• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ولایت حسین 1998ء میں فوت ہوئے، ان کے بیوی بچے والدین کوئی نہیں ہیں، وہ اکیلے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد تین چچا اور ایک پھوپھی حیات تھیں، یکے بعد دیگرے تینوں چچا فوت ہوچکے ہیں، اُن کی اولاد موجود ہے۔ ولایت حسین نے اپنی زندگی میں وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد میرا مکان پھوپھی کو دیا جائے۔ مرحوم سے زندگی میں ایک قتل ہوگیا تھا ، جس کے خون بہا میں آدھا مکان دے دیا، آدھا ہم نے صدقہ جاریہ کے طور پر مسجد میں دے دیا، وصیت سے ہم سمجھے تھے کہ ہم وارث ہیں ، معلوم یہ کرنا ہے کہ انتقال کے بعد وصیت کی کیا حیثیت ہے ؟ (اشرف حسین ، کراچی)

جواب: ولایت حسین کے کل ترکے سے تہائی بطور وصیت منہا کرنے کے بعد بقیہ ترکہ تینوں چچاؤں کے درمیان مساوی تقسیم ہوگا ،پھوپھی کو کچھ نہیں ملے گا، البتہ ولایت حسین کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے کل مال کے تہائی کے اندر ہی پھوپھی کو دیا جائے گا۔ وصیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’ ثلث مال کی وصیت کرو اور ثلث مال بہت ہے ،(سُنن ترمذی:975)‘‘۔امام سراج الدین محمد بن عبدالرشید سجاوندی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اور جن عورتوں کا کوئی حصہ مقرر نہیں اور ان کا بھائی عصبہ ہے ،وہ عورت اپنے بھائی کے ذریعے عصبہ نہیں ہوتی ،جیسے: چچا اور پھوپھی کہ کل مال چچا کے لیے ہے ،پھوپھی کے لیے نہیں ہے، (السراجی ،ص:30)‘‘۔ پھوپھی کو تہائی حصہ دینے کے بعد بقیہ ترکہ تینوں چچاؤں کو زندہ فرض کرتے ہوئے نکالاجائے گا اور اسی تناسب سے اُن کی اولاد کو دے دیاجائے گا۔