• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی... وہ سردیوں کی دھوپ تھی

تحریر: نرجس ملک

ماڈلز : عروحی، حیاخان

پہناوے: شیخ عمران

آرایش: دیوا بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

احمد فراز کی ایک بہت ہی خُوب صُورت، اچھوتی سی نظم ہے، جو نہ جانے کتنے ہی ٹوٹے دِلوں کی کتھا، آپ بیتی، رام کہانی ہے۔ ؎ بھلے دِنوں کی بات ہے.....بھلی سی ایک شکل تھی.....نہ یہ کہ حُسنِ تام ہو.....نہ دیکھنے میں عام سی.....نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے.....مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے.....کوئی بھی رُت ہو، اُس کی چَھب.....فضا کا رنگ رُوپ تھی.....وہ گرمیوں کی چھائوں تھی.....وہ سردیوں کی دُھوپ تھی.....نہ مدّتوں جُدا رہے.....نہ ساتھ صبح و شام ہو.....نہ رشتۂ وفا پہ ضد.....نہ یہ کہ اذنِ عام ہو.....نہ ایسی خوش لباسیاں.....کہ سادگی گلہ کرے.....نہ اتنی بے تکلفی.....کہ آئنہ حیا کرے.....کبھی تو بات بھی خفی.....کبھی سکوت بھی سخن.....کبھی تو کشتِ زعفراں.....کبھی اداسیوں کا بَن.....سُنا ہے، ایک عُمر ہے.....معاملاتِ دل کی بھی.....وصالِ جاں فزا تو کیا.....فراقِ جاں گسل کی بھی.....سو، ایک روز کیا ہوا.....وفا پہ بحث چِھڑ گئی.....مَیں عشق کو امر کہوں.....وہ میری ضد سے چِڑ گئی.....مَیں عشق کا اسیر تھا.....وہ عشق کو قفس کہے.....کہ عُمر بَھر کے ساتھ کو.....وہ بدتر از ہوَس کہے.....شجر، حجر نہیں کہ ہم.....ہمیشہ پابہ گُل رہیں.....نہ ڈھور ہیں کہ رسّیاں.....گلے میں مستقل رہیں.....مَیں کوئی پینٹنگ نہیں.....کہ اِک فریم میں رہوں.....وہی جو مَن کا مِیت ہو.....اُسی کے پریم میں رہوں.....نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا.....نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی.....جو عہد ہی کوئی نہ ہو.....تو کیا غمِ شکستگی.....سو، اپنا اپنا راستہ.....ہنسی خوشی بدل دیا.....وہ اپنی راہ چل پڑی.....مَیں اپنی راہ چل دیا.....بَھلی سی ایک شکل تھی.....بَھلی سی اُس کی دوستی.....اب اُس کی یاد، رات دن.....نہیں، مگر کبھی کبھی۔

سرما رُت میں ایسی نظمیں، غزلیں، گیت سُن کر بندہ ویسے ہی ناسٹلجیا کا شکار ہوجاتا ہے، اُس پر اگر سامنے بھرپور پَت جھڑ، درختوں سے بچھڑے، سوکھے، کُرلاتے، بین کرتے پتّوں کی رہ گزر کے پس منظر کے ساتھ خُوب بنی سنوری، دو حسین، البیلی دوشیزائیں آکھڑی ہوں، تو بس پھر تو دل کا زیر و زبر ہونا لازم ٹھہرا۔ کیا کیا نہ یادیں پلکوں کی منڈیروں پہ آٹھہریں گی۔ اِک عجب طرح کا حُزن و ملال، پورے وجود کا احاطہ کرے گا، تو کچھ اَن کہی، اَن سُنی کہانیوں کے البم کا ورق ورق پلٹتے ایک ملکوتی، الوہی، دھیمی دھیمی لَو دیتی مُسکان بھی لبوں پہ بکھری رہے گی۔ تو بس، ایسے ہی کچھ جذبات و احساسات کے ساتھ ہماری آج کی بزم کا حصّہ بن جائیں۔

ذرا دیکھیے، روایتی و غیر روایتی جینز کے کچھ اسٹائلز کے ساتھ رنگا رنگ اسٹائلش ٹی شرٹس اور لانگ، شارٹ، فَر، جُوٹ اور ویلویٹ کے کوٹ اور سوئیٹرز نے سرما کو بھی کیسے دوشالہ سا اوڑھا دیا ہے۔ اب اِن میں سے کون گرمیوں کی چھائوں جیسی اور کون سردیوں کی دُھوپ جیسی ہے، یہ تو جب آپ یہ رنگ و انداز اپنائیں گی اور داد پائیں گی، تب ہی اندازہ ہوگا۔