• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

حیدر علی آتش نے یہ شعر شاید پاکستان کی اکانومی کیلئے کہا تھا۔ پاکستان کی اکانومی خطرے میں ہے ؟یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی اکانومی ہے کس چیز کی اکانومی؟۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والی صنعتیں شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی تھیں۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے فوراً بعد یکے بعد دیگرے قائد سمیت اہم ترین قومی رہنما داغِ مفارقت دے گئے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی اثر و رسوخ اور بھارت کے سوویت بلاک میں ہونے کے باعث ہمارا امریکہ کی طرف میلان فطری امر تھا۔ امریکہ نے مالی اور فوجی امداد دے کرہمیں ’’پولیٹکل اکانومی‘‘بنا دیا۔ قیامِ پاکستان کے صرف دس سال بعد ایوب خان نے مارشل لالگا کر جمہوری عمل کو سبوتاژ کر دیا اور یہی امریکہ کے مفاد میں بھی تھا۔ اپنے احکامات اور خواہشات پر مِن و عن عمل کروانے کیلئے امریکہ کو سیاسی رہنمائوں کی نسبت ڈکٹیٹر بھاتے تھے، اس لئے اس نے ہمیشہ ڈکٹیٹرز کی پشت پناہی کی، پاکستان کو قرضوں اور مالی امدادکے نشے پر لگاتا رہایہاں تک کہ اسے سیٹو اور سینٹو کا ممبر بھی بنوا دیا ۔ عام تاثر ہے کہ ایوب خان کے دور میں بے تحاشا ترقیاتی کام ہوئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام امریکہ کی جانب سے اپنے مفادات کے حصول کیلئے پاکستان کو دی جانے والی رشوت تھی جس میں سے حصہ بقدرِ جثہ سمیٹا جا تا رہا۔ ایوب خان نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایبڈو جیسا بدنامِ زمانہ قانون نافذ کر کے محترمہ فاطمہ جناح سمیت تمام اہم اور اپ رائٹ سیاسی کرداروں پر پابندی عائد کردی۔ اگرچہ امریکہ کیلئے ڈکٹیٹر شپ زیادہ موزوں تھی لیکن ایوانِ بالا سے پاکستان کیلئے امداد اور قرضوں کی منظوری کیلئے فرضی جمہوریت تکنیکی مجبوری تھی جس پر ایوب خان اور بعد میں آنے والے فوجی ڈکٹیٹروں نے کٹھ پتلی حکومتیں قائم کیں۔ بھارت کے خلاف فوجی حجم بڑھانے اور امریکہ سے دفاعی ساز و سامان کے حصول میں مگن ہو کر معیشت سے صرفِ نظر کیا جاتا رہا، اس دوران ملکی معیشت کا مکمل طور پر انحصار سپر پاور کے اشارہِ ابرو پر رہا۔ من چاہے سیاسی نظام کیلئے نا پسندیدہ سیاسی کرداروں کو منظر سے ہٹانے اور من چاہوں کو پرموٹ کرنےکی طرح ڈالی گئی اور انہیںملی بھگت سے لوٹ کھسوٹ ، بدعنوانی اور اقربا پروری کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ اُدھر سپر پاور کو جب جب ضرورت پڑی، پاکستان پر قرضوں اور امداد کی بارش کی جاتی رہی لیکن جیسے ہی سپر پاور کی ترجیحات بدلیںاس نے یکسر نظریں بدل لیں کیونکہ ہماری پولیٹکل اکانومی تھی لہٰذاوہ کبھی بظاہر بہت فلورش کرتی رہی اور کبھی روبہ زوال لیکن حقیقت یہی ہے کہ اکانومی کبھی پنپ ہی نہ پائی، پاکستان کبھی ایکسپورٹ یا مینوفیکچرنگ اکانومی بن ہی نہیں پایا۔ بیوروکریسی اور فوجی قیادت پر امریکی گرفت کبھی ڈھیلی نہیں پڑنے دی گئی، فوجی آشیر باد سے ہائبرڈنظامِ جمہوریت کو پروان چڑھایا جاتا رہا۔سوویت یونین کا مقابلہ کرنےکیلئےپاکستان کی معاشی طاقت سے زیادہ فوجی قوت امریکہ کے مفاد میں تھی، پاکستان کو معاشی قوت بنانے میں امریکہ کو کبھی دلچسپی نہیں رہی ۔ ایوب خان کی جانب سے نیم فوجی حکومت کوروایت کا درجہ مل گیا۔ ایوب خان کے بعد جنرل ضیا الحق نے امریکی اسلحے اور پیسے کے زور پر سوویت یونین کو زیر کرنے کا’’کارنامہ ‘‘کیا اور اس کی ٹھیک ٹھیک قیمت وصول کی۔

اکانومی ہچکولے کھاتی رہی، سپر پاور کی مرضی اور ضرورت ہوئی تو اسے سہارا مل گیا، نہیں تو فی امان اللہ ۔ پاکستان کی معاشی خودمختاری چونکہ امریکہ کے مفادات کے خلاف تھی اس لئے امریکہ نے اکانومی کی آبیاری ہونے ہی نہ دی، البتہ اس کے سہولت کار جیبیں بھرتے رہے۔سیاستدانوںاور بیوروکریسی نے اجتماعی مفادات کی بجائے انفرادی مفادات کے تحت پالیسیاں بنائیں،مال سمیٹا اور جب اپنا انٹرسٹ ختم ہوا تو پالیسیاں بدل دیں۔ دانستہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی مسائل میں الجھا کر رکھا گیا تا کہ ہم معاشی ترقی کی بجائے اپنی بقاکے خوف میں مبتلا رہیں اور دفاعی ترقی پر توجہ مرکوز رکھیں۔پاکستان کی بدقسمتی رہی کہ اس پولیٹکل اکانومی کو نہ تو ریگولر اکانومی بنایا جا سکا ،نہ کسی نے ایسی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔پاکستانی اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی و سیاسی بحران کے باعث شدیدخلجان میں مبتلا ہے ۔75سال میں ایسی مایوسی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔زرِ مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی نچلی سطح پر ہیں۔ایل سیز کھولی نہیں جا رہیں، ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ایسی صورتحال میں ایکسٹرنل فیکٹرز غیبی مدد کا کام کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارا ہمسایہ ملک چین رائزنگ پاور ہے جسے ہماری اشد ضرورت ہے۔ اس قسم کی صورتحال سے ایکسٹرنل فیکٹرز نکال لیا کرتے ہیں، اس وقت چین، سعودی عرب اور خود امریکہ پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے۔

رائزنگ اکنامک سپر پاور چین پاکستان کو ریگولر اکانومی میں بدلنے میں مدددے گا۔ پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر لانا چین کی اپنی ضرورت ہے ۔ پاکستان کو رول ماڈل بنا کر وہ دنیا کو اپنے بی آر آئی منصوبے کی طرف راغب کر سکتا ہے۔ دعا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ یکجا ہو جائیں جس کے چانسز بہت کم ہیں کیوں کہ ان کےمفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔خوش قسمتی سے قدرت نے رائزنگ سپر پاور کے مفادات پاکستان سے جوڑ دیئے ہیں، ہمیں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہئے۔ چین کے فنی، تکنیکی، تجارتی اور معاشی تجربات ہمیں سیاسی معیشت سے ایمرجنگ اکانومی بنا سکتے ہیں۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین