• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کورونا کی وبا کے دوران جس طرح ریکارڈ برآمدات کر کے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں کے روزگار کا تحفظ ممکن بنایا تھا، اس سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ آنے والے وقت میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ان حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نےاپنی پیداواری استعداد بڑھانے پر تقریباً پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری بھی کر لی تھی۔ تاہم گزشتہ چند ماہ کے دوران حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ 20 سے 25 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو آج پھر اپنی بقاکا چیلنج درپیش ہے۔ اس بحران کی ایک بڑی وجہ عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کو قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں نے اس صورتحال میں انڈسٹری کو سہارا دینے کی بجائے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ یکم دسمبر سے تقریبا 50ارب روپے کے ریفنڈ پیمنٹ آرڈرز (آر پی اوز) کی ادائیگی تاخیر کا شکار ہے اور اس رقم میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چھ ماہ کے دوران سیلز ٹیکس کی مد میں واجب الادا رقم 15ارب روپے سے بڑھ کر 75ارب روپے ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں انکم ٹیکس /کریڈٹ کی مد میں 50ارب روپے جب کہ ڈرابیک آف لوکل ٹیکسز اینڈ لیویز (ڈی ایل ٹی ایل) کی مد میں 10ارب روپے کی رقم واجب الادا ہے۔

اس پر مستزاد یہ ہے کہ حکومت نے ڈالر کے مقابلے میں روپےکی قدر کو مصنوعی سہارا دے کر سرکاری اور عام مارکیٹ کےایکسچینج ریٹ میں اتنا بڑا فرق پیدا کر دیا ہےکہ جس کو ختم کرنا ہر گزرتےدن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درکا ر خام مال کی امپورٹ پر بھی غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی ہے جب کہ بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ بھی جاری نہیں کئے جا رہے ۔ ان حالات میں ایکسپورٹرز کے لئے پہلےسےبک کئے گئے برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل مشکل ہو گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ٹیکسٹائل حب فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی تمام تنظیموں کے عہدیداروں نے گزشتہ دنوں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرکے حکومتی پالیسیوں کو انڈسٹری کی تباہ حالی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں 50 فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں جب کہ جو ملیں چل رہی ہیں وہ بھی 60سے 70 فیصد پیداواری استعداد پر کام کر رہی ہیں ۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ سیلاب کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری پہلے ہی اپنے بنیادی خام مال کپاس کی قلت اور عالمی منڈی میں جاری مندی کے باعث برآمدی آرڈرز میں کمی کے باعث مشکلات کا شکار ہے، ایسے میں ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ برآمدات میں ہونے والی کمی کو روک کر روزگار کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے حصول کے ذرائع بحال کئے جاسکیں ۔ اس سلسلے میں حکومت کو پہلی ترجیح ریفنڈز کی فوری ادائیگی کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ ایکسپورٹر کو درپیش سرمائے کی قلت کا فوری خاتمہ کیا جا سکے ۔ گزشتہ حکومت نے اس حوالے سے ایف بی آر میں’فاسٹر ‘ کے نام سے ایک خصوصی آٹومیٹڈ نظام تشکیل دیا تھا جس کے ذریعےریفنڈ فائل ہونے کے 72گھنٹے میں اس کی ادائیگی ہو جاتی تھی۔ اس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو بھی مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا اور حکومت کا ایکسپورٹ انڈسٹری پر چیک اینڈ بیلنس بھی برقرار رہتا۔ تاہم اب ریفنڈ ز کی ادائیگی 72گھنٹوں میں ہونے کی بجائے دوبارہ ہفتوں اور مہینوں کی تاخیر کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایکسپورٹ انڈسٹری کے لئے خام مال کی درآمد پر عائد پابندی بھی فوری ختم کرنی چاہئے کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر ایکسپورٹس بھی امپورٹس پرہی منحصر ہیں ۔ حتیٰ کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنا بنیادی خام مال یعنی کپاس اور سوتر بھی درآمد کرنا پڑ تا ہے ۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں استعمال ہونے والے بہت سے کیمیکلز ، مشینری اور اسپیئر پارٹس بھی بیرون ملک سے درآمد ہوتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عالمی کساد بازار ی کے باوجود انڈیا اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ملنے والے ایکسپورٹ آرڈرز میں اضافہ ہوا ہے ۔اس کے مقابلے میں پاکستان کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لئے اپنے پرانے خریداروں کا اعتماد برقرار رکھنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان میں جاری سیاسی ومعاشی عدم استحکام اور بے یقینی کی وجہ سےبھی دوسرے ممالک کے خریدار ہمارے ایکسپورٹرز کو ایکسپورٹ آرڈرز دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔اس صورتحال میں ٹیکسٹائل برآمدات پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ ختم کئے بغیر ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش بحران کا دیرپا حل ممکن نہیں ہے۔ اس لئے برآمد کنندگان کی لیکویڈیٹی پوزیشن اور عالمی منڈی میں مسابقت کو بہتر بنانے اور دھوکہ دہی و اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے’زیرو ریٹنگ‘ کی بحالی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایکسپورٹرز سے پہلے ٹیکس ادا کرنے کا مطالبہ کرنا اور بعد میں ریفنڈز کے حصول کے لئے طویل انتظار کروانے کی پالیسی، برآمدات میں اضافے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے ساتھ ہی برآمدات کی قدر بڑھانے کے لئے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایسے ماحول کی ضرورت ہو گی جو برآمدی صنعتوں کو معیار کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے سہولت فراہم کرے تاکہ نئی مصنوعات تیار کرنے کے ساتھ ساتھ نئی منڈیوں میں بھی جگہ بنائی جا سکی۔

تازہ ترین