• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد نئے سال کی ابتدا انتہائی مایوس کن حالات میں ہوئی ہے۔ معاشی حوالے سے ملک کو تاریخ کی بدترین تنزلی کا سامنا ہے جب کہ حکومت کے پاس روزمرہ کے امور سرانجام دینے کیلئے بھی مناسب وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے میں بچت کے نام پر کاروباری سرگرمیوں کو مزید محدود کر نے کے فیصلے کئے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے تاجروں اور دیہاڑی دار طبقے میں مایوسی پائی جا تی ہے۔ اگر موجودہ صورتحال کا گزشتہ سال کے آغاز سے موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ عوامی حمایت سے محروم سیاسی اتحادکی بیڈ گورننس نے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کو تنزلی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ محکمۂ شماریات کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران برآمدات میں مجموعی طور پر 18فیصد جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں ایک ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر بھی ایک سال کے دوران 20ارب ڈالر سے کم ہو کر چھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف ایک سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تقریبا 50سے 55روپے کی کمی ہوئی ہے جب کہ پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 30سے 40 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں مہنگائی کی شرح 10 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ اس دوران ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 41فیصد، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 35فیصد اور ملبوسات وجوتوں کی قیمتوں میں 17فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح صحت پر اخراجات میں 17فیصد، تعلیم پر 11فیصد اور متفرق اخراجات میں 26فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ حالات اس بات کی غماضی کرتے ہیں کہ مستحکم بنیادوں پر معاشی ترقی کے سفر کو آگے بڑھانےکیلئے طویل المدتی انڈسٹریل پالیسی کی تشکیل کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ اگرچہ گزشتہ حکومت کے دور میں پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت دوبارہ سے سنبھل گئی تھی لیکن نئی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس سفر کو آگے بڑھانےکیلئے طویل المدت انڈسٹریل پالیسی کی تیاری اور نفاذ پر کام کرنے کی بجائے سیاسی بنیادوں پر معیشت کے ساتھ ایسا ’جگاڑ‘ شروع کیا ہے کہ جس کے انجام کا سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ اس حکومت کے پہلے وزیر خزانہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے جس طرح اندھا دھند ٹیکس لگانے اور قیمتیں بڑھانےکیلئے پھرتیاں دکھا رہے تھے، اسی طرح موجودہ وزیر خزانہ نےبھی اپنی قیادت کو خوش کرنے کیلئے ایسی بیان بازی کی کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بھی معطل کروا بیٹھے اور دوست ممالک سے ملنے والی امداد کے وعدوں کو بھی عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہے۔ اب ان کی حالت ’آگے کنواں پیچھے کھائی‘ کے مترادف ہے لیکن اس کے باوجود ان کی طرف سے بڑے بڑے دعوئوں اور وعدوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ حکمتِ عملی سیاسی میدان میں تو کسی حد تک چل سکتی ہے کہ آپ ووٹرز کو خوش کرنے کیلئے نعروں اور وعدوں سے کام چلا لیں لیکن معیشت کے میدان میں فیصلہ سازی محض جذبات کی بنیاد پر ثمرآور ثابت نہیں ہوتی۔ اس کیلئے سرجھکا کر عرق ریزی سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر پالیسیاں بنانی پڑتی ہیں اور پھر ان پر جانفشانی سے عملدرآمد کر کے آگے بڑھنے کی راہ نکالی جاتی ہے۔

ہم اگرہمسایہ ملک بھارت اور بنگلہ دیش کو ہی مثال بنا لیں تو ہمیں طویل المدتی انڈسٹریل پالیسی کی اہمیت اور ضرورت سمجھ میں آ سکتی ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد ابتدائی چند سال میں پاکستان نے ہندوستان کے مقابلے میں کم وسائل کے باوجود معاشی میدان میں نمایاں ترقی کی شرح برقرار رکھی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نئے ملک کی معاشی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیام پاکستان سے پہلے ہی صنعتی میدان میں اہم مقام کی حامل شخصیات کو نئے ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا مشن سونپ دیا تھا۔ ان شخصیات نے نامساعد حالات کے باوجود قائد اعظم کی کال پر لبیک کہا اور چندبرسوں میں ہی پاکستان کی صنعتی بنیادوں کو مستحکم کرنےکیلئے عملی کام شروع کر دیا تھا۔ ابھی اس جانفشانی کے ثمرات حاصل ہونا شروع ہی ہوئے تھے کہ ملک میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر انڈسٹری کو قومی تحویل میں لے لیا گیا جس کے بعد پاکستان کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والوں کی اکثریت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بیرون ملک سدھار گئی۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم بھارت کی مثال لیں تو اس کی معاشی ترقی میں ان صنعتی گھرانوں کا اہم کردارہے جنہوں نے نسل درنسل اپنے ملک میں صنعتی عمل کو آگے بڑھایا ۔ اس کے مقابلے میں اگر بنگلہ دیش کی مثال لی جائے تواس کی ترقی کا راز بھی اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہاں انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دینے کیلئے طویل المدت پالیسیاں تشکیل دے کر ان پر پوری تندہی سے عمل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کپاس پیدا نہ کرنے کے باوجود ٹیکسٹائل کے شعبے میں بنگلہ دیش کی برآمدات پاکستان سے زیادہ ہیں۔

اس کے مقابلے میںپاکستان میں حالت یہ ہے کہ مزدور اور صنعتکار یکساں طور پر مالی مشکلات اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ معاشی میدان میں ترقی کے خواہاں کسی ملک میں یہ نہیں ہو سکتا کہ سردیوں میں انڈسٹری کو گیس نہ ملے اور گرمیوں میں کئی کئی گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے۔ اسلئے پاکستان میں انڈسٹریلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے طویل المدتی انڈسٹریل پالیسی کا نفاذ ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف صنعتکاروں اور سرمایہ دار کو طویل المدتی بنیادوں پر اپنی بزنس پالیسی بنانے میں مدد ملے گی بلکہ مزدور کے حقوق اور روزگار کا تحفظ بھی ممکن بنایا جا سکے گا۔

تازہ ترین