائیور کے بغیر ٹریکٹر کی صورت میں میکانائزیشن کو خود مختاری کے ایک قدم اور بھی قریب لاتا ہے۔ تاہم مکمل طور پر بغیر ڈرائیور والی مشینیں، مستقبل کے کسان کے لیےجہاں افرادی قوت کے مسائل کم کردیں گی، وہاں مشینوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں عملی مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ’’ہائبرڈ ٹریکٹر‘‘ ایک اچھا اختیار ہوسکتا ہے، جسے ڈرائیور کے ساتھ اور ڈرائیور کے بغیر، دونوں صورتوں میں چلایا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں ایک ڈرائیور، ٹریکٹر کو مخصوص فارم فیلڈ میں لے جانے کے بعد وہاں اس ٹریکٹر کو پہلے سے ترتیب دیے گئے ’’ڈرائیور لیس موڈ‘‘ میں بدل دے گا، جس کے بعد وہ خود کار ٹریکٹر اِمپلیمنٹ مینجمنٹ سسٹم کے تحت امور انجام دے گا۔ اس دوران کسان اپنی توجہ دیگر کاموں پر مرکوز کرکے انھیں نمٹا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا طلوع
روایتی طور پر کھیتی باڑی میں زرعی یا مویشی پالنے سے آگے کی مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مہارتوں میں کھیت میں مشینری میں کوئی نقص پیدا ہوجانے کی صورت میں موبائل مکینک کے طور کام کرنا، یا اپنے منفرد مسئلے کے حل کے لیے فارم ورکشاپ کو استعمال کرنے کی صلاحیت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ مستقبل کے کسانوں کو ’’کنیکٹنگ راڈ‘‘ سے زیادہ ’’کنیکٹیویٹی‘‘ کے بارے میں معلوم ہوناضروری ہوگا۔
ایگری ٹیک، کاشتکار کی کارکردگی اور منافع کو بہتر بنانے کے لیے سینسرز، مانیٹر، ڈیٹا اکٹھا کرنے، مشین لرننگ، اِنٹرنیٹ کنیکشن، مصنوعی ذہانت، ڈرون، روبوٹکس، اور اسی طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے۔ مستقبل کی زراعت کا دارومدار ایگری ٹیک پر ہوگا لیکن یہ ٹیکنالوجی اسی قدر مؤثر ہوگی جتنا اچھا اسے آپریٹ کیا جائے گا۔
یہ ایک اہم بات ہے۔ ملینئلز وہ پہلی نسل ہے جنھوں نے کمپیوٹر کے بغیر دنیا کو نہیں دیکھا اور ایگری ٹیک کی کامیابی اور کاروباری جذبہ کا دارومدار بڑی حد تک ان ہی پر ہے۔ان کے لیے ٹیکنالوجی نا کوئی نئی چیز ہے اور ناہی کوئی ایسا کام جس کے استعمال سے خود کوبچانا ممکن ہو۔ ان کے لیے ایگری ٹیک کی وہی عمومی حیثیت ہے جو ’جنریشن ایکس‘ کے لیے فکسڈ لائن ٹیلی فون اور ’جنریشن زیڈ‘ کے لیے انٹرنیٹ کو حاصل ہے۔
اسی طرح 2050میں ایگری ٹیک بھی ایک عمومی ٹیکنالوجی ہوگی۔ مستقبل کے کسان اپنے کھیت پر بہتر کنٹرول رکھیں گے، چاہے وہ آن فارم خود موجود ہوں یا کسی دور دراز جگہ کوئی دیگر امور نمٹانے میں مصروف۔ کیوں کہ سارے فیصلے فیلڈ اور کنٹرولڈ انوائرنمنٹ ایگر کلچر یونٹ سے موصول ہونے والے نتائج کی روشنی میں ایک ’بوٹ‘ لے رہا ہوگا۔
مزید برآں، بجلی، ہائیڈروجن، اور ایندھن کے خلیات پر چلنے والے ان تمام خود مختار ٹریکٹروں اور فیلڈ یونٹوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو بیج بوائی کے لیے کھدائی، گھاس پھوس کی صفائی، بائیوسٹیمولینٹ ایپلی کیشنز اور حتمی مرحلے میں فصل کی کٹائی کا کام انجام دیں گے؟ زرعی شعبہ میں توانائی کے استعمال کے حوالے سے جیسے جیسے اختراعات سامنے آئیں گی، ایگری ٹیک مستقبل کے کسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خود کو تیار کرتی جائے گی۔