• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غربت، سیاست، بدمستیاں

جب سیاست اپنی بنیادی تعریف اور مقصد کھو دے تو غربت اور بدمستیاں جنم لیتی ہیں، کسی کو برا یا اچھا نہ کہہ سکیں اور پیشگویوں پر انحصار ہو تو ایک ایسا گھڑمس مچ جاتا ہے کہ خیر و شر سجھائی نہیں دیتا، ان دنوں ایک وہ ہیںجنہیں روٹیاں نچاتی ہیں اور جن کی روٹی پوری ہے وہ میڈیا پر ان کا احوال ایک من پسند ڈرامے کی طرح ذوق شوق سے دیکھتے اور اپنی روٹی کو نہایت عقیدت سے بچا بچا کر کھاتے ہیں اور ایک طبقہ وہ ہے جو تعداد میں بہت کم مگر بیداد میں ثریا پر عیش و نشاط کی زندگی بسر کرتا ہے۔ ان دنوں مظلوموں اور ظالموں میں فرق کرنا مشکل ہے، یہ جو چال چلن آج ہمارا ہے اس بارے میںاقبالؔ نے کہا تھا ؎

اے شیخ و برہمن سنتے ہو کیا اہل بصیرت کہتے ہیں

گردوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے

سیاست انسانوں کی محنت کو اکارت جانے اور اپنے کام میں لانے کا نام نہیں بلکہ محنت کی کمائی کو قوم کی بہتری پر اس طرح خرچ کرنا کہ احساس کمتری پیدا نہ ہو، ہوس کا خاتمہ ہو، اپنی ضرورت سے زیادہ کو ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کو کہتے ہیں، پروٹوکول کی ڈسی قوم کب برابری کا دعویٰ کرسکتی ہے؟ جب بھی حرام و حلال کو یکساں سمجھا جاتا ہے عدم مساوات پیدا ہوتی ہے، یہیں سے ذہنی فکری اور عملی زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ قوم کی رہنمائی کے دعویدار جب اپنے رستے سیدھے کرتے ہیں تو سیدھے رستے چلنے والوں سے خالی ہو جاتے ہیں اور غلط راہوں پر اتنا رش کہ آگے بڑھنے کےبجائے پیچھے چلنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، دولت کی غلط تقسیم ہی ہر مرض کا باعث ہے۔

٭٭٭٭

بدگمانی

بدگمان کردینے والا پروپیگنڈہ قوموں کی زندگی کے لئے زہر قاتل ہے، اگر ہر شخص اپنے حصے کا سچ بولے اور سچ کر دکھائے تو ہمارے معاشرے میں گومگو کا عالم باقی نہ رہے اور وقت کا ضیاع بھی نہ ہو، آخر کیا وجہ ہے کہ غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیاجبکہ ہم یہ کام بکثرت انجام دیتے ہیں، بدگمانیوں سے انسانی رشتے ٹوٹتے اور شیطانی تعلقات استوار ہوتے ہیں، کہنے کو تو ہر شخص رہنما ہونے کا دعویدار ہے مگر وہ گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا، قلم کو اللہ نے بڑی قوت عطا کی ہے، اب یہ اہل قلم پر ہے کہ وہ ہدایت کا راستہ دکھائیںیا گمراہی کے اندھیروں میں پھینک دیں، بسا اوقات ہم جسے حق سمجھتے ہیں وہ باطل ہوتا ہے مگر ہم اپنے کہے کو گمراہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، اپنی ذات کے مفاد سے نکل کر دیکھیں تو معاشرے کا ہر فرد خوشحال ہو جائے، بدگمانی کی کوئی دلیل کوئی گواہی نہیں ہوتی، اس کے باوجود ہم اسے عین الیقین سمجھتے ہیں،یہی وہ بیماری ہے جو انسانیت کو چاٹ جاتی ہے، ہم میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ شخصیت پرستی کو خدا پرستی سمجھ کر اپنے دونوں جہان لٹا بیٹھتے ہیں، جب صورتحال یہ ہو جائے کہ کس کو اچھا کہیں کسے برا جانیں، تو سمجھ لیں کہ ہماری اجتماعی بصیرت رخصت ہوگئی ہے، بدگمانی چھوڑ دیں اور خوش گمانی میں محتاط رہیں یہی سچ ہے۔

٭٭٭٭

قاتل اَنا

انسان کو اپنی اَنا کی پرورش تباہ کردیتی ہے، شخصیت میں سے ’’میں‘‘ کو منفی کردیا جائے تو انسانیت باقی رہ جاتی ہے جو اپنے ساتھ ظلم کرتی ہے نہ کسی دوسرے کےساتھ زیادتی، اچھائی میں سہولت ہے جبکہ برائی کے لئے بڑے الٹے سیدھے جتن کرنے پڑتے ہیں، اچھائی میں پچھتاوا نہیں، برائی میں جانکاہ پچھتاوا جینے نہیں دیتا، کہنے کو تو ہم مزاح بھی گھڑ کر آپ کو جھوٹی ہنسی دے سکتے ہیں مگر ماتم میں شہنائی کیسے بجائیں، اَنا ختم کرنے اور اپنے نفس کو جاننے سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے، ملک میں کوئی سرکس بھی تو نہیں، بس ایک دشتِ ویراں ہے اور ہم ہیں دوستو! بہر حال ناامیدی نہیں، پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے، یہ مملکت خدا داد ہے، اللہ اس پر کرم کرے گا،ڈرامہ اور حقیقت جدا جدا نظر آئیں گے کیونکہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، بشرطیکہ ہم آسانی کے طلبگار ہوں، میڈیا کو سمجھنے کے لئے گزارش ہے کہ اسے بحیثیت مجموعی دیکھیں کھرا کھوٹا واضح ہو جائے گا، سچی خبر کڑوی ہوتی ہے مگر تاثیر میٹھی، اچھائی کو مان لو برائی کو جانے دو، دیکھو ہر چینل مگر چشم حق پرست کے ساتھ، پروین شاکر نے تو کہا تھا بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے مگر ہم یہ کہتے ہیں میڈیا چشم کشا ہے، ہر شخص ہمارے عہد کا بے باک ہوگیا۔

٭٭٭٭

اک طرفہ تماشا ہے

o ...پی ٹی آئی: صدر مملکت، وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔

ان دنوں ملک بھر میں بے اعتمادی کو رواج دینے کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے، بے اعتمادی پی ٹی آئی کی دیکھنا چاہئے۔

...o احسن اقبال:عمران ہماری حکومت ڈھانے نکلے تھے اپنی حکومت کو ختم کیا۔

ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

...o اس وقت کی تازہ خبر یہ ہے کہ سب نے سر جوڑ لئے ہیں، دیکھئے کوئی جوڑ لگتا ہے یا یہ ملک بے جوڑ ہی آسمان میں تھگلی لگاتا رہے گا۔

...o تحلیل کے بادشاہ کہیں خود کو تحلیل نہ کر بیٹھیں، نواز شریف کو فارغ کرنے سے اس ملک نے جو پا لیا وہ سب کے سامنے ہے، ہم بنا کر بگاڑنے کے کیوں شوقین ہیں، غور کریں۔

٭٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین