• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بچپن میں آج کی طرح ٹی وی ، کیبلزاور سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اس لئے معلومات کا ذریعہ یا تو ریڈیو تھا یا اخبار اور کتابیں۔ تقریباََ ہر علاقے میں آنہ لائبریریاں ہوتی تھیں جہاں سے کرائے پر ناول اور دیگر کُتب آسانی سے دستیاب ہو جاتی تھیں۔ اس زمانے میں جنوں پریوں کی کہانیوں کے علاوہ جادوگروں ، جادوگرنیوں اور ان کے جادو ٹونے کے مقابلوں پر مشتمل ناول زیادہ پسند کئے جاتے تھے، جن میں بڑے عجیب و غریب حلیوں کے پراسرار کردار موجود ہوتے تھے، جن کا عام زندگی میں تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ شاید وہ اسی وجہ سے اچھے بھی لگتے تھے اور جب تک ہم وہ ناول پورا پڑھ نہ لیتے اسےرکھتے نہیں تھے۔ ناول ختم کرنے کے بعد ہم اس پُر اسرار کہانی کی پُراسرار دنیا میں کھو جاتے اور صبح اسکول جاتے ہی اپنے دوستوں سے بھی اس کا تذکرہ کرنا نہ بھولتے یوں تو پاکستان میں بھی ہمیشہ محلّاتی سازشیں اور ان میں حصّہ لینے والے پر اسرار کردار موجود رہے ہیں جیسا کہ غلام محمد جیسا گورنر جنرل جو ذہنی طور پر تقریباََ معذور تھا۔ اس کی گورننس کے علاوہ اس کی بات بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی اور جو پنجابی میں بڑی بڑی گالیاں نہایت روانی سے دیا کرتا تھا یا پھر یحییٰ خاں جس کی بے راہ روی اور عیش و نشاط کے قصّوں سے ہر کوئی واقف ہے۔ اسی طرح اگر عمران خان کے دورِ حکومت اور اسے اقتدار میں لانے کیلئے کی جانے والی محلّاتی سازشوں اور ان میں حصہ لینے والے کرداروں کا ذکر کیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اکیسویں صدی میں جادو ٹونے ، توہم پرستی اور اخلاقی پستی کے جو ہولناک انکشافات سامنے آرہے ہیں وہ بچپن میں پڑھی ہوئی طلسمات نگر کی کہانیوں کے پر اسرار کرداروں سے کسی صورت کم نہیں ۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کےلئے کسی موقع پرستی اور بے اصولی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ وہ اپنے قریب ترین ساتھیوں جہانگیر ترین اور علیم خان کو ٹشو کی طرح استعمال کرکے پھینک دینا ہو یا اپنے دیگر محسنوں کے خلاف سازشیں کرنا ہو، عمران خان نے اس معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ کپتا ن کی رہائش گاہ بنی گالہ میں ہونے والے ڈراموں اور ان میں حصہ لینے والے ڈرامائی کرداروں کی کچھ جھلکیاں ان دنوں میڈیا میں زیرِ گردش ہیں۔ جو دراصل ٹریلر ہیں اس فلم کا جس نے پاکستان کو تبدیلی کے نام پر تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا ہے۔ آپ ذرا غور کریں یہ پراسرار کردار پنجاب جیسے صوبے کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے تھے اورعثمان بزدار کے پردے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ عمران خان عثمان بزدار کے اس قدر دلدادہ تھے کہ اسے اپنا’’وسیم اکر م پلس ‘‘قرار دیتے تھے۔ اور لگتا تھا کہ وہ عثمان بزدار کو پارٹی میں بھی اپنے بعد سب سے بڑا عہدہ دیں گے۔ لیکن آج وہ وسیم اکرم پلس کہیں نظر نہیں آرہا۔ روحانی شخصیت ہونے کی دعویدار ایک خاتون نے نہ صرف حکومتی امور میں خود حصہ لیا بلکہ ان کے مشوروں پر عمران جیسے آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے شخص نے توہم پرستی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً ہاتھوں سے زمین پر پھول بچھانا ، کچھ ناموں ، جگہوں اور تاریخوں پر انحصار کرنا، کسی کے جنازے میں نہ جاناوغیرہ وغیرہ ۔ اسی سلسلے کی ایک تازہ خبر یہ ہے کہ عمران خان نے آج سے ساڑھے تین سال پہلے وفات پا جانے والے اپنے قریبی ساتھی کرکٹر عبدالقادر کے گھر والوں کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملنے زمان پارک آئیں تاکہ وہ ان سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت کر سکیں ۔ اس کے جواب میں عبدالقادر کے بیٹے نے یہ کہتے ہوئے جانے سے انکار کر دیا کہ لوگ مرنے والے کے گھر تعزیت کرنے جاتے ہیں ، تعزیت کروانے کوئی کسی کے گھر نہیں جاتا۔ عمران خان اسی قسم کا سلوک پہلے اپنے قریبی ساتھی نعیم الحق اور کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے دہشت گردی کا شکار ہونے والے لوگوں کے ساتھ بھی کر چکے ہیں۔ ان کے نورتنوں میں مرزا شہزاد اکبر، شہریار آفریدی، نیب کے سابق چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور زلفی بخاری جیسے لوگ بھی شامل رہے ہیں۔شہزاد اکبر ہر روز ایک نئی پریس کانفرنس میں اپوزیشن پر نت نئے الزامات لگاتے جو کبھی ثابت نہ کر سکے۔ اسی طرح عمران خان نے جسٹس جاوید اقبال کی مبینہ وڈیو کے ذریعے اسے بلیک میل کرتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بے بنیاد مقدمے قائم کئے ۔ شہر یار آفریدی خدا اور رسول ﷺکی قسمیں کھا کر یہ بتاتے تھے کہ رانا ثنا اللہ سے کئی کلو منشیات برآمد ہوئی ہیں، جو سراسر جھوٹ اور بہتان پر مبنی الزام تھا۔ جس کی تصدیق فواد چوہدری بھی کر چکے ہیں۔ کیا پاکستان اس قسم کے غیر فطری تجربوں کامزید متحمّل ہو سکتا ہے۔ ذرا سوچئے ؟

تازہ ترین