• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان غیر سیاسی سوچ کے حامل سیاستدان ہیں۔اپنی سیاست کو ضد اور اناء کی بھینٹ چڑھاتے آئے ہیں۔2008ء سے آج تک ہمیشہ غیر جمہوری فیصلے کئے،جس کا سب سے بڑا نقصان عمران خان کو خود اٹھانا پڑا۔ انہوں نے جب پہلی بار 2008ءمیں بائیکاٹ کا راستہ اختیارکیا تو اس فیصلے سے تحریک انصاف پانچ سال کیلئے سیاسی و پارلیمانی عمل سے مکمل طور پر باہر ہوگئی۔اسی طرح 2014ءکے دھرنے کے نتیجے میں عمران خان کے ہاتھ تو کچھ نہ آیا البتہ اپنی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بیٹھے ۔ 2018ءسے 2022ءتک عمران خان وزیراعظم رہے مگر ہمیشہ اپنی ضد اور اناء کی وجہ سے نقصانات اٹھاتے رہے۔جنرل فیض اور جنرل باجوہ کی بھرپور سپورٹ کے باوجود عمران خان کامیاب وزیراعظم نہ بن سکے،پنجاب کے حوالے سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے بہت کوشش کی کہ عمران خان بزدار کو ہٹا دیں مگر انکی ضد اور اناء یہاں بھی آڑے آتی رہی۔مگر پھر بھی پاکستان کی طاقتور ترین اسٹیبلشمنٹ کی غیر آئینی سپورٹ سے عمران حکومت چلتی رہی بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ عمران حکومت کے برقرار رہنے کے پیچھےکچھ لوگوںکا دماغ تھا۔جوں ہی انہوں نے ہاتھ کھینچاعمران حکومت کا زوال شروع ہوگیا۔یعنی عمران خان کے پاس ایسی کوئی سیاسی فہم و فراست نہیں تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے بغیر چند ماہ بھی حکومت چلا سکتے ۔ قارئین کی معلومات کیلئے عرض کرتا چلوں کہ مبینہ امریکی سازش کا بیانیہ بھی کسی کے ’’فیضـ ‘‘کا ثمر تھا۔چند ماہ میں عمران خان کی مقبولیت کو آسمان تک پہنچانے کے پیچھے بھی وہی دماغ کار فرما تھے۔بہرحال عمران خان نے آج ایک مرتبہ پھر غیر سیاسی فیصلہ کرکے اپنے مخالفین کیلئے کام آسان کردیا ہے۔عمران خان پروجیکٹ کو ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ دو صوبائی حکومتیں تھیں۔ دو صوبوں میں بھاری مینڈیٹ کے ہوتے ہوئے عمران خان سے نبردآزما ہونا خاصہ مشکل تھا۔پنجاب کو منی پاکستان کہا جاتا ہے۔آبادی،رقبے اور وسائل کے لحاظ سے پنجاب دنیا کے کئی ممالک سے بڑا ہے۔ایسے اہم صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہونا بہت غیر معمولی تھا۔مگر عمران خان نے ہمیشہ کی طرح غیر سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے محض اپنی ضد اور اناءکی خاطردو صوبائی حکومتوں کو قربان کردیا۔اس سے پہلے قومی اسمبلی میں ڈیڑھ سو سے زائد سیٹوں کے باوجود مضبوط اپوزیشن کرنے کے بجائے اپنے اراکین اسمبلی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کیلئے قانون سازی کا تمام عمل آسان بنادیا۔چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اپوزیشن لیڈر کے عہدے اپنے پاس رکھنے کے بجائے حکومت کی جھولی میں ڈال دئیے۔یہ سب وہ احمقانہ فیصلے ہیں جو انہوں نے بغیر سوچے سمجھے کئے ، جن کی انہیں بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔

عمران خان پروجیکٹ سے جان چھڑانے کا فیصلہ تو بہت پہلے ہوچکا تھا مگر اب اس کا عملی آغاز ہونے جارہا ہے۔پاکستان کے طاقتور حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان نے پاکستان کی سیاست، معیشت اور ریاستی ستونوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔آج پاکستان کی معیشت جس حال میں ہے، یہ سب ان کا اور ان کی ٹیم کا کیا د ھر ا ہے۔بجائے اس کے کہ عمران پروجیکٹ کو بند کرنے کے لئے دو صوبائی حکومتوں سے ٹکر لینا پڑتی،عمران خان نے فیصلہ سازوں کا کام خود آسان کردیااور دو حکومتوں کی شیلڈ چھوڑ کر باہر آگئے۔ اب لگتا ہےتحریک انصاف کو کبھی طاقت نہیں دی جائیگی۔عارضی عوامی مقبولیت کا بھی حل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔جس طرح سے اسٹیبلشمنٹ نے دن رات ایک کرکے عمران خان کو وزیراعظم بنایا اور مقبول کیا۔اب اسی طرح سے انہیں واپس ان کی جگہ پر لایا جائے گا۔جو کچھ عمران خان کو لانے کے لئے ان کے مخالفین کے ساتھ کیا گیا ،اب اسی مکافاتِ عمل کا سامنا عمران خان کو کرنا ہے۔تادم تحریر پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کا تقرر نہیں ہوسکا مگر پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کا تقرر ہوتے ہی تحریک انصاف کے زوال کا آغاز ہوجائیگا۔ انہوں نے اپنی ضد میں یہ نقصان خود کیا ہے۔اب شاید آئندہ کبھی پنجاب اور خیبر پختونخوا حکومت تحریک انصاف کو نصیب نہ ہوسکے۔تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کیلئے مشکلات میں اضافہ ہونے جارہا ہے۔ معیشت کو ٹریک پر لانا فیصلہ سازوں کی اولین ترجیح ہوتاہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کو معیشت مزید خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔جو خرابیاں اور غلطیاں گزشتہ سات سال میں کی گئی ہیں،انہیں عملی اقدامات سے درست کیا جانا چاہئے۔اسٹیبلشمنٹ مکمل نیوٹرل رہنا چاہتی ہے مگر جو غلطیاں اور ناجائز سپورٹ کی گئی ہے عمران پروجیکٹ کو لانچ کرنے اور کامیاب کرنے میں، ان کا مداوا کیا جائیگا۔تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دیا جائیگا مگر اب عمران خان سمیت کسی کو بھی فاؤل پلے کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی کہ وہ اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے معیشت کو نقصان پہنچائے۔ریاست کو گزشتہ چار سال میں کیسے کھوکھلا کیا گیا ہے،عوام کے سامنے تمام حقائق لائے جائینگے۔ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی چار سالہ حکومت نے جو بھی کرپشن کی ہے،اس کا مکمل احتساب کیا جائے گا۔

تازہ ترین