میں اس وقت نارتھ امریکہ میں ہوں۔ سردی اور ٹھنڈک نے زندگی مزید مشکل کر رکھی ہے۔ ہمارے مہربان دوست اور قدر دان رفیق ملک امریکہ میں بھی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جمہوریت کے باوجود امریکی افواج کا ملکی سیاست پر غلبہ نظر آ رہا ہے۔ امریکی بزرگ صدر بائیڈن امریکی سیاست اور جمہوریت کو نئے تجربات سے نواز رہے ہیں۔ ان کا نشانہ ٔستم اس وقت سابق صدر جناب ٹرمپ نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی عسکری حلقے بھی سابق صدر ٹرمپ سے خوف زدہ سے نظر آ رہے ہیں۔سابق صدر ٹرمپ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ آئندہ کے صدارتی امیدوار ہوں گے۔ اس وجہ سے امریکی عسکری ادارے بھی ٹرمپ کے خلاف میڈیا میں اپنی پہچان کروا رہے ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ کا مسئلہ کیا ہے؟ وہ امریکی معیشت کو اہم حیثیت دینا چاہتے ہیں اور افواج کے کردار پر ان کی رائے یہ ہے کہ امریکی افواج کو امریکہ کا دفاع کرنا ہے اور بیرون ملک ان کا کوئی کردار نہیں جب کہ صدر بائیڈن کی حالیہ فتح میں امریکی افواج کا بڑا دخل رہا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت میڈیا پر نشر بھی ہو رہا ہے۔ اگلےانتخابات میں جو اندازے لگائے جا رہے ہیں ان میں سابق صدر ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ سفید فام امریکی ٹرمپ کے ساتھ ہیں پھر امریکہ کے دوست ملک بھارت میں بھی وزیراعظم مودی کی مقبولیت کم ہوتی نظر آ رہی ہے اور لگتا یوں ہے کہ اس بار بھارت میں ایک مخلوط سرکار بنے گی جو مودی کی پالیسی کو یکسر مسترد کرکے بھارت میں تبدیلی کے نعرے کو عام کرے گی۔ ایسے میں میرے دیس میں بھی جو سیاسی خلفشار نظر آ رہا ہے اس کی بنیادی وجہ جمہوریت ہی ہے۔ اور جمہوریت کا بھرم رکھنے کیلئے جو لوگ سرگرم عمل ہیں وہ عوام کے مفاد کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں اس سے پاکستان کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے۔
اس سوشل میڈیا نے خبر کی دنیا کے فاصلے بہت ہی کم کردیئے ہیں۔آپ سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا بھر سے رابطے میں رہتے ہیں۔ چند دن پہلے کراچی کے مشہور زمانہ جنید اکرم بلاگر نے لاہور کے نوجوان ترقی پسند استاد ڈاکٹر تیمور رحمان کی یو ٹیوب پر بات چیت محفوظ کی ہے۔ ڈاکٹر تیمور رحمان کا پاکستان کی سیاسی جماعت مزدور کسان پارٹی سے تعلق نظر آتا ہے۔ پھر مجھے یاد آیا کچھ عرصہ پہلے میرے بیٹے محمد جنید خان نے ڈاکٹر تیمور رحمان کا تذکر ہ کیا تھا اور مجھے بتایا تھا کہ تیمور رحمان اس کی تعلیمی درس گاہ ایچی سن میں اس سے سینئر تھا۔ پھر تیمور رحمان اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ چلا گیا۔ میرا بیٹا میرے ساتھ کینیڈا آگیا اور اس نے پروجیکٹ مینجمنٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ میں نےیو ٹیوب پر جنید اکرم اور تیور رحمان کا مکالمہ سنا تو مجھے حیرت اور خوشی ہوئی۔ دونوں نوجوانوں کو پاکستان کی مشکلات کا اندازہ ہے اور ان کے پاس حل بھی ہے۔ جو آج کی صورت حال میں ہمارے اداروں کی مدد بھی کرسکتا ہے۔ مجھے ابھی ابھی ایک اور دوست کا خیال آیا۔ شانتی دیوی سے دوستی اور تعلق بھی خاصا پرانا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے اپنی ایک میل میں ایک میوزک گروپ کا ذکر کیا تھا، اس میوزک گروپ کا نام لال بینڈ تھا۔ شانتی دیوی نے خوب تعریف کی تھی۔ مجھے بھی لال بینڈ کے نوجوان اچھے لگے ان کا جوش جذبہ اور سر کاتال میل بڑا جذباتی سا لگا اور جب میں تیمور رحمان کا مکالمہ سن رہا تھااور لال بینڈ کے روح رواں کا ذکر ہوا تو اندازہ ہوا یہ نوجوان تیمور رحمان کمال کا علم اور ظرف رکھتا ہے اب سوال یہ ہے کہ ظرف کیسا؟ ان دو نوجوانوں کی گفتگو میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو تنقید پر مبنی ہو،انہوں نے اپنے نظریات کا پرچار اور دوسروں کا ذکر بہت ہی اچھے پیرائے میں کیا۔
پاکستان کی سیاست اور معیشت نے بیرونِ ملک تارکین وطن کو خاصا بے چین کر رکھا ہے۔ ایک دفعہ پھر ہنڈی کا کاروبار عروج پر نظر آ رہا ہے۔ اس وقت ہماری قومی سرکار کس گورکھ دھندے میں مصروف ہے۔ اس کا بظاہر تو جمہوریت سے کوئی تعلق نظر نہیں آرہا ۔اب ایک نیا سوال یہ ہے کہ جمہوریت کا عوام سے کیا تعلق بنتا ہے؟ سابق سپاہ سالار کا تذکرہ بھی خوب ہو رہا ہے۔ ان کے دور میں ریاست میں سیاست کم تھی۔ ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ کپتان بھی کمال کا کھلاڑی ہے۔ اس نے مان لیامگر گرائونڈ نہ چھوڑی جبکہ ریفری حضرات ایسے فیصلے دیتے رہے جس کے کارن کھلاڑی میچ تو نہیں کھیل سکتے گرائونڈ میں پریکٹس ضرور کر سکتے ہیں اور اسی وجہ سے کراچی کی حقیقی کرکٹ نظر انداز ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں ہمارے وزیر خزانہ کو بہت سی شکایات ہیں۔ ان کو سوشل میڈیا سے بہت تکلیف ہے۔ وہ تو پاکستان کی معیشت کو بدلنے آئے تھے اور یقین دہانی کروائی تھی مگر ہوا کیا؟ امریکا بدل گیا۔ اس نے آئی ایم ایف کو ہدایت کردی ہےکہ پاکستان کو بدلنا ہے۔ اب دیکھیں پاکستان میں بدلے پر زور دیا جا رہا ہے اور پھر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف شدید مایوسی کا شکار ہیں، ان کی واپسی مشکوک نظر آ رہی ہے۔نئے سپاہ سالار کچھ کرنے کی سوچ رہے ہیں صرف اس بات کا فیصلہ ہونا ہے کہ کہاں سے شروع کرنا ہے؟ پھر امید ہے کہ ملک کا سیاسی ماحول بدل جائے گا اور فوج صرف ملک کے دفاع کا سوچے گی۔معیشت تو انتخابات کے بعد ہی ٹھیک ہو سکے گی اور اس کیلئے اہم فریقین راضی ہوتے نظر آ رہے ہیں اور امید ہے تاریخ کا نازک موڑ عوام کو اہمیت اور حیثیت دے گا۔