اسلام آباد ہائیکورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاصف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا شوکاز نوٹس صرف فنڈز کی ضبطگی کی حد تک ہے، الیکشن کمیشن اس شوکاز نوٹس میں کوئی ڈکلیئریشن نہیں دے گا، الیکشن کمیشن اس شوکاز نوٹس میں کوئی کریمنل کارروائی بھی نہیں کرے گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ جی بالکل، شوکاز نوٹس میں فنڈز کی ضبطگی کی حد تک کارروائی ہوگی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوال کیا کہ کسی جماعت کے فنڈز ضبط ہوجائیں اور اکاؤنٹس میں رقم ہی نہ ہو تو پھر کیا ہوگا؟
جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اختیار تھا؟ کس قانون کے تحت آپ نے معاملہ وفاقی حکومت کو ریفر کیا؟ یہ تو ایک جماعت پر اپنا زہر نکالنے جیسا ہوا کہ معاملہ حکومت کو بھیج دیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ وفاقی حکومت کو معاملہ نہ بھی بھیجتے تو فرق نہیں پڑنا تھا، آپ تو رولز کے تحت صرف فنڈز ضبط کرنے کی کارروائی کر سکتے تھے، آپ نے تو صرف آئینی طور پر اپنا کام کرنا تھا جو فنڈز ضبطگی تک ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ آپ نے قرار دیا ایک بندے کیلئے کہ وہ سچا نہیں، کل کوئی اس پر 62 ون ایف کی کارروائی شروع کر دے تو کیا ہوگا؟
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سادہ سی بات ہے جس پر کہانی 6 سال سے چل رہی ہے، ہر جماعت نے فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنی ہیں، الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے، آپ نے انہیں مطمئن کرنا ہے۔