• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وسیم اختر کے الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت پر الزامات

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما اور سابق میئر کراچی وسیم اختر نے الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت پر جیری مینڈنگ اور پوسٹ پول رگنگ کا الزام لگادیا۔

کراچی میں میڈیا سےگفتگو میں وسیم اختر نے کہا کہ ایم کیو ایم کا کراچی میں مینڈیٹ ہے، اس لیے ہماری بات کو سنا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح الیکشن کرایا گیا یہ ای سی پی پر دھبہ ہے، دنیا بلدیاتی انتخابات کا مذاق اڑا رہی ہے، بیلٹ باکس باہر پڑے تھے، ٹھپے لگ رہے تھے، سب نے دیکھا۔

ایم کیو ایم رہنما نے مزید کہا کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام نے ایم کیو ایم کی آواز پر لبیک کہا، الیکشن کمیشن کو ایم کیو ایم کو سننا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھاکہ ہم نے حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کی خامیوں سے عوام کو آگاہ کیا، اس حوالے سے الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ایم کیو ایم نے دیر کردی۔

وسیم اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور پیپلز پارٹی نے مل کر جیری مینڈرنگ کی ہے، میں پوچھتا ہوں آپ پورے ملک میں 2023 میں ہونے والے الیکشن کیسے کراؤ گے؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر الیکشن کمیشن اتنا ہی قانون کا پابند تھا تو 2020 میں الیکشن ہونا چاہیے تھا، ڈسٹرکٹ کونسل میں بھی 25 یوسیز کا اضافہ کرکے جیری مینڈرنگ کی گئی۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ غلط حلقہ بندیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے 93 سیٹیں لیں، 52 یوسیز ٹھیک کرنے کےلیے حلقہ بندیوں پر پیپلز پارٹی نے اتفاق کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ ہم سے طے کیا تھا، اپنی ہی بات پر عمل نہ کرکے آپ نے شہری سندھ کے مینڈیٹ پر شب خون مارا۔

وسیم اختر نے کہا کہ پیپلز پارٹی حیدرآباد اور کراچی میں جعلی ووٹوں کے ذریعے قابض ہونا چاہتی ہے، افسوس ہے کہ پی پی پرانی ریت پر ہی رہی۔

انہوں نے کہا کہ 75 یوسیز غلط بنائی گئیں، جن میں آبادی کا تناسب درست نہیں تھا، آپ نے کراچی اور حیدرآباد کی پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ آپ سمجھتے ہو کہ اس طرح آپ نے کراچی حیدرآباد کو فتح کر لیا، آپ غلطی پر ہیں ان دونوں شہروں نے آپ کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری صاحب کے الفاظ تھے کہ میں بلاول بھٹو زرداری کو کسی جھگڑے میں ڈال کر نہیں جانا چاہتا، آپ نے پھر اپنے عمل سے اپنے قول کی نفی کردی۔

وسیم اختر نے کہا کہ 2015 کے الیکشن میں ایم کیو ایم کا 11 لاکھ کا مینڈیٹ تھا، پیپلز پارٹی کا 1 لاکھ اور پی ٹی آئی کا بھی 1 لاکھ مینڈیٹ تھا۔

انہوں نے کہا کہ اتنی دھاندلی کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو ڈھائی لاکھ ووٹ پڑا ہے، جماعت اسلامی کو 3 لاکھ اور پی ٹی آئی کو ڈیڑھ لاکھ ووٹ پڑا۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ اتنے جھرلو اور دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد بھی ووٹر ٹرن آؤٹ اتنا کم رہا ہے، ایسے ریموٹ ایریاز جو دور دراز کے ہیں، وہاں کھل کر ٹھپے لگائے گئے کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دوبارہ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، اس انتخابات میں الیکشن کمیشن مکمل ناکام ہوا ہے، ہم الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان چھوڑ رہے ہیں۔

وسیم اختر نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ اس بلدیاتی انتخابات کراچی اور حیدرآباد کا سوموٹو ایکشن لیں۔

انہوں نے کہا کہ تھوڑا سا بجٹ لوکل گورنمنٹ کو ملنا تھا، دھاندلی کرکے اس پر بھی پیپلز پارٹی پارٹی قابض ہوگئی۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری ساری درخواستوں کو رد کیا، ای سی پی کا جانبدارانہ رویہ سب نے دیکھا ہے۔

قومی خبریں سے مزید