• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی معیشت کی زبوں حالی کا ایک سبب برآمدات میں کمی اوردرآمدات میں اضافہ بھی ہے جس سے تجارتی خسارہ روز بروز بڑھ رہا ہے ، حکومت اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے مگر جس قدر درآمدات کم ہو رہی ہیں اسی تناسب سے برآمدات بڑھ نہیں رہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ملکی فیکٹریوں کے لئے ضروری خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے اور مال نہ ملنے سے فیکٹریاں بند ہونے کے خطرات سے دو چار ہیں ۔ برآمدی مال تیار نہیں ہو پا رہا۔ اس طرح درآمد و برآمد میں توازن قائم نہیں ہو رہا اس کا منفی اثر ملکی اقتصادیات پر پڑنا فطری امر ہے ۔ حکومت دوسری تدابیر کے علاوہ اس مسئلے کا ایک حل ہمسایہ ممالک سے تجارت بڑھانے میں تلاش کر رہی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں اس کے پڑوسی ممالک زیادہ تر مسلم ریاستیں ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ایک طرف مشرق وسطیٰ ، ایران اور افغانستان ہیں تو دوسری طرف سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستیں ہیں جن سے پاکستان کے صدیوں پرانے تجارتی روابط ہیں۔ پاکستان دور دراز مغربی ملکوں سے تجارت کرکے نقصان اٹھا رہا ہے اگر ہمسایہ ممالک سے تجارتی شراکت داری قائم ہو تو بہت سا مال ایسا ہے جو آسانی سے منگوا سکتا ہے اور اپنی برآمدات ان ملکوں کو پہنچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایران سے پاکستان کی تجارت خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ دونوں ملکوں کو باہمی تجارت بڑھانے میں گہری دلچسپی بھی ہے۔ اسی ہفتے پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تجارت بڑھانے ، اقتصادی تعلقات میں اضافے، ٹرانسپورٹیشن، سیاحت ، ماہی گیری اور معدنیا ت کے شعبوں میں ایک دوسرے کے وسائل اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لئے مفاہمت کی ایک دو نہیں ، 39 یاد داشتوں پر دستخط کئے ہیں۔ دستخطوں کی تقریب دونوں ممالک کی مشترکہ سرحدی کمیٹی کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر منعقد ہوئی۔ اجلاس میں 2006 اور 2010 میں دونوں ملکوں میں طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے مختلف پہلوئوں پر غور ہوا جن کا مقصد باہمی تجارتی حجم بڑھانے اور پاک ایران سرحد پر راہداری اور سامان تجارت کی حوالگی کو آسان اور بہتر بنانا ہے۔ دوسرے معاملات کے علاوہ اس امر پر بھی اتفاق ہوا کہ کسٹمز، تجارت، ٹرانسپورٹیشن اور ائیرلائن کے شعبوں میں انفراسٹرکچر ضرورت کے مطابق بنانے کیلئے کوئٹہ اور زاہدان کے تاجر مشترکہ سرمایہ کاری کریں گے۔ اشیائے تجارت کی تعداد بڑھائی جائیگی اور ٹیرف میں کمی کی جائے گی ۔ دونوں ملکوں نے باہمی تجارتی حجم 5 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تجارتی توازن قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سرحدوں پر نئی مشترکہ منڈیوں کا قیام بھی مفاہمتی معاہدے کا حصہ ہے ایک اضافی کراسنگ پوائنٹ بھی کوہک پنجگور سرحد پر قائم کیا جائے گا۔ یہ بھی طے پایا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان آزاد تجارت کا معاہدہ کیا جا ئے جس سے اشیائے تجارت کی خرید و فروخت اورتبادلے میں آسانی ہوگی۔ ایرانی علاقے سے ترکی، آذر بائیجان اور دوسرے ملکوں تک سامان تجارت لانے، لے جانے کے لئے راہداری معاہدہ کیا جائے گا جس سے دونوں ممالک کی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔ سامان سے لدی گاڑیوں کوویزایا اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان فیری سروس کا بھی انتظام کیا جائے گا ۔ تجارتی مفاہمت کی یادداشتوں کے معاہدے میں اور بھی کئی اقدامات کا ذکر ہے جن پر عملدرآمد سے اس خطے میں پاک چین اقتصادی راہداری کے بعد اس تجارتی شراکت سے ایک بڑا معاشی انقلاب آسکتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بعض مشکلات بھی ہیں مگر دونوں ملکوں کے عزم صمیم سے ان پر با آسانی قابو پا یا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین