• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حصولِ علم کا سب سے مشکل اور اہم مرحلہ درست سوال کا ادراک ہے۔ اگر سوالات درست ہوں تو بہت سے پیچیدہ مسائل کے جوابات تلاش کرنا آسان ہوجاتاہے۔ ایک سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ کسی قوم کی ناکامی کا سبب کیا ہوتاہے، وہ کون سے عوامل ہیں جو کسی قوم یا ملک کی کامیابی یا ناکامی کا باعث بنتے ہیں؟

کئی سو سال سے یہ روایت رہی ہے کہ جو قوم جنگی صلاحیت میں برتر تھی وہی خوشحال تھی۔ تشدد اور انسانیت کے قتل عام کے ذریعے عظیم سلطنتیں قائم کی جا تی رہیں لیکن وہ تادیر ٹِک نہ پائیں۔ میسوپوٹیمیا، اکاد اور سمیریا کی قدیم تہذیبیں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جو لوگ اختراعات اور انجینئرنگ میں بہتر تھے وہ خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب رہائشی جدت، شاندارسڑکوں کی تعمیر، انتظامی بہتری اور جنگی برتری عروج پر تھے۔ کئی صدیوں تک سلطنتیں خوشحال رہیں لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ اس بار خوشحال قومیں صرف جنگی صلاحیت اور جدت سے نہیں بلکہ ایمان سے کامیاب ہوئیں۔ اسلامی افواج کی طاقت مسیحی سلطنتوں کے ساتھ صلیبی جنگوں میں ٹکرائی۔ سلطنتیں کسی ایک مخصوص ریاستی مذہب کے ساتھ پروان چڑھیں۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ سلطنتوں اور قوموں کے پھلنے پھولنے کے لئےطاقتِ ایمانی بھی کافی نہیں ۔

جب مسلم سلطنتیں جنگوں اور فتوحات میں مصروف تھیں، مغربی یورپ میں علم کی ایک نئی شاخ نے جنم لینا شروع کیا۔ اسے ’’سائنس‘‘کہا گیا۔ علم کی اس شاخ نے دنیا کو ایک نئی سمت دی۔ سائنس نے انسانی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ یورپی ممالک نے سائنس کے نئے علم سے لیس ہو کر دنیا پر حکمرانی کی راہ اپنائی۔ طویل عرصے تک، یورپ کے نوآبادیاتی آقا خوشحال تھے، لیکن یہ نظام بھی ناکام ہو کر بالکل مختلف نظام میں تبدیل ہو گیا۔ نوآبادیاتی آقاؤں کو باہر دھکیل دیا گیا ، آزادی اور حکمرانی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

دو عالمی جنگوں کے بعد، کچھ قوموں نے محسوس کیا کہ اگر جنگوں کایہ طریقہ جاری رہا تو انسانیت کی بقا خطرات سے دوچار رہے گی۔ اس سے بچائو کےلئے اقوام متحدہ وجود میں آئی۔ سائنس، معاشیات اور فلسفہ آپس میں دست و گریباں تھے ، مغربی دنیا کو وہ سنہری علاج مل گیا تھا جو مسلسل جنگ، پرتشدد فتوحات، غدارانہ بادشاہت اور انتہا پسندی کے مسائل حل کر سکتا تھا۔ وہ نظریہ جمہوریت تھا۔ قانون سازی، طرز حکمرانی اور مشترکہ فیصلہ سازی کے عمل میں ہر کسی کو شامل کرکے اکثریت کی حکمرانی، زندگی کے ہر پہلو میں قانون اور آئین اورعدالتی نظام کی پرورش ہوئی۔ لیکن اس نظام کو کام کرنے کے لئے ایک سازگار ماحول کی ضرورت تھی،یہ طریقۂ کار ماضی کی تمام پیچیدگیوں سیاسی ہلچل، قحط، غربت، جنگ، عداوت، تقسیم اور ہر قسم کے معاشی خدشات کا حل تلاش کر سکتا تھا۔ مغربی اقوام جمہوری آزادی، حقوق اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کی پرچارک بنیں۔ یہ ہر طرح سے، آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے جو قوموں کی ناکامی یا کامیابی کا تعین کرسکتا ہے۔ ایک حقیقی جمہوریت، جس کا نفاذ حصوں میں نہیں، بلکہ مجموعی طور پر ہوتا ہے۔جہاں قوم کا ہر شہری نہ صرف کسی خاص طبقے، مذہب، عقیدے یا نسلی پس منظر سے بے نیاز ہوبلکہ قانون کے تحت ہر ایک کو مساوی حقوق بھی حاصل ہو، ایک مشترکہ آئین ہو جو سب سے مقدم ہو، یہی واحد راستہ ہے جو کسی بھی قوم کو ناکامی سے بچا سکتا ہے۔

’’قومیں کیوں ناکام ہیں‘‘ ڈیرون آسیموگلو کی کتاب ہے جو اس نے 2012 میں شائع کی ۔ اس کتاب میں، محققین کے ایک گروپ نے تقریباً پوری انسانی تاریخ کا احاطہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ قومیں اس وقت ناکام ہوتی ہیں جب ان کے ادارے صرف امیروں اور طاقتوروں کی غلامی کرتے ہیں، قومیں صرف اور صرف اس صورت میں ترقی کرسکتی ہیں، جب ان کے پاس ایسے نظام ہوں جن میں اکثریت کی فلاح و بہبود کی صلاحیت ہو۔ ڈیرون کے مطابق یہ '’’شمولیت‘‘ایک حقیقی جمہوریت سے حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن کئی بار آمرانہ حکومتیں خود کو جمہوریت کی طرح پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آیا کسی قوم میں حقیقی جمہوریت ہے یا جمہوریت کاڈرامہ رچایا جا رہا ہے، تجزیاتی طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ قوم میں طاقت اور دولت کا ارتکاز موجود ہے یا نہیں۔قانون کی حکمرانی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ قوم سلامتی، انصاف اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے یا تباہی کی طرف۔ قانون کا سخت نفاذ قوموں کے سیاسی استحکام کا تعین کرتاہے اور سیاسی استحکام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قوم کی اقتصادی ترقی مستحکم اور پائیدار ہو۔ لہٰذایہ ضروری ہے کہ نظام کو قوم کے اعلیٰ اور ادنیٰ طبقات کیلئے یکساں مفید اور سود مند بنایا جائے ۔ تب ہی کوئی قوم ناکامی سے بچ سکتی ہے اور اپنی خوشحالی اور سلامتی کا راستہ تلاش کر سکتی ہے۔ اس مساوات اور پرامن بقائے باہمی کو حاصل کرنے کا اب تک کا سب سے بہترین طریقہ، اقوام کے دل و جان سے جمہوریت کو قبول کرنے میں مضمر ہے۔

پاکستان ایک ترقی پسند فلاحی اسلامی ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ قائدِاعظم کا وژن تھا کہ پاکستان دنیا کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، مہذب، محنتی اور قانون کی پاسداری کرنے والی جدید قوم بنے۔ اس طویل مسافت میں کئی بار مختلف مقتدر ہستیوں نے ان کے وژن کو خاک میں ملا نے کی بھرپور کوششیں کیں جن کے نتائج ہمارے سامنے آتے رہے۔ طاقت کا ارتکاز، اختیارات کے ناجائز استعمال اور قانون کی کج روی نے ہر ایک کو متاثر کیا ۔ اعلیٰ اور ادنیٰ مشترکہ طور پر متاثر ہوئے۔پاکستان اس سب کے باوجود ناکام نہیں ہواور نہ ہو گا انشاء اللہ۔یہ غیر معمولی، ذہین اور جفا کش لوگوں کی قوم ہے جسے قیادت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان 1940 کی قرارداد لاہور کے بعد سات سال میں حاصل کیا جا سکتا ہے تو یقیناً سات سال سے بھی کم عرصے میں پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کو سمجھنا چاہئے کہ اگر جمہوریت اور نوجوانوں کو موقع نہ دیا گیا تو نتائج خدانخواستہ کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین