• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچ نوجوان اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑتے رہیں گے

بات چیت: وحید زہیر

معروف ادیب، شاعر، ڈاکٹر سلیم کُرد پیشے کے اعتبار سے ایلوپیتھک ڈاکٹر ہیں۔ حال ہی میں بحیثیت ڈائریکٹر ہیلتھ، سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے ہیں، زمانۂ طالب علمی سے طلبہ سیاست کاحصّہ رہے، اس دوران ملک کے اہم سیاسی رہنماؤں کے ساتھ قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ اسیری کے دوران اُن پر جو کچھ بیتی اور جن مشکلات و مصائب کا شکار رہے، ان تمام واقعات پر مبنی یادداشتوں کو انھوں نے اپنی کتاب ’’روزنِ زندان‘‘ میں اکٹھا کردیا ہے۔ 

اس کتاب میں 1973 ء سے لے کر 1984 ء تک کے حالات و واقعات اور اُس دَور کا پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، اُن کی دو اور کتابیں ’’سیاسی اصلاحات‘‘ اور صوبہ بلوچستان کی معروف سیاسی شخصیت، ’’یوسف عزیز مگسی کے دَور پر ایک نظر‘‘ بھی خاص و عام میں مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن سے مُلکی سیاسی صورتِ حال، طلبہ سیاست اور مختلف اوقات میں جیل یاترا کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: سب سے پہلے اپنی جائے پیدائش اور خاندان سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: مَیں 25اگست1957ء کو وادئ بولان کے ایک پُرفضا علاقے ’’دشتِ جلب گوئندان‘‘ میں پیدا ہوا۔ یہ علاقہ تین ہزار سال قبلِ مسیح میں آریائوں کی گزرگاہ رہا ہے۔ یونانی سپہ سالار الیگزینڈر کی فوجیں بھی بولان کے ان راستوں کو استعمال کرتی رہیں، چندر گپت موریہ بھی، جنہوں نے قندھار تک ایک عظیم سلطنت قائم کی تھی، ان درّوں کی اہمیت سے واقف تھے۔ پھر والئ قلات، میر محراب خان بلوچ بھی اس مقام پر طویل عرصہ صیہونیوں کے خلاف نبرد آزما رہے اور بالآخر 1839ء میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ 

مَیں نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں قائم پرائمری اسکول سے حاصل کرنے کے بعد کوئٹہ کا رُخ کیا۔ میرے والد، چچا اور خاندان کے دیگر افراد ہمیشہ سے آمرانہ حکومتوں کے خلاف رہے۔ مُلک میں جمہوری نظام کے قیام کی جدوجہد کی پاداش میں جیلیں کاٹیں۔ میرے والد، بابو عبدالرحمٰن کُرد ایک بلند پایہ صحافی، ادیب اور شاعر تھے، وہ سیاست میں عدم تشدّد کے علَم بردار اور خان عبدالغفار خان سے بے حد متاثر تھے، جب کہ مَیں اُن سے متاثر تھا۔

س: سیاست کا آغاز کب کیا؟

ج: چوں کہ میرا پورا گھرانا ہی سیاست سے وابستہ تھا، گھر میں سیاسی ماحول کی وجہ سے سیاسی سُوجھ بُوجھ تو بچپن ہی سے تھی، لیکن عملی طور پر اس میدان میں اُس وقت قدم رکھا، جب عوام مُلک بھر میں ایوب خان کی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ جگہ جگہ ایّوبی آمریت کے خلاف مظاہرے اور جلسے جلوس ہورہے تھے، احتجاجی ریلیاں نکالی جاری تھیں اور اسی طرح کی ایک احتجاجی ریلی 26فروری 1969ء کوکوئٹہ میں بھی نکالی گئی۔ 

اُس وقت میری عمر بارہ برس تھی اور مَیں اپنے چچا، والد اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ اس ریلی میں شریک تھاکہ اچانک پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی اور میرے بڑوں کے ساتھ مجھے بھی حراست میں لے لیا گیا، اس طرح محض بارہ برس کی عمر میں میری پہلی گرفتاری ہوئی۔ اُس روز مجھےعلم ہوا کہ سیاسی انتقام کے دوران عُمر نہیں دیکھی جاتی، سب ہی سے ظالمانہ برتائو کیا جاتا ہے۔

س: گرفتاری کے بعد کیا سلوک کیا گیا؟

ج: ہمیں گرفتار کرکے لاک اپ میں بند کردیا گیا، جہاں ہم پر بے پناہ تشدّد کیا۔ ہم تو سمجھ رہے تھے، یہ احتجاج چند دنوں کا ہوگا، حکومت گھٹنے ٹیک دے گی اور ہم دوبارہ تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہوجائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا، کیوں کہ صوبہ بلوچستان کے تھانوں اور جیلوں کی روایت کے مطابق اگر ایک مرتبہ کسی کا نام اُن کے رجسٹر میں درج ہوجائے، تو پھر پولیس اس کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہے، شہر میں ہونے والی کسی بھی نوعیت کی واردات کے بعد پولیس سابقہ ملزمان کی فہرست سامنے رکھ کر اُن کے گھروں تک پہنچ جاتی ہے، یعنی معافی تلافی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ سو، پھر ہر مارشل لا اور آمرانہ حکومت میں ہمارے خاندان پر اُفتاد پڑتی رہی۔ بھٹو نے سیاسی انتقام میں ہماری قیمتی کانیں دوسروں کے نام کردیں۔ اس دوران اگرچہ کافی مشکلات، مصائب اور دشواریوں کا سامنا رہا، لیکن ہم نے بہرحال ان تمام مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

س: مختلف جیلوں میں قید کے دوران نام وَر سیاسی ہستیوں، خصوصاً معروف شاعر، حبیب جالب کے ساتھ بھی قید رہنے کا اتفاق ہوا، تو اس حوالے سے کچھ بتائیں؟

ج: ایّوب خان کے دَورِ حکومت سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے دَور تک مَیں نے معروف سیاست دانوں میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالولی خان، نواب خیر بخش مری، سردار عطااللہ مینگل، حبیب جالب، میر گل خان نصیر، زمرد حسین، افراسیاب خٹک اور میر عبدالعزیز کرد سمیت دیگر رہنمائوں کے ساتھ کبھی حیدر آباد، کبھی مچھ اور کبھی کوئٹہ کی جیلوں میں تقریباً سات برس اسیری کے کاٹے، تو یہ قید عموماً سیاسی مباحثے، انفرادی و اجتماعی مطالعے اور ادبی و ثقافتی سرگرمیوں ہی کے ساتھ کاٹی جاتی۔ 

سیاسی قیدیوں میں عموماً نظریاتی افراد ایک ساتھ ہوتے تھے اور مختلف قسم کی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے تھے۔ جیل میں علمی مباحث کے علاوہ مشاعروں کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا اور شمعِ محفل، مقبول سیاست دان اور قوم پرست شاعرو صحافی میر گل خان نصیر ہوا کرتے، جب کہ دیگر شعراء میں حبیب جالب، رازق بگٹی، افراسیاب خٹک وغیرہ اپنا کلام پیش کرتے۔ اس قسم کی ادبی محافل میں، چوں کہ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا تھا، تو حبیب جالب صاحب سے بھی کافی قربت رہی۔

س: اُس دَور کی طلبہ سیاست کس قسم کی ہوتی تھی؟

ج: گو کہ سابقہ ادوار میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں زیادہ سرگرم اور فعال رہیں، مگر دائیں بازو کی تنظیموں کا بھی ان تحریکوں میں اہم کردار رہا۔ اُس دَور میں سیاست اصولوں پر مبنی اور باقاعدہ نظریاتی، سیاسی عمائدین کی سرپرستی میں کی جاتی تھی، ہر طالب علم کو اپنے مستقبل کی فکر رہتی تھی، طلبہ نہ صرف اپنا تحفّظ بلکہ تعلیمی اداروں کا تقدّس اور درپیش مسائل ذہن میں لے کر ہی سرگرم ہوتے تھے۔ چار قومیتوں پر مشتمل طلبہ تنظیموں کا ایک اتحاد ’’فیڈرل یونین آف پاکستان‘‘ کے نام سے قائم تھا۔ جس کی قیادت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پاس 1983ء تک رہی۔ 

اس اتحاد میں بی ایس او، پی ایس او، این ایس ایف اور پنجاب نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن شامل تھے۔ بعد میں ضیاء دور میں ’’پاکستان پروگریسیو اسٹوڈنٹس الائنس‘‘ کے نام سے بھی ایک اتحاد کا قیام عمل میں آیا، جس میں ملک بھر کی70طلبہ تنظیمیں شامل تھیں، اس کی سربراہی بھی بی ایس او نے کی۔ 

تاہم، اس کے باوجود بلوچستان کے نوجوان سیاسی کارکن ہمیشہ جیلوں میں نفرت کا نشانہ بنتے رہے۔ الغرض، جنرل محمد ضیاءالحق کے دَور تک کی طلبہ تحریکوں میں دائیں اور بائیں بازو کی قوتیں تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود کسی ایک نکتے پر متفق ہوکر کام کرتی رہیں، جب کہ آج کل کے طلبہ، جن کا کسی سیاسی گروپ سے تعلق نہیں، وہ سیاسی جماعتوں کی سیاست کو مفادات کی سیاست سمجھتے ہیں۔

س: جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ کس قسم کر برتائو کیا جاتا تھا؟

ج: جیل میں مختلف کلاس کےقیدیوں کو الگ الگ وارڈز میں رکھا جاتا تھا۔ اے کلاس میں سماجی حوالے سے معتبرین کو عدالت کے حکم پر رکھا جاتا، جب کہ بی کلاس میں تعلیم یافتہ افرادکو رکھا جاتا۔ ان دو کلاسز کے قیدیوں کو خوراک میں گوشت، سبزی دیئے جاتے اور مطالعے کے لیے اخبارات، کتابیں مہیّا کرنے کے ساتھ خدمت گزاری کے لیے ایک مشقّتی بھی دیا جاتا۔ نیز، زیرِ سماعت ملزموں کو کچّاوارڈ، خطرناک قیدیوں کو بند وارڈ میں رکھا جاتا تھا۔ اس کےعلاوہ جیلوں میں بچّہ وارڈ، زنانہ وارڈ، پاگل وارڈ بھی تھے۔ مچھ جیل میں دو چکّی وارڈ تھے، جہاں قیدیوں سے گندم اور مرچ کی پسائی کاکام لیا جاتا۔

علاوہ ازیں، قالین بافی، کپڑا بُننے اور فرنیچر بنانے کا کام ہوتا تھا۔ ایک زمانے تک مچھ جیل کے کھدّر کا کپڑا مُلک بھر میں مشہور تھا اور یہ سارا کام مشقّت کی سزا کاٹنے والوں سے لیا جاتا۔ جب کہ قیدیوں کو پڑھانے والے ٹیچرزیا بحیثیت طالب علم امتحان پاس کرنے والوں کی سزا میں چھے ماہ تک کی تخفیف ہوجاتی تھی اور یہ اُن قیدیوں کے لیے ہوتی تھی، جن کی سزائیں تین سال سے زائد عرصے پر محیط ہوتیں۔ مَیں بھی جیل میں کچھ عرصہ بحیثیت ٹیچر پڑھاتا رہا اور میرے ایک شاگرد قیدی، صحبت خان کو اُس وقت پھانسی دی گئی، جب اُس کا ایم اے کا نتیجہ آیا اور وہ امتحان پاس کرچکا تھا۔ وہ دن مجھے آج تک نہیں بُھولتا۔

س: سیاسی قیدیوں کو ٹارچر کیمپ بھی بھیجا جاتا تھا، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟

ج: جی ہاں، تھانوں اور جیلوں میں نوجوانوں پر بلاوجہ تشدّد کی وجہ سے ان میں ردِّعمل پیدا ہوتا تھا، اس وقت قلی کیمپ، سی آئی اے، اسپیشل برانچ اور کرائم برانچ میں بھی قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ وہاں ہلاکو خان نامی ایک پولیس افسر کو خصوصی طور پر تعینات کیا گیا تھا، جس کی دہشت سے لوگ کانپتے تھے۔ سیاسی پارٹیز میں ایندھن کاکام کرنے والے نوجوانوں کو زیادہ ڈرایادھمکایا جاتا تھا۔ انھیں کئی کئی روز تک سونے نہیں دیا جاتا تھا، گھنٹوں دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر کھڑا کردیا جاتا۔ 

چمڑے کے ڈیڑھ فٹ لمبے، ایک فٹ چوڑے چھتّر سے، جس پر ’’آجا میرے بالما‘‘ لکھا ہوتا، جسم کے مختلف حصّوں کی چھترول کی جاتی، رانوں پر لکڑی کے موٹے رولر چلائے جاتے، برف کے سِلوں پر لٹایا جاتا، سردیوں میں بدن پر ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا۔ پانی میں مرچ ملا کر زبردستی پلایا جاتا، مرغا بنایا جاتا، پلاس سے ناخن کھینچے جاتے، بجلی کے جھٹکے دیئے جاتے اور اس قسم کی سب ہی سنگین سزائوں کا مَیں نے بھی بار بار سامنا کیا۔

س: پاکستان کی جیلوں میں اب تک اصلاحات کا نظام کیوں روبہ عمل نہیں ہوسکا؟

ج: ہماری کثر جیلیں قیام پاکستان سے قبل بنائی گئی تھیں،لیکن جیلوں میں اصلاحات کے حوالے سے 1965,1953اور 1986ء کے کمیشنز کے بعد بھی کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ حالاں کہ دنیا بھر میں جیل اصلاحات کے سبب عدم رواداری کا خاتمہ ہوا ہے۔ آج میڈیا کی ترقی کی وجہ سے سب کچھ سامنے آجاتا ہے، اُس زمانے میں تو اخبارات پر بھی پابندی عاید تھی، خبریں سینسر ہوجاتی تھیں۔ 

اُس دَور میں عدالتوں میں پیشیوں کے دوران قیدیوں سے بات چیت بھی ناممکن تھی، اب تو جیلوں کے اندر سے بھی بآسانی خبریں نکل آتی ہیں، لیکن اُس دَور میں ہمیں عدالتوں میں بھی ترسا ترسا کر پیش کیا جاتا تھا،آج جس طرح عدالتیں بے وقت بھی کھل جاتی ہیں، تب تصور بھی محال تھا، مگر بہرحال، جیلوں میں اگر ایک طرف اصلاحِ احوال کی کوشش ضروری ہے، تو دوسری طرف کڑی نگرانی بھی بے حد ضروری ہے۔

س: سیاسی جدوجہد کے دوران آپ رُوپوش بھی رہے؟

ج: نظریاتی سیاست دان کبھی رُوپوش نہیں ہوتا۔ ہاں، البتہ ایک دو مرتبہ میری جگہ میرے بڑے بھائی اسلم کُرد کو یا اُن کی جگہ مجھے گرفتار کیا گیا۔ اکثر خفیہ اطلاع دینے والوں کی خبر درست نہیں ہوتی تھی، جس کے باعث بے گناہ افراد دھر لیے جاتے۔اور میرے خیال میں تو آج بھی خفیہ اطلاعات کا نظام کچھ زیادہ سائنٹیفک نہیں۔

س: اپنے زمانے کے نوجوان اور آج کے نوجوانوں میں کیا واضح فرق محسوس کرتے ہیں؟

ج: جب آج کا سیاست دان اُس دَور کے سیاسی رہنمائوں کی طرح نہیں سوچتا، تو پھر عام نوجوان کیسے اپنے بزرگوں اور پیروکاروں کی طرح سوچ سکتا ہے۔ ملکی سیاست کی بات کریں، تو سوائے بلوچستان کی صورتِ حال کے، سب کچھ بدل گیا ہے۔ بس، بلوچستان کے حالات جُوں کے تُوں ہیں، بلکہ دن بہ دن بد سے بدتر ہی ہوتے چلے جارہے ہیں اور اس صورتِ حال پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے زمانے میں مقدمے بنتے تھے، تو قیدیوں کو عدالتوں میں دیرسویر پیش کردیا جاتا تھا، اب تو عموماً اس کی نوبت ہی نہیں آتی، جزا اور سزا کا فیصلہ مخالفین خود کرلیتے ہیں۔

س: موجودہ سیاست اور سیاست دانوں سے متعلق کیا کہنا چاہیں گے؟

ج: میرے خیال میں تو آج کی سیاست غیرنظریاتی سیاست ہے۔ لسانی، علاقائی، مذہبی اور سیاسی منافرت سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے دُوریاں بڑھ رہی ہیں اور نفرت اور انتقام کی سیاست فروغ پارہی ہے۔ سیاست دراصل سماجی سائنس ہے، آج جو قومیں ترقی یافتہ نظر آتی ہیں، تو اُن کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں۔ ان قوموں نے سب سے پہلے اپنے عوام کی مشکلات کم کیں، جہالت کا خاتمہ کیا اور جمہوری اقدار کے فروغ و ترویج کے لیے انصاف، قانون اور مساوات پر مبنی حکم رانی قائم کی، لیکن افسوس ہمارے یہاں سیاسی حالات انتہائی ابتر ہیں، پھر پاکستان کے موجودہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کی مختلف وجوہ میں داخلی اور بیرونی عوامل دونوں شامل ہیں۔ تب ہی سیاسی صورتِ حال انتہائی دگرگوں ہے اور اسے درست سمت اور صحیح ڈگر پر لانے کے لیے قومی اداروں کو ذاتی ملکیت سمجھنے سے گریز کرنا ہوگا، عوام کے آئینی حقوق کا خیال رکھنا ہوگا اور بے جا طاقت کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔

س: ساری عُمر سیاسی جدوجہد کے بعد آج کسی قسم کا پچھتاوا محسوس کرتے ہیں؟

ج: بالکل نہیں،کیوں کہ ہم نے ملک و قوم کے ساتھ کبھی کوئی زیادتی نہیں کی۔1970ء میں ہماری سیاسی جدوجہد ثمربار ہوئی۔ ون یونٹ کاخاتمہ ہوا، پہلے پارلیمانی انتخابات کی بنیاد پڑی، جمہوریت کے آنے سے سیاسی گُھٹن سے آزادی نصیب ہوئی، مگر پتا نہیں تھا کہ جمہوریت پھر سے ہائی جیک ہوجائے گی۔ اُس وقت دنیا بھر میں آمریت کے خلاف تحریکیں چل رہی تھیں، بعض کام یاب بھی ہوچکی تھیں اور جو کام یابی سے ہم کنار ہوئیں، وہ آج ترقی کے ثمرات سے استفادہ کررہی ہیں۔ وہاں کے عوام سر اُٹھا کر چل رہے ہیں، ہمارے اکابرین بھی ان ہی انقلابات سے متاثر تھے، پورے ملک میں اکثر سیاسی عمائدین کی سوچ ایک تھی، مگر بدقسمتی سے ملک کی خارجہ پالیسی کم زور ہونے سے خرابیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔

س: آپ کے خیال میں بلوچستان کے موجودہ حالات کیسے تبدیل ہوسکتے ہیں؟

ج: پچھلے اٹھاون برسوں کے دوران بلوچستان میں چار بغاوتیں ہوچکی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جو صوبہ پاکستان کی گیس کی زیادہ تر ضروریات پوری کرتا ہے، اس صوبے کا بیش تر حصّہ اس سہولت سے محروم ہے۔ وہ صوبہ، جو کوئلے کی ساٹھ فی صد ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ نوّے فی صد اونیکس پتھر فراہم کرتا ہے، جہاں زیر زمین لاکھوں ٹن تانبا موجود ہے، جہاں سب سے طویل ساحلی پٹّی ہے، وہاں کی ستّر لاکھ کی مختصر سی آبادی کا ستّر فی صد حصّہ زمین سے ذرا سا اوپر مگرخطِ غربت سے کہیں نیچے رہ رہا ہے؟ تو ایسے میں اس پس ماندہ صوبے کی حالت کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے سوچ اور نیّت میں تبدیلی لائی جائے، لاپتا افراد کے خاندانوں کی سنوائی ہو، بلوچستان کے جائز حقوق دیئے جائیں، حقیقی جمہوریت کی طرف گام زن ہوکر قوم کو تقسیم دَر تقسیم کرنے والوں کو روکا جائے اور سیاست میں ہم آہنگی پیداکرنے کے لیے رواداری کی فضا قائم کی جائے، تب ہی ہمارے دیرینہ مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اس سے کم پر بلوچ عوام، خصوصاً بلوچ نوجوان راضی ہوں گے اور نہ ہی سمجھوتا کریں گے۔ وہ اپنے جائز حقوق کے حصول کی جنگ لڑتے رہیں گے۔