• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست میں بے جا مداخلت کے خاتمے تک مسائل حل نہیں ہوں گے

بات چیت :وحید زہیر، کوئٹہ

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سینئر سیاست دان اور پارلیمنٹرین ہونے کے ساتھ، ایک روشن خیال ادیب اور دانش وَر بھی ہیں۔ زمانۂ طالبِ علمی سے بلوچ سیاست کا حصّہ ہیں۔ بحیثیت کارکن جمہوریت کی بحالی کے لیے سرگرم کردار ادا کیا۔ موجودہ سیاسی نظام سے نالاں نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کی پس ماندگی میں ریاستی اداروں کی مداخلت کو خرابی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں اور حقوق کے حصول اور عوامی مفادات کے تحفّظ کے لیے حقیقی جمہوری سیاست کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے گزشتہ دنوں ایک خصوصی نشست میں سیاسی صورتِ حال، صوبے کے مسائل اور اُن کے حل سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی، جو جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

 سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، نیشنل پارٹی کے صدر، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے بات چیت

س: اپنے ابتدائی حالات، خاندان اور تعلیم وتربیت سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: میرا تعلق تُربت(کیچ) سے ہے، جہاں 15جنوری1958ء کو پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی، بعدازاں، سائنس کالج، کوئٹہ سے ایف ایس سی کیا اور پھر بولان میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا۔ میرے والد، حاجی عبدالسّلام مقامی زمین دار ہونے کے ساتھ، بلوچی زبان کے حمد ونعت کے اچھے شعراء میں شامل تھے، جب کہ بڑے بھائی، غفّار ندیم بھی بلوچی زبان کے نام وَر ادیب تھے۔ میرے چچا، میر سکو میر بھی شاعر تھے۔ اُن کے پاس کلاسیکل شعراء کے کلام کا ایک اہم ذخیرہ محفوظ تھا۔ یوں گھر کے علمی و ادبی ماحول نے میرا بھی علم و ادب سے رشتہ جوڑے رکھا۔

س: سیاست میں کب اور کیسے آئے؟

ج: میرے والد میر غوث بخش بزنجو کے سیاسی رفیق تھے۔ مَیں نے جب ہوش سنبھالا، تو اُن دنوں ایّوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ مجھے نیپ کے جلسوں میں میر گل خان نصیر کے انقلابی اشعار پڑھنے کے لیے اسٹیج پر بُلایا جاتا۔ یوں سمجھ لیں، یہ میری سیاسی زندگی کی ابتدا تھی۔ پھر پہلی مرتبہ 1977ء میں بی ایس او کی سینٹرل کمیٹی کا رُکن بنا۔

س: سیاست میں کس سے زیادہ متاثر ہیں؟

ج: یوں تو میرے لیے بلوچستان کے تمام ہی سیاسی اکابرین قابلِ احترام ہیں، تاہم میرے آئیڈیل، ملک الشعراء، میر گل خان نصیر ہیں۔ اُن کی سیاسی جدوجہد، علمی مقام، قربانیوں اور عوامی سیاست کا شعور اجاگر کرنے جیسی مخلصانہ کوششوں اور جذبات سے ہمیشہ متاثر رہا ہوں۔

س: پارلیمانی سیاست میں کب داخل ہوئے ؟

ج: 1977ء میں حیدرآباد سازش کیس سے چھٹکارے کے بعد پہلے بلوچ اور پشتون سیاست دان بعض معاملات پر آپس میں متفّق نہ ہوسکے، پھر بلوچ قیادت بھی بعض امور پر تقسیم ہوگئی۔ اُس وقت ہم میر غوث بخش بزنجو کے مخالف تھے اور ہمارے لیڈر رازق بگٹی تھے۔

بہرکیف، ہم نے 1985ء میں اپنی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی اور سیاسی رویّوں کا جائزہ لینے کے بعد 1987ء میں’’ بی این وائی ایم‘‘ کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔نیز، ہم نے انتخابات میں بھی حصّہ لینے کا فیصلہ کیا۔1988ء، 1990ء، 1993ء اور پھر 2013ء میں الیکشن لڑکر دو مرتبہ صوبائی وزیر رہا، جب کہ ایک مرتبہ وزیرِاعلی کی حیثیت سے بھی قوم کی خدمت کا موقع ملا۔

س: کیا آپ سیاست کو بہت ضروری سمجھتے ہیں؟

ج: دوسروں کے لیے اِس کی اہمیت ہو یا نہ ہو، مگر بلوچوں کے لیے تو سیاست میں حصّہ لینا انتہائی اہم ہے، کیوں کہ اِس کے بغیر وسائل سے مالا مال صوبے کے حقوق کا آئینی تحفّظ اور پس ماندگی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اگر سیاسی تحریکیں نہ ہوتیں، تو شاید آج بلوچ قوم اپنی شناخت تک کے مسئلے سے دوچار ہوتی۔ البتہ، مَیں ایسی سیاست کا قائل ہوں، جو مثبت اور عوام دوست ہو۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… ( عکّاسی:رابرٹ جیمس)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… ( عکّاسی:رابرٹ جیمس)

س: آپ کی سیاسی جدوجہد میں کون سے عوامل اہم رہے؟

ج: اگر دیکھا جائے، تو ہماری سیاست1920ء سے شروع ہوتی ہے، جس کے روح رواں میر عبدالعزیز کرد تھے۔ اس قافلے میں عبدالکریم شورش، آغا عبدالکریم خان، عبدالرحیم خواجہ خیل، میر محمّد حسین عنقاء اور دیگر شامل تھے۔ بعد میں میر یوسف عزیز مگسی بھی ساتھیوں سمیت اس کا حصّہ بنے۔ یہ انتہائی پڑھے لکھے، سنجیدہ، عوام دوست، انسان دوست، دانش وَر، شاعر اور سیاست دان تھے۔یہ لوگ پورے خطّے کی سیاست میں کسی نہ کسی طرح شامل تھے اور ان افراد کے علم وشعور ہی کے خوف سے بلوچوں کی سیاسی مخالفت شروع ہوئی اور بلوچ سیاسی ادارے کم زور کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال ہوئے۔ 

ہمیں تو اُن کی جدوجہد کا دس فی صد حصّہ بھی خود میں نہیں ملتا۔ ہمیں اِس بات کا بے حد قلق ہے کہ ہم نے میر غوث بخش بزنجو جیسے پائے کے سیاست دان کی قدر نہیں کی۔ ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے علمی و سیاسی سنجیدگی اپنانی چاہیے تھی۔ مَیں برملا کہتا ہوں کہ 1920ء سے 1960ء تک ہماری سیاست کارکنان کی مرہونِ منّت رہی۔ 

ایسے کارکنان، جو استقامت میں مثالی تھے۔ اُنہوں نے قوم کے لیے اپنی خوش حال زندگیاں دائو پر لگائیں۔ مثلاً عبداللہ جان جمالدینی، گل خان نصیر، ملک پناہ، ملک سعید دہوار، عبدالرحمٰن کرد، ملک فیض یوسف زئی جیسے اکابرین اور دانش وَروں نے سرکاری ملازمتیں چھوڑ یں۔ 

اپنا سرمایۂ زندگی، کاروبار، اثاثے سب قوم کے بہتر مستقبل کے لیے جمہوری سیاست کی راہ میں قربان کردئیے۔ مَیں سائنس کالج،کوئٹہ میں پڑھتا تھا اور اُن دنوں اپنے اِن اکابرین کو وہاں کے جناح روڈ کے تَھڑوں پر بیٹھے دیکھ کر فخر محسوس کرتا۔ آج کسی رہنما سے آسانی سے ملنے یا اُسے اکیلے آتے جاتے دیکھنے کو نوجوانوں کی آنکھیں ترس رہی ہیں۔ کمنٹمنٹ کے ساتھ جینے والے کارکنان کی تعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔

س: سیاست میں اِس تبدیلی کی کیا وجوہ ہوسکتی ہیں؟

ج: طبقاتی کش مکش میں اضافہ، حقوق کی مسلسل پامالی، مُلکی جمہوری اداروں کی بے قدری، خوف و ہراس کا ماحول، سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد پورے خطّے میں بھانت بھانت کے مسائل کا سَر اٹھانا اور 1947ء کے بعد مارشل لاء کا تسلسل اِس شکست وریخت کی بنیادی وجوہ ہیں۔ جب صحافتی، لیبر، طلبہ یونینز اور سیاسی جماعتوں کی جمہوریت اور مُلک میں انصاف کے لیے مخلصانہ جدوجہد دبائی گئی۔ بد عنوانی، اجنبیت، لاتعلقی کی سرپرستی ہوئی۔علاوہ ازیں، نظریاتی سیاست کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے خطرہ سمجھنے والوں کی سیاست میں بلاجواز مداخلت سے یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا۔

س: تو اب سیاست میں بہتری کے لیے کیا کیا جائے؟

ج: ایک تو یہ کہ سیاسی اداروں میں مداخلت بند کی جائے۔نیز، سیاسی جماعتیں بھی خود احتسابی کا عمل شروع کریں۔ ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھاتے ہوئے مثبت تنقید کی روایت ڈالی جائے۔ خود میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے،جب کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اُن کا ازالہ بھی کیا جائے، تو تب کہیں جا کر سیاست میں کچھ بہتری آسکے گی۔

س: آپ کا ادب سے بھی تو گہرا تعلق ہے؟

ج: جی، ہم نے 1977ء میں بی ایس او کے ترجمان کے طور پر دو رسالے بلوچی اور براہوئی زبانوں میں’’ بام‘‘، جب کہ اردو میں’’ سنگت‘‘ کا آغاز کیا۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے مجھے میرے دو پرانے مضامین دئیے، تو مَیں حیران رہ گیا کہ کیا یہ مَیں نے ہی لکھے تھے۔ جبر اور مشکلات ہوں، تو کئی کاموں پر توجّہ کم ہوجاتی ہے، تاہم اس کے باوجود، میرے افسانوں کا ایک مجموعہ بلوچی زبان میں چَھپ چکا ہے۔

مضامین پر مبنی میری ایک کتاب بھی اشاعت کے مراحل میں ہے۔ جب وزیرِاعلیٰ تھا، تو مَیں نے ادب اور ادیبوں پر بہت توجّہ دی، کیوں کہ کسی معاشرے میں ادب کے فروغ اور ادبی ماحول کی آب یاری کے بغیر مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔

س: بلوچستان میں مادری زبانوں میں بنیادی تعلیم سے متعلق کوششوں کا کیا ہوا؟

ج: یہ تو طے ہے کہ جب تک مادری زبانیں نصاب میں شامل نہیں ہوں گی، بچّوں کی علمی اُڑان بلند نہیں ہو پائے گی۔ مُلک میں ہم آہنگی کے لیے زبانوں کے ساتھ انصاف کو یقینی بنانا ہوگا۔ اردو اور انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں،لیکن ان کے ساتھ مادری زبانوں کی بھی بہت اہمیت ہے۔ ہم نے اِس ضمن میں بلوچستان اسمبلی سے ایک بِل منظور کروایا تھا، ابتدائی اقدامات بھی ہوئے،مگر اب کہیں کام رُک گیا ہے۔ اگر ہماری دوبارہ حکومت آئی، تو ہم اس پر ضرور کام کریں گے اور اسے نتیجہ خیز ثابت کریں گے۔

س: آپ نے وزیرِاعلیٰ کی حیثیت سے شعبۂ تعلیم میں کون سے اہم اقدامات کیے؟

ج: شعبۂ تعلیم ہماری حکومت کی اوّلین ترجیح رہا۔ہم نے تربت یونی ورسٹی کی بنیاد رکھی،جہاں آج چار ہزار سے زاید طلباء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تین یونی ورسٹیز اور چار میڈیکل کالجز صوبے کے دُور دراز علاقوں میں قائم کیے۔ مَیں اپنے ایم پی اے فنڈ کا چالیس فی صد شعبۂ تعلیم پر خرچ کرتا رہا۔ہم نے صوبے میں تعلیم کی شرح چار فی صد سے اُٹھا کر 24فی صد تک پہنچا دی۔

س: تربت شہر میں ترقیاتی کاموں کی مثال دی جاتی ہے، تو کیا آپ وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے شہر ہی تک محدود رہے؟

ج: جی نہیں، یہ ایک غلط سوچ ہے۔ مَیں نے تُربت شہر کو ایک ماڈل سٹی بنانے کا فیصلہ کیا اور اِس مقصد کے لیے وہاں ڈیڑھ ارب روپے خرچ کیے، جس میں سے پچاس کروڑ وزیرِ اعلیٰ فنڈ اور باقی ایم پی اے فنڈ سے خرچ کیے گئے۔ میرے دَور میں کئی اضلاع کو 16، 16ارب روپے دیئے گئے، لیکن وہاں ایک ڈسپینسری تک قائم نہیں کی جاسکی۔ 

جناب! بات نیّت کی ہے، آپ نیک نیّتی اور دیانت داری سے کام کریں، تو تب ہی درست طور پر عوام کی خدمت کرسکتے ہیں۔ ہم اب بھی بلوچستان میں ایک نہیں، دس اربن سینٹرز بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تمام علاقوں میں یک ساں ترقّی اُسی وقت ممکن ہے، جب ایم پی اے فنڈز کا استعمال درست اور بہتر منصوبہ بندی سے کیا جائے۔

س: حاصل بزنجو کی رحلت کے بعد آپ پر کافی ذمّے داریاں آن پڑی ہیں، یقیناً بہت سی مشکلات کا بھی سامنا ہوگا؟

ج: نہ صرف حاصل بزنجو ہم سے بِچھڑے، چند برسوں میں ڈاکٹر یاسین بلوچ اور مولا بخش دشتی جیسے دوستوں سے بھی پارٹی محروم ہوگئی۔ حاصل بزنجو بڑے سیاست دان تھے، وہ دوستوں کو ساتھ رکھنا جانتے تھے۔ اُن میں مشکلات سے نکلنے اور جرات کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت تھی۔ پی ڈی ایم کے بنانے یعنی نارتھ اور سائوتھ پول کو ملانے میں اُن کا کردار اہم رہا۔

کوئی تصوّر کرسکتا تھا کہ نواز شریف اور زرداری ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔ حاصل بزنجو12 سال سینیٹ میں رہے، دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رُکن رہے۔ اُنھوں نے کراچی میں تعلیم پائی، جہاں اُن کے یونی ورسٹی اور کلاس فیلوز کی بڑی تعداد صحافت، سیاست اور دیگر شعبوں میں نمایاں تھی، چوں کہ وہ مخلص اور پکّی دوستی میں مثالی تھے، اِس لیے سب اُن کے قریب رہے۔ قومی سیاست کو اُن کے انتقال سے بے حد نقصان پہنچا۔

س: حالیہ بلدیاتی انتخابات میں آپ کی جماعت کی کارکردگی کیسی رہی؟

ج: چوں کہ ہماری جماعت بلوچ علاقوں میں زیادہ فعال ہے، اِس لیے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ہمیں سبقت حاصل ہوئی۔ ان نتائج کے پیشِ نظر ہمیں عام انتخابات میں بھی بڑی کام یابی کی امید ہے، ہاں اگر دھاندلی نہ ہو تو، کیوں کہ 2018ء کے الیکشن میں ہمیں باہر رکھا گیا تھا۔ بس اُس روز سے ہم چین سے نہیں بیٹھے، مسلسل عوام کے پاس جارہے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ دیگر جماعتوں کی نسبت ہماری پارٹی میں خواتین ورکرز کی تعداد خاصی زیادہ ہے، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ ہمارے ہاں اسٹڈی سرکلز کا دوبارہ آغاز ہوچُکا ہے۔ پورے بلوچستان میں پارٹی دفاتر میں خواتین اور مرد ورکرز کے لیے تربیتی پروگرامز، سیاسی مذاکرے اور علمی و ادبی نشستیں ہورہی ہیں۔

س: بحیثیت وزیرِ اعلیٰ کن چیلنجز کا زیادہ سامنارہا؟

ج: سب سے پہلے تو امن وامان کی مخدوش صورتِ حال سے نمٹنا پڑا۔ حالات ایسے تھے کہ سورج غروب ہوتے ہی سفر مشکل ہوجاتا۔ ہر طرف خوف کا سماں تھا۔ کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے درجنوں چیک پوسٹس پر شناخت کروانا پڑتی۔ہم بہترین انتظامی ٹیم کے ساتھ آہستہ آہستہ حالات بہتر کرنے میں کام یاب ہوتے گئے۔

دوسرا اہم چیلنج سینڈک کا تھا،جو 20سال سے چائنیز کمپنیز کے رحم وکرم پر ہے۔ پچاس فی صد چین، اڑتالیس فی صد وفاقی حکومت اور بلوچستان کو صرف دو فی صد مل رہا ہے۔ ریکوڈک کا حال بھی ایسا ہی ہے۔مَیں نے بارکھان اور ڈیرہ بگٹی میں کھدائی کا کام رکوا دیا تھا۔

اِس سلسلے میں بیک ڈور چینل استعمال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی۔ میرے دَور میں پی پی ایل کا نیا معاہدہ نہیں ہوسکا۔ مَیں نے معاہدے پر دست خط نہیں کیے، کیوں کہ’’ آغاز حقوقِ بلوچستان‘‘ کے تحت پیپلزپارٹی نے وعدہ کیا تھا کہ بلوچستان کی حصّے داری کے معاملے میں انصاف ہوگا، لیکن اس ضمن میں خاموشی رہی۔ آپ ہی سوچیں، سی پیک میں 93فی صد چین، سات فی صد وفاقی حکومت، جب کہ بلوچستان اور گوادر کے لیے ایک ٹکا بھی نہیں۔ 

نوکریوں میں حصّہ دیا گیا، نہ ہی ریونیو میں سے کچھ ملا، ایسے میں لوگ ناراض کیوں نہ ہوں۔ آپ جائز حصّہ دیں، پھر آپ کو پورے بلوچستان میں سروے کی اجازت ہوگی۔ ہم آئینی حقوق کی بات تو کرتے ہیں، لیکن آئین کا احترام نہیں کرتے۔ اِس وقت مُلک کو سیکوریٹی اسٹیٹ سے نکال کر ویلفیئر اسٹیٹ کی جانب لے جانے کی ضرورت ہے۔

س: آپ کے ہاں قبائلی نظام کی بھی بات ہوتی ہے؟

ج: اِس میں کوئی شک نہیں کہ قبائلی اور نیم قبائلی معاملات چل رہے ہیں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن علاقوں میں قبائلی نظام نہیں تھا، وہاں بھی یہ نظام پروان چڑھایا گیا۔ اِس ضمن میں لوگوں کی غلط طور پر حوصلہ افزائی کی گئی یا پھر حالات ہی ایسے بنا دئیے گئے کہ جو قبائلی نہیں تھے، وہ بھی قبائلی کہلانے پر مجبور ہوئے۔ ہمیں جدید دنیا کے تقاضے پیشِ نظر رکھتے ہوئے اُن قبائلی روایات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے، جن سے ترقّی، علم، انسانی و اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچتا ہو۔

س: عام خیال ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے بعض ادارے وسائل ہونے کے باوجود ٹھیک طرح کام نہیں کر رہے، اُن کی کیسے اصلاح کی جاسکتی ہے؟

ج: ایک تو نجی شعبوں کے لیے راہ ہم وار کرنی ہوگی۔ نیز، بعض سرکاری ادارے خود مختار بنانے ہوں گے۔ نجی شعبے مکران میں کھیلوں کی سرپرستی کررہے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو مثبت سرگرمیاں نصیب ہورہی ہیں۔ شہید غوث بخش رئیسانی اسپتال اور نیفرو لوجی انسٹی ٹیوٹ خود مختار ہونے کی وجہ سے فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ 

ایسا تعلیم کے شعبے میں بھی ہوسکتا ہے۔اِسی طرح کے اقدامات سے گھوسٹ اسکولز اور جعلی ملازمین پکڑے جاسکتے ہیں اور کام چوروں سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔نجی اداروں کو کھیلوں، ادب، فنونِ لطیفہ سے وابستہ افراد اور تنظیموں کی معاونت کرنی ہوگی۔ اِس کے علاوہ، ہمیں 180ڈگری پر نئے خیالات اور تازہ تخلیقی عمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ موجودہ مفلوج نظام سے نکلنے کے لیے جدید سائنٹیفک انداز میں سوچنا ہی کام یابی کی کنجی ہے۔

س: کہا جاتا ہے کہ آپ ایک نرم سیاست دان ہیں؟

ج: یہ میرے بزرگوں کی تربیت کا نتیجہ ہے۔گو کہ سیاست کی اپنی زبان اور رویّے ہوتے ہیں،نیز مَیں پارٹی پالیسیز کا بھی پابند ہوں،تاہم پھر بھی میری کوشش ہوتی ہے اور کارکنان کو بھی کہتا ہوں کہ ہر معاملے کا بغور جائزہ لیں اور بلاوجہ جذباتی ہونے سے پرہیز کریں۔صرف نعرے بازی ہی سیاست نہیں ہوتی، اچھی روایات بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ 

سازشی تھیوریز میں اُلجھنے کی بجائے ہر مثبت قدم قبول کریں، علمی بنیادوں پر منطق اور دلیل کے ساتھ بات چیت کو فروغ دیں، بلاوجہ کش مکش سے گریز کریں۔ آپ کو ہماری پارٹی میں کسی حد تک اِن بنیادوں پر سیاست کو رواج دینے کا تاثر یقیناً مل رہا ہوگا۔

س: کیا آئندہ انتخابات میں دیگر جماعتوں سے اتحاد کریں گے؟

ج: ہمارے دروازے کُھلے ہیں، جو بلوچستان کے مفاد میں بہتر ہوگا، ہم کر گزریں گے۔ ہم ذہنی طور پر اتحاد کے لیے تیار ہیں، لیکن ابھی تک کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ ایک بہتر ماحول اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ہماری پارٹی لچک رکھتی ہے۔

س: کھیلوں سے کتنی دل چسپی ہے؟

ج: صحت بخش ماحول کے لیے کھیلوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مَیں فُٹ بال اور والی بال کھیلتا رہا ہوں۔ ہمیشہ کھیلوں کی سرپرستی کی۔بلوچستان کے کھلاڑیوں کو قومی سطح پر قبول کرنے کی ضرورت ہے۔

س: لکھنے پڑھنے کے لیے کب اور کتنا وقت نکالتے ہیں؟

ج: پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد لکھنے پڑھنے کی رفتار سُست ہوگئی،لیکن پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ مہینے ،دو مہینے میں ایک آدھ کتاب تو پڑھ ہی لوں۔ کارکنان کو بھی مطالعے کی ترغیب دیتا ہوں۔ پارٹی دفاتر میں چھوٹی موٹی لائبریریز قائم کی ہیں، جو اسٹڈی سرکل کا حصّہ ہیں۔ 

علم اور کتاب دوستی کے بغیر سیاست کے دائو پیچ سمجھنا مشکل ہے۔ پارٹی رہنما کے ساتھ کارکنان کو بھی علمی و عملی سیاست میں تبدیلیوں سے باخبر ہونا چاہیے، جس کے لیے صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے تاکہ کارکن سیاست سمیت کسی بھی شعبے میں جائیں، تو ایک ذمّے دار انسان کے طور پر اپنی انفرادیت قائم رکھ سکیں۔

س: آپ کے بچّے بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے ہیں؟

ج: مَیں موروثی سیاست کے خلاف ہوں، تاہم میرے بچّے بلوچ سیاست کا حصّہ ضرور ہیں۔ دو بیٹے انجینئرنگ کرچُکے اور ایک نے بی اے کیا ہے،مگر بے روزگار ہیں۔ دو بیٹیاں ہیں، جو ایم بی اے کرچُکی ہیں اور اُن میں سے ایک لیکچرار ہے۔ میری طرف سے اُن پر کوئی پابندی نہیں، وہ اپنے ہر معاملے میں خود مختار ہیں۔

س: کون سا رنگ پسند ہے؟

ج: مَیں سُرخا، یعنی ترقّی پسند ہوں، جس کا علامتی رنگ سُرخ ہے۔

س: کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟

ج: مجھے مچھلی بے حد پسند ہے۔

س: آپ کے دوستوں کا حلقہ خاصا وسیع ہے، اِس کی کوئی خاص وجہ؟

ج: میری نظر میں زندگی دوستوں کے بغیر ناکارہ ہے۔ میرے سارے دوست ،پہلے میرے دوست ہیں، بعد میں وہ کچھ اور ہوسکتے ہیں۔ ایک رہنما کو اچھے دوست بنانے اور دوستیاں قائم رکھنے میں سکون ملتا ہے۔ تاہم، دوست کا ہم خیال ہونا ازحد ضروری ہے کہ جو ہم خیال نہ ہوں، وہ کبھی کبھار دردِ سر بن جاتے ہیں۔

س: آخر میں کچھ کہنا پسند کریں گے؟

ج: شُکر ہے، آپ نے پیغام نہیں کہا، کیوں کہ مَیں خود کو آج بھی ایک سیاسی کارکن ہی تصوّر کرتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ سیاست میں بے جا مداخلت کا خاتمہ ہو، فلاحی ریاست کے لیے جدید انداز میں سوچا جائے، میڈیا ہائوسز، عدالتیں اور اہم قومی ادارے غیر جانب داری کا مظاہرہ کریں۔ ہمیں مِل جُل کر اِس نظام کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے ماحول سازگار بنانا ہوگا۔ سیاست برائے سیاست نہیں ہونی چاہیے، مَیں سیاست برائے عوام اور سیاست برائے قومی وقار کو ہر حال میں بہتر سمجھتا ہوں۔