• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کسی بھی شخص سے ابتر معاشی حالات کی وجہ پوچھیں۔ ”برے حکمران“ وہ جھٹ آپ کو جواب دے گا۔حقیقت مگر یہ ہے کہ پورا معاشرہ ہی تباہ ہو چکا۔ آپ لین دین کے معاملات کر کے دیکھیں تو دس میں سے 8افراد وعدہ شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔یہ سوچ ناپید ہو چکی کہ اچھا کام کر کے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مزید کنٹریکٹ حاصل کیے جائیں۔ ایک عظیم اکثریت پہلی ہی دفعہ میں مرغی کو چھری پھیر دینے پہ یقین رکھتی ہے۔ کام اس وقت تک نہیں کرتے، جب تک خطرناک نتائج کی دھمکیاں نہ ملیں۔ وعدہ شکنی اور دھوکہ دہی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، معاشرے میں بظاہر جو غیر معمولی ساکھ کے حامل ہیں۔پھر یہ معاشرہ فلاح کیسے پائے؟ آپ کورٹ کچہریوں میں جا کر دیکھیں۔ جھوٹے مقدمات میں لوگ ایک دوسرے کو اتنا ذلیل کرتے ہیں، جتنا کر سکتے ہیں۔ ایک چیز ہوتی ہے، جسے چالاکی کہتے ہیں اور دوسری چیز حکمت ہوتی ہے۔ انسانی ذہن جب لالچ کی روشنی میں معاملات دیکھ رہا ہو تو وہ چالاکی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے میں دور تک دیکھنے کی اس کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ دیر پامستقبل میں بدترین ناکامی چالاکی کی منتظر ہوتی ہے۔شارٹ ٹرم چالاکی کی سب سے واضح مثال ہیں، جناب آصف علی زرداری صاحب۔ ان کے بارے میں عام لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری۔ زرداری صاحب جب چال چلتے ہیں تو سب کو پچھاڑ دیتے ہیں۔زرداری صاحب کی سب سے بڑی ضد تھی کہ ججوں کو انہوں نے بحال نہیں کرنا اور سب کو لالی پاپ دیے رکھنا ہے۔تاہم جج بھی بحال ہوئے اور ان کی نیک نامی بھی جاتی رہی۔ وہ پیپلزپارٹی جسے بڑے سے بڑا آمر ختم نہ کر سکا، زرداری صاحب نے اسے سندھ تک محدود کر ڈالا۔ اسکے باوجود لوگ انہیں بڑا ذہین فطین مانتے ہیں۔

ایک شخص موٹرسائیکل پہ بچوں کو سوار کیے اہلیہ سمیت کھڑا ہوگا۔ آپ کو بتائے گا کہ گھر سے نکلے تھے، پیٹرول ختم ہو گیا، بٹوہ کہیں گر گیا۔ حیرت تب ہوگی، جب کچھ دن بعد کوئی اورموٹر سائیکل سوار اسی کہانی کے ساتھ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ مانگتا نظر آئے گا۔ ایک ٹیکسی آپ کے پاس رکے گی۔ ڈرائیور کہے گا کہ گھر میں موت ہوگئی تھی۔ کئی دن گاڑی کھڑی رہی۔ پیسے نہیں چاہئیں، بس دو لٹر پٹرول ڈلوا دیں۔ اس کہانی کو سنا کے دل موم کرنے والے بھی جا بجا ملیں گے۔ ایک وہ ایزی لوڈ والی صبا ہے۔ اکثر ایک لڑکی آپ کے پاس آکر کہتی ہے: ہم بچوں کی ویلفیئر کے لیے کام کرتے ہیں۔ آپ اس صفحے میں سے کوئی سا اسٹیکر اسکریچ کریں۔ نیچے سے جتنی رقم لکھی ہوئی ملی، وہ آپ نے ہمیں عطیہ کرنی ہے۔ زندگی میں تین چار بار ایسے کیسز سے واسطہ پڑا، جو بری طرح بدحال تھے۔ جب انہیں ڈرائیور یا ٹائپسٹ کی نوکری پیش کی تو انکشاف ہوا کہ وہ کام کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کی عورتیں البتہ گھروں میں کام کر کے اپنے شوہروں کو پال رہی تھیں۔ معاشرے کا ہر وہ شخص جو کام کیے بغیر زندہ رہ سکتاہے، فارغ بیٹھا ہے۔ سمجھ یہ نہیں آتی کہ قطر والوں کی موٹیویشن کا راز کیا ہے۔پچیس تیس لاکھ آبادی کا وہ ملک جو تیل اور گیس کی دولت سے مالامال ہے۔ پاکستان سمیت دنیا جس سے گیس خرید رہی ہے۔تراسی ہزار ڈالر فی کس سالانہ آمدنی کے حساب سے دنیا کا پانچواں امیر ترین ملک۔ ہمارے پاس قطر کے تیل اور گیس کا ہزارواں حصہ بھی ہوتا، ہم نے باقی زندگی کام ہی نہیں کرنا تھا۔انہوں نے ورلڈ کپ منعقد کراکے آمدنی میں اضافہ کیا۔

ہمارے برباد ہونے کا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے۔سود ادا کرنے کے پیسے نہیں۔ ایل سیز کھل نہیں رہیں۔ ادویات سمیت اہم ترین ضروریاتِ زندگی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ خاکمِ بدہن پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اس کے باوجود اس کے معزز شہری کام کرنے کو تیار نہیں۔

ایک مرگی کے مریض کو پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے پاس لے کر گیا۔ پروفیسر صاحب نے پوچھا: کام کیا کرتے ہو۔ کہنے لگا: مرگی کا مریض ہوں۔ ہر مہینے دو تین دورے پڑتے ہیں۔ میں بھلا کیا کام کر سکتا ہوں۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا: میرے پاس ایسے بھی لوگ آتے ہیں، جنہیں روز مرگی کا دورہ پڑتا ہے، وہ پھر بھی کام کرتے ہیں۔

آپ کو چوراہوں میں ایسے لوگ ملیں گے، جو ہٹے کٹے ہوں گے۔ مصنوعی طور پر ایک ٹانگ پہ دباؤ ڈال کر لنگڑاتے ہوئے بھیک مانگ رہے ہوں گے۔ کسی کا ہاتھ کٹ جائے یا کوئی معمولی معذوری کا شکار ہو جائے توعمر بھر وہ بھیک مانگنے والی مشین بن جاتا ہے۔مانگتے جاؤ، مانگتے جاؤ

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

تازہ ترین